دریائے سندھ کی اندھی ڈولفن کی آبادی میں 55 فیصد اضافہ

ویب ڈیسک  منگل 16 اپريل 2019
سندھ کے محکمہ جنگلی حیات کی جانب سے کئے گئے تازہ سروے کے بعد نابینا ڈولفن کی مزید 500 تعداد دیکھی گئی ہے۔ فوٹوـ فائل

سندھ کے محکمہ جنگلی حیات کی جانب سے کئے گئے تازہ سروے کے بعد نابینا ڈولفن کی مزید 500 تعداد دیکھی گئی ہے۔ فوٹوـ فائل

 کراچی: صوبہ سندھ کے محکمہ جنگلی حیات نے چار روزہ انتھک سروے کے بعد قوم کو اچھی خبر دی ہے کہ معدومیت کے خطرے سے دوچار سندھ کی نابینا ڈولفن ’بھلن‘ کی تعداد میں 55 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔

محکمہ جنگلی حیات کی جانب سے کئے گئے سروے میں 500 نئی ڈولفن شمار کی گئی ہیں یعنی 2019 میں ان کی کل تعداد 1419 ہوچکی ہے جبکہ 2011 میں ڈولفن کی تعداد 918 تھی۔ ماہرین نے اس کے لیے سکھر سے گدو بیراج تک 200 کلومیٹر کا پانیوں کا جائزہ لیا ہے۔

’ ماضی میں کئے گئے سروے جون اور جولائی میں ہوئے جب دریائے سندھ میں پانی کا بہاؤ اپنے عروج پر ہوتا ہے اور اطرافی نالوں اور آبی راستے بھی پانی سے بھرے ہوتے ہیں۔ لیکن اس بار اپریل میں کیا گیا ہے جبکہ پانی کا بہاؤ کم تھا لیکن بیراجوں کی اطراف میں پانی کی شدت تھی،‘ محکمہ وائلڈ لائف کے کنزرویٹر جاوید مہر نے بتایا۔

جاوید مہر نے اس سروے میں 58 شرکا کو خشکی پر تعینات کیا اور 22 اراکین کو دو کشتیوں میں سوار کرکے ڈیٹا جمع کیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ نایاب سندھو ڈولفن سندھ ڈیلٹا سے لے کر پنجاب میں اٹک تک کے مقام پر دیکھی جاتی تھی۔ لیکن آج کوٹری بیراج سے آگے تک پانی کے بہاؤ نہ ہونے کی وجہ سے اب اس کی آبادیاں ایک محدود علاقے تک رہ گئی ہیں جسے ’انڈس ڈولفن ریزرو‘ کے نام سے تحفظ گاہ کا مقام حاصل ہے۔

پاکستان میں دریائی ڈولفن کا پہلا باقاعدہ سروے 1974 میں سوئزرلینڈ کے پروفیسر جورجیو پیلری نے کیا تھا اور 150 ڈولفن شمار کی تھیں۔ اس کے بعد ڈولفن کے لیے آبی تحفظ گاہ قائم کی گئی تھی۔

جاوید مہر نے بتایا کہ میٹھے پانی میں چار اقسام کی ڈولفن پائی جاتی رہیں جن میں سے اب تین اقسام کی ڈولفن ہی دیکھی جاسکتی ہیں۔ ان میں سے چین کے دریائے یانگزی میں پائی جانے والی ڈولفن ناپید ہوچکی ہے۔ دریائے ایمیزون کی ڈولفن ابھی موجود ہے جبکہ پاکستانی ڈولفن دنیا کے کسی اور علاقے میں نہیں پائی جاتیں۔

جاوید مہر نے کہا کہ ایک قسم کی ہموار بالوں والی اودبلاؤ (Lutrogale perspicillata) کے آثار کے متعلق بھی کہا جس کے فضلے اور قدموں کے نشانات کی بنا پر اس کی شناخت کی گئی ہے اور اس نسل کے بارے میں کہا جاتا رہا کہ وہ اب ختم ہوچکی ہے۔

اس سروے میں دوخواتین ماہرِ حیوانیات ڈاکٹر زیب النسا میمن اور ڈاکٹر کومل عارف ہنگورو نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ دونوں ماہرین نے تمام مشکلات کے باوجود اس اہم تجربے کو بہت اہم قرار دیا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔