اسلحے کی گھناؤنی تجارت

ثنا اکبر  اتوار 28 اپريل 2019
ہتھیار غلط ہاتھوں میں پہنچ کر فساد کی جڑ بن جاتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہتھیار غلط ہاتھوں میں پہنچ کر فساد کی جڑ بن جاتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

جوں جوں انسانی مفادات وسیع تر ہوتے گئے عالمگیر جنگوں کا سلسلہ شروع ہوتا گیا۔ دنیا پہلی اور بعد ازاں دوسری جنگ عظیم کا شکار ہوئی۔ جنگوں کے پھیلاؤ کے ساتھ انسانی تحفظ کے طریقوں میں تبدیلی رونما ہوئی۔ پہلے پہل تلواروں، تیروں کو تحفظ کے لیے استعمال کیا گیا، پھر توپوں اور ٹینکوں سے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی۔ اور جب دنیا دوسری جنگ عظیم کا شکار ہوئی تو امریکا نے جاپان کے شہروں ناگاساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بم گرا کر ہر محاذ پر لڑے بغیر جہاں اپنی دھاک بٹھائی، وہیں دنیا کو ایٹم بم کے ہولناک نتائج دیکھنے کو ملے۔

ایٹم بم نہ صرف دشمن ملک کو ہدف بناتا ہے بلکہ اس کی تابکاری سے حملے کی زد میں آنے والے ملک کے گردوپیش میں واقع ممالک کے متاثر ہونے کا خدشہ بھی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کوئی بھی بڑی طاقت ایٹم بم کے استعمال کا خطرہ مول لینے پر آمادہ نہیں ہے اوراسی لیے ملک گیری کی ہوس، سیاسی نظام اور معاشی نظریات کے پھیلاؤ کے لیے لڑی جانے والی جنگیں ہائبرڈ وار فیئر میں بدل چکی ہیں۔

اس ضمن میں شام، افغانستان، سوڈان، عراق اور یمن سمیت دنیا کے تمام ممالک کسی نہ کسی صورت ان جنگوں سے متاثر ہورہے ہیں۔ ان جنگوں کی وجوہات میں جہاں فرقہ واریت، شدت پسندی اور آبادی میں تیزی سے اضافہ شامل ہے، وہیں اسلحے کی تجارت خواہ قانونی ہو یا غیر قانونی، نمایاں وجہ جانی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ جمہوریت کی ساکھ کو نقصان پہنچانے میں اسلحے کے کاروبار کا کلیدی کردار ہے۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ بڑے ممالک اور بڑے اسلحہ ساز ادارے اس گھناؤنی تجارت میں شامل ہیں۔

نیو امریکن فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر ولیم ہارٹنگ کی مشہور کتاب ’’پروفیٹس آف وار‘‘ میں دنیا کی سب سے بڑی دفاعی ٹھیکے دار امریکی اسلحہ ساز کمپنی ’’لاک ہیڈ مارٹن‘‘ پر 1970 کے عشرے میں ہتھیاروں کی تجارت میں کرپشن کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ اسی طرح ایک اور دفاعی ٹھیکے دار وکٹر باؤٹ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کے پاس ہر قسم کے حالات میں ہتھیاروں کو دنیا کے کسی بھی کونے میں پہنچانے کی صلاحیت ہے۔

جنوبی افریقہ کے سابق سیاستدان اینڈریو فینٹین کے مطابق باؤٹ نے افغانستان میں طالبان اور شمالی اتحاد کے علاوہ لائبیریا میں بھی عسکریت پسندوں کو ہتھیار سپلائی کیے، اسی نوعیت کے حکومتوں اور انٹیلی جنس اداروں سے بھی روابط ہیں۔ بعض اوقات یہ ہتھیار غلط ہاتھوں میں پہنچ کر فساد کی جڑ بن جاتے ہیں۔

یہ جاننے کے لیے کسی مہارت کی ضرورت نہیں کہ میزائل، راکٹ، گرینیڈ اور بارود عام شہریوں کو کتنا نقصان پہنچا سکتے ہیں، کیونکہ ان سے ہونے والی ہلاکتوں کی خبریں اخبارات اور چینلز کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ حال ہی میں مقبوضہ کشمیر اور شام میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال اس امر کی واضح مثال ہے۔

اقوام متحدہ کے منشور کے باب نمبر سات میں ممالک سے روایتی ہتھیاروں کی برآمد کے وقت اس امر کو مدنظر رکھنے کے لیے کہا گیا کہ کہیں یہ ہتھیار بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کے خلاف اور دہشت گردی و شورش پھیلانے کے لیے تو استعمال نہیں ہوں گے۔ لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ سیاستدان قانون کی پاسداری کرنے کے بجائے گھناؤنی تجارت میں ملوث ہیں۔

جنگ و جدل کی وجہ سے جہاں مہاجرین کی نقل مکانی کا مسئلہ دنیا کو درپیش ہے، وہیں جنگی علاقوں کی تعمیر نو پر آنے والی لاگت کا بندوبست بھی ایک سوال ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ثنا اکبر

ثنا اکبر

بلاگر نے بین الاقوامی تعلقات میں جامعہ کراچی سے ماسٹرز کیا ہوا ہے اور نجی کمپنی میں فرائض انجام دے رہی ہیں۔ اردو ادب، فن خطابت اور ٖصحافت سے گہری دلچسپی رکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔