بُک شیلف

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ؒ اہل مشرق کے لئے باعث افتخار تھے۔ فوٹو: فائل

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ؒ اہل مشرق کے لئے باعث افتخار تھے۔ فوٹو: فائل

تبصرہ نگار: بشیر واثق
الحدیث( بچوں کیلئے)
مولف: اصغر علی جاوید
قیمت:150روپے،صفحات:88
ناشر: فرح پبلیکیشنز،طارق روڈ، شیخوپورہ


مسلم امہ کے نزدیک حدیث سے مراد اللہ کے حبیبﷺ کی بات چیت، اقوال اور افعال ہیں۔ آپﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں جو بھی فرمایا یا عمل کیا وہ تمام کا تمام ریکارڈ میں موجود ہے کیونکہ صحابہ کرام ؓ آپﷺ کے تمام قول و فعل کو اپنے لئے مشعل راہ بنانے کے لئے سیکھتے رہتے تھے، آپ ﷺ کی حیات طیبہ میں ہی احادیث لکھنے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا تاہم باقاعدہ کتب مدون کرنے کا سلسلہ بعد میں شروع ہوا ۔ مشہور کاتبین احادیث میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ، حضرت سعد بن عبادہ ؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ، حضرت جابر بن عبداللہؓ اور حضرت سمرہ بن جندبؓ شامل ہیں۔

تدوین حدیث میں امام ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاریؒ، امام ابو دائود سلیمان ابن اشعث سجستانیؒ، امام ابو الحسین مسلم بن حجاج نیشاپوریؒ، امام محمد بن عیسٰی ترمذیؒ، امام ابن ماجہ ابو عبداللہ محمد بن یزید قزوینیؒ، امام ابو عبدالرحمان احمد بن علی نسائیؒ، امام ابو عبداللہ مالک بن انسؒ، امام ابو عبداللہ احمد بن حنبل ؒ اور دیگر اہم ائمہ کرام نے اہم کردار ادا کیا، احادیث کی مشہور کتب میں صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ، سنن نسائی، سنن ابو دائود اور دیگر شامل ہیں ۔ زیر نظر کتاب مختصر مگر جامع ہے، مولف کا مقصد بچوں کو حدیث مبارکہ کی اہمیت، تاریخ، اصول اور متن سے آگاہ کرنا ہے مگر اس کتاب سے صرف بچے ہی نہیں بڑے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں کیونکہ آج کے مشینی دور میں انسان کے پاس فرصت کا وقت بہت کم بچتا ہے ایسے میں اس مختصر سی کتاب سے حدیث مبارکہ کی اہمیت اور دیگر پہلوئوں سے باآسانی روشناس ہوا جا سکتا ہے۔

٭٭٭
سلیم ادب
مصنف: پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم
قیمت: 600 روپے،صفحات:224
پبلشرز: مثال پبلشرز، امین پور بازار، فیصل آباد


ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنی زندگی میں علم و ادب کی جو خدمت کی اس سے سارا جہان واقف ہے، ان کے بعد ان کے صاحبزادے ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش نے بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے علم کی شمع کو جلائے رکھا اور جی جان سے خدمت کی۔ سلیم ادب ان کی انھی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تصانیف کا مختصر احاطہ کرنے کے لئے قارئین کی خدمت میں پیش کی گئی ہے۔

ڈاکٹر سلیم آغا نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی، وہ علم و ادب کا گہوارہ تھا، ان کے نامور والد گرامی کے زیر سایہ ادب کی محفلیں ان کی تربیت کا بڑا ذریعہ بنیں، گورنمنٹ کالج سرگودھا میں حصول تعلیم کے دوران پروفیسر خورشید رضوی، پروفیسر غلام جیلانی اصغر، پروفیسرخلیل بدایونی اور دیگر اساتذہ ان پر خصوصی توجہ دیتے رہے، جب انھوں نے اورئنٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور میں داخلہ لیا تو ڈاکٹر سید عبداللہ، پروفیسر منور مرزا، ڈاکٹر خواجہ زکریا، ڈاکٹر حمید یزدانی، ڈاکٹر عبادت بریلوی جیسی شخصیات نے ان کے سر پر دست شفقت رکھا۔ انھیں اندرون و بیرون ملک ادبی فورمز پر اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے خوب مواقع ملے اور انھوں نے اپنی قابلیت کا بڑھ چڑھ کر اظہار کیا۔ ان کی ادبی کاوشوں پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے انشائیہ، افسانہ، نثری نظم، تنقید و تحقیق اور تراجم کے میدان میں قلم کے جوہر دکھائے ہیں۔ ان کے شعری سرمایہ میں زخموں کے پرند، ہے نا عجیب بات،اور ایک آواز ایسے شاہکار مجموعے شامل ہیں۔

سرگوشیاں اور آمنا سامنا دو انشائیوں کے مجموعے اور افسانوی مجموعوں میں صبح ہونے تک، انگور کی بیل اور اعلانوں بھرا شہر ان کی تخلیقی کاوشوں کا ثمر ہیں، انھوں نے خواجہ غلام فرید کی اردو شاعری پر مقالہ لکھنے کے علاوہ مغرب کے انشائیوں کا ترجمہ بھی کیا۔ اپنے والد ڈاکٹر وزیر آغا کی طرح علمی و ادبی محفلوں کی سرپرستی بھی کرتے رہے۔ ڈاکٹر سلیم آغا کا ادبی سرمایہ اس کتاب کی وجہ سے محفوظ رہے گا۔
٭٭٭
کلام اقبال میں ممتاز شخصیات
مصنف: پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم
قیمت:1200 روپے،صفحات:480
ناشر: مثال پبلشرز، امین پور بازار، فیصل آباد


شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ؒ اہل مشرق کے لئے باعث افتخار تھے، اللہ جل شانہ نے انھیں اس خطے کی رہنمائی کے لئے یہاں پیدا فرمایا، انھیں ایسی عقل و دانش عطا فرمائی کہ وہ مردہ قوم کے تن میں نئی روح پھونک سکیں۔ علامہ فرماتے ہیں ’’ میں فلسفی ہوں‘‘ مگر انھوں نے اپنا فلسفیانہ نقطہ نظر زیادہ تر شاعری کی صورت میں بیان کیا کیونکہ شاعری اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کا خوبصورت انداز ہے اور انسان اشاروں کنایوں میں ایسی باتیں بھی کرتا ہے جو نثر میں بیان کرنا ذرا مشکل ہوتا ہے۔

علامہ صاحب نے مشاہیر عالم اور بہت سی ممتاز شخصات کا ذکر اپنی شاعری میں کیا ہے، جس میں مشاہیر کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے جبکہ دیگر شخصیات کو عوام کو اپنی بات سمجھانے کے لئے مثال کے طور پر بھی پیش کیا ہے۔ زیر نظر کتاب میں ایسی تمام شخصات کا ذکر شامل کیا گیا ہے جن کا علامہ اقبال نے اپنی اردو اور فارسی شاعری میں ذکر کیا ہے۔ ان میں سب سے پہلے انبیاء علیہ السلام پھر خلفائے راشدین اور صحابہ کرام ؓ، اولیاء کرام و بزرگان دین کا ذکر ہے۔ اس کے بعد مسلم فاتحین، حکمران، سائنس دان اور مفکرین پھر مغربی مفکرین، مورخین، سائنس دان اور شاعر جبکہ آخر میں اہل علم و دانش کو رکھا کیا گیا ہے۔ کسی بھی شخصیت کے ذکر کے ساتھ علامہ صاحب کے اشعار کا حوالہ دینے کے علاوہ اس شخصیت کا مختصر تعارف بھی دیا گیا ہے جس سے اس کتاب کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے کیونکہ اس سے یہ کتاب قاری کو ان شخصیات کے بارے میں معلومات بھی فراہم کرتی ہے۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
٭٭٭
خواب رت
شاعرہ: طاہرہ یاسمین
قیمت: 300 روپے،صفحات:112
ناشر: ادارہ الاویس، جوہر ٹائون لاہور


اپنے خیالات اور محسوسات دوسروں تک پہنچانے کے لئے تقریر اور تحریر دونوں طریقے اپنائے جاتے ہیں ان میں سب سے خوبصورت ذریعہ شاعری ہے، اس میں شاعر استعارے کی زبان میں وہ کچھ بھی کہہ جاتا ہے جو وہ نثر میں نہیں کہہ سکتا۔ طاہرہ یاسمین نے بھی اپنے دل کی بات دوسروں تک پہنچانے کے لئے شاعری کو ذریعہ بنایا ہے۔ پروفیسر ثمینہ پیرزادہ کہتی ہیں ’’ طاہرہ یاسمین نے معاشرتی اور سماجی واقعات و حالات اور اپنی اندرونی کیفیات کو ایک منفرد انداز میں منظوم کیا ہے۔ خواب رت، میں غزلیات، نظمیں اور کچھ پنجابی کلام بھی شامل ہے، ان کا شعر معاشرتی ناہمواری اور تشدد کی عمدہ تصویر کشی کرتا ہے۔
جن شعلوں میں گھر کے معصوم جل رہے ہیں
تیرا گھر بھی جلے گا نہ ان کو ہوا دو
ان کی شاعری میں سادگی، سچائی اور بے ساختہ پن ہے، جو انھیں دوسروں سے منفرد کرتا ہے، شاعری کا ذوق رکھنے والے قارئین کے لئے خواب رت خوبصورت تحفہ ہے، مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
٭٭٭
یادوں کے خزانے
مصنف: ملک محمد اختر
قیمت:600 روپے،صفحات:128
ناشر: ٹی اینڈ ٹی پبلشرز، سمن آباد، لاہور


یادیں بڑی دل لبھانے والی اور بڑی دل دکھانے والی بھی ہوتی ہیں، تاہم اہم بات یہ ہے کہ اس سے انسان بہت کچھ سیکھتا ہے، اگر اپنی یادداشتوں کو ڈائری سے کھرچ کر مرتب کر کے دوسروں تک پہنچانے کا اہتمام کر دیا جائے تو اس سے دوسروں کو بھی سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ ڈی ایس پی ملک محمد اختر نے بڑی سادگی سے اپنی یادداشتوں کو مرتب کر کے دوسروں کے سامنے پیش کیا ہے، گویا انھوں نے اپنے دل دماغ کی باتیں دوسروں کے سامنے رکھ دی ہیں۔ ان کی تحریر اور انداز میں کوئی تصنع اور بناوٹ نظر نہیں آتی، انھوں نے اپنے محسوسات کو بغیر کسی لاگ لپٹ کے پیش کر دیا ہے اور یہی اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ انھوں نے کتاب کا عنوان بھی بہت خوب چنا ہے، مجلد کتاب کے سرورق پر ان کی اپنی تصویر ہے، اس کی بجائے کوئی خاکہ لگایا جاتا تو بہتر تھا۔
٭٭٭
تبصرہ نگار :شہبازانورخان
ایسا تھا میرا کراچی
مصنف: محمد سعید جاوید
صفحات: 412، قیمت: 1400/ روپے
ناشر: بک ہوم، مزنگ رو ڈ، لاہور


اپنے ماضی کو یاد رکھنا اور اس کی خوشبو کو دل و دماغ میں بسائے رکھنا ایک فطری امر بھی ہے اور تکلیف دہ عمل بھی۔ انسان اپنی حیات ِ مستعار کے ماہ و سال کا زیادہ عرصہ جن حالات و کیفیات میں بسر کرتا اور جس سرزمین اور ماحول میں گزارتا ہے وہ اس کی زندگی کا اثاثہ بن جاتے ہیں جنہیں وہ عمر کے آخری حصے تک اپنی یادوں کے ساتھ چپکائے رکھتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب، جیسا کہ اس کے نام ہی سے ظاہر ہے عروس البلاد کراچی کے حوالے سے ہے جو آج بھی پاکستان ہی نہیں بر صغیر کے بڑے ا ور ہم شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔

اس شہر کی تاریخ، اس کی ثقافت، تہذیب وتمدن، رسم ورواج، رہن سہن اور حالات و واقعات ایسے ہیں کہ اردو زبان وادب کا ہر وہ قاری جو عمرانیات، سماجیات، سیاست، معیشت، تعلیم و تدریس اور فنون ِ لطیفہ ایسے موضوعات سے ذرا برابر بھی دلچسپی رکھتا ہو اسے پڑھنا پسند کرے گا اور اگر اس کی تحریر میں زبان کی چاشنی، سلاست و روانی، شگفتگی کا تڑکا بھی لگا ہو تو اس کے مطالعے کا لطف دو آتشہ ہو جاتا ہے۔ محمد سعید جاوید کا کمال یہ ہے کہ انہوںنے انتہائی ہلکے پھلکے انداز میں اس شہرِ بے مثال کے ماضی وحال کا اس حسن کے ساتھ نقشہ کھینچا ہے کہ قاری کے لیے اسے ایک مرتبہ شروع کرنے کے بعد چھوڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ تحریر ان کی آب بیتی بھی ہے اور جگ بیتی بھی، اور اس کے ساتھ ساتھ یہ ان کے گہرے مشاہدہ سے آراستہ رپورتاژ بھی قراردی جا سکتی ہے۔

اس سے پہلے وہ ’’ اچھی گزر گئی‘‘ کے زیر عنوان خود نوشت سوانح اور’’ مصریات ‘‘ کے عنوان سے مصرکے سفر نامہ کی صورت میں اردو ادب کے قارئین کو دو کتابوں کا تحفہ دے کر بڑے پیمانے پر داد و تحسین حاصل کرچکے ہیں اب کراچی کے بارے میں انہوںنے اپنی یاد داشتوں کو یکجا کرکے قیام پاکستان سے لے کر 1970ء تک کے کراچی کی جیتی جاگتی تصویر پیش کردی ہے۔

یہ محض ایک شہر کا احوال ہی نہیں ہے یہ دل گداز احساسات و خیالات کا گلدستہ بھی ہے جس میں ہر رنگ اور ہر ذائقے کے پھول اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔ مصنف کو بجا طور پر اس بات کا دکھ اور قلق ہے کہ جس شہر میں اس نے اپنی عمر عزیز کے بیس سے زائد سال کھیل کود سے لے کر تعلیم و تربیت تک کے مراحل سے گزرتے ہوئے بتا دیے اور اس سرچشمہ ء علم و تہذیب سے فیض یاب ہوئے تھے آج وہ ماضی مرحوم کا حصہ بن چکا ہے۔ وقت اور حالات کے جبر نے اس سے اس کی تمام رعنائیاں اور دلچسپیاں چھین کر اسے ’’ بے آبرو ‘‘ کردیا ہے۔ یہ کتاب باذوق قارئین کے لیے تحفے سے کم نہیں ہے ۔ بک ہوم نے بھی اسے بڑے ذوق و شوق کے ساتھ پورے اہتمام سے شائع کرکے اسے جاذب ِ نظر بنا دیا ہے۔

۔۔۔

ایک چینی انقلابی کی کہانی
چین میں 1949ء میں برپا ہونے والا کمیونسٹ انقلاب تاریخ عالم کی عظیم سماجی اور سیاسی تبدیلیوں میں سے ایک ہے۔ چین کے پسے ہوئے محروم طبقات کی طویل جدوجہد نے چین، جاپان جنگ کے بعد 1946ء میں ایک عظیم مسلح عوامی یلغار کی صورت اختیار کی اور 3 برس طویل خانہ جنگی کے بعد یکم اکتوبر 1949ء کو انقلاب کی تکمیل کے بعد نئے چین کا ظہور ہوا ۔ کوئی عظیم سیاسی تحریک ہو یا انقلاب کی جدوجہد اس میں کامیابی کے لیے تحریک کے رہنمائوں اور کارکنوں کا اخلاص اپنے مقصد کے ساتھ مکمل وفاداری اور ملک و قوم کے لیے سب کچھ قربان کردینے کا جذبہ بنیادی شرط کا درجہ رکھتا ہے۔

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کو جب ان کے ڈاکٹر نے ان کی بیماری کی اصل نوعیت بتاتے ہوئے انہیں اس بات سے آگاہ کیا کہ ان کے پاس بہت کم وقت بچا ہے تو ایسی صورتحال میں عمومی فطری انسانی ردعمل کے بالکل برعکس ان کے منہ سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے تھے ’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب تو دو گُنا کام کرنا پڑے گا‘‘ یعنی جب ان کی زندگی کے دن گنے جا چکے تھے اس وقت بھی اپنے مشن کو ہر صورت مکمل کرنے کا مقصد ان کی پہلی ترجیح تھا ۔

چین کے پر ولتاری انقلاب کی کامیابی بھی انقلابی قیادت کی بے غرض جدوجہد اور کارکنوں کے غیر معمولی استقلال اور جذبہ حب الوطنی کی مرہون منت ہے۔ چھن یون لیو انقلاب چین کے بانی چیئرمین ماوزے تنگ کے انتہائی قریبی سیاسی رفقاء میں سے ایک تھے۔ انقلاب کی قیادت کرنے والے اہم ترین رہنمائوں کو اجتماعی طور پر ’’چینی کمیونسٹ پارٹی کے آٹھ بڑے‘‘ کا نام دے دیا گیا تھا جن میں سے ایک چھن یون تھے۔ انہوں نے انقلاب کے دوران اور عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد کلیدی عہدوں پر کام کیا۔ انہیں آزادی کے بعد ابتدائی سالوں میں چین کی معاشی اور اقتصادی ترقی کی منصوبہ بندی کی ذمہ داری سونپی گئی۔ چین کے پہلے پنچ سالہ منصوبے کے خالق بھی چھن یون ہی تھے۔ زیر نظر کتاب ’’ایک چینی انقلابی کی کہانی‘‘ چھن یون لیو کی زندگی کی کہانی ہے۔ 2016ء میں اس کتاب کا انگریزی ترجمہ

”A Chinese Revolutionist’s Family Life Story” کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ بعد میں اس کو اردو میں منتقل کرنے کا کام یے فنگ کی نگرانی میں چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کے لیو شیائو ہوئی نے کیا۔ ترجمہ ہو جانے کے بعد اسے کتابی شکل دینے کا کام اس لیے تاخیر کا شکار تھا کہ ذمہ داران اس پر نظرثانی چاہتے تھے اور نظرثانی کا کام یوں آسان ہوگیا کہ ریڈیو پاکستان سے محمد کریم احمد چین کے شعبہ اردو سروس میں خدمات انجام دینے کے لیے چین گئے تو کتاب کے مترجم سے ملاقات ہوئی اور نظرثانی کا کام محمد کریم احمد کے ہاتھوں انجام پایا۔ اب جمہوری پبلی کیشنز2، ایوان تجارت روڈ لاہور نے اس اردو ترجمے کو کتابی صورت میں شائع کیا ہے۔

اس کتاب کے ذریعے قاری یہ جان سکتا ہے کہ چین کی معاشرت میں خاندانی، اخلاقی اوصاف اور انہیں اگلی نسل میں منتقل کرنے کی کس قدر اہمیت ہے اور انہی خاندانی اوصاف کی بنا پر کسی خاندان کو نیک نامی کی سند عطا ہوتی ہے۔ سیاسی قیادت اپنی قوم کے لیے وہ راستہ بناتی ہے جس پر چل کر عظمت کی بلندیوں تک پہنچنا ممکن ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد چو این لائی ملک کے پہلے وزیراعظم بنے۔ صحت کی خرابی کے باعث ان کے پائوں سوج جایا کرتے تھے۔ ڈاکٹروں نے ان کے لیے خصوصی جوتے تیار کرنے کی تجویز دی جسے چو این لائی نے یہ کہہ کر رد کردیا کہ جو جوتے ملک کے اندر بن رہے ہیں انہی میں سے کسی جوتے کا انتخاب کر لیا جائے۔ خصوصی جوتے تیار کرنے کی ضرورت نہیں ۔

چینی کمیونسٹ پارٹی کی دیگر قیادت پر نظر ڈالیں تو ہمیں یہی رویہ نظرآتا ہے ۔ مثال کے طور پر چھن یون کو جب گھر سے دور تنہا رہنا پڑا تو ان کی بیٹی کو کچھ عرصہ اپنا کام چھوڑ کر ان کے پاس رہنا پڑا۔ اس صورتحال میں چھن یون کا موقف یہ تھا کہ بیٹی کی ملازمت سے غیر حاضری کو چھٹی قرار دینے کے بجائے تنخواہ کی ادائیگی روک دی جائے کیونکہ ملک کے حالات ایسے نہیں کہ کسی کو بھی کام کے بغیر تنخواہ ادا کی جائے۔

اس کتاب کا اردو زبان میں منتقل کیا جانا پاکستانیوں کے لیے خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ہمارے لیے یہ محض انقلاب چین کے ایک اہم رہنما کی زندگی سے واقفیت کا ذریعہ نہیں بلکہ اس کتاب کے ذریعے ہمیں اس طرز عمل سے واقفیت حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے جس کو اپنا کر قومیں نا مساعد حالات سے باہر آسکتی ہیں۔ بہترین طباعت اور تاریخی تصاویر سے مزین اس کتاب کی قیمت 680 روپے ہے۔ پاکستانی عوام خصوصاً نوجوان نسل کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔
(تبصرہ نگار: غلام محی الدین )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔