دس سال اور دس ماہ

کیا یہ اضافہ عمران خان کی دس ماہی حکومت کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے؟


Zaheer Akhter Bedari June 24, 2019
[email protected]

ملک اپنی تاریخ کی معاشی بد حالی کے بد ترین دور سے گزر رہا ہے۔ ایسے نازک وقت میں اہل سیاست کو انتہائی محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے ، لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے کہ اہل سیاست محاذ آرائی سے آگے تک چلے جا رہے ہیں۔ ہماری سینئر اشرافیہ چونکہ مختلف الزامات کے تحت جیلوں میں بند ہے لہٰذا اس نے جن راج کماروں اور راج کماریوں کو سیاست کا کھیل کھیلنے کے لیے تیار کیا تھا اس کھیل کا مبارک آغاز ہو رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول اور مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز کی پہلی سیاسی ملاقات کے حوالے یہ افواہ سامنے آئی کہ سینیٹ کے چیئرمین کو ہٹا دیا جائے۔ بے چارہ چیئرمین سینیٹ بھلا سا آدمی ہے سیاسی جوڑ توڑ اور سیاسی محاذ آرائی سے دور رہتا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم بلوچستان کی ترقی کے بڑے خواہش مند ہیں اسی حوالے سے چیئرمین سینیٹ کا انتخاب انھوں نے بلوچستان سے کیا تھا، اس انتخاب میں پی ٹی آئی کے ساتھ پیپلز پارٹی بھی شریک تھی۔

حکومت اور اپوزیشن میں محاذ آرائی کا جو سلسلہ جاری ہے، لگتا ہے کہ سینیٹ کے چیئرمین کو ہٹانے کی افواہ اسی محاذ آرائی کا ایک حصہ ہے۔ دنیا میں ہر جگہ مغربی جمہوریت رائج ہے اگرچہ مغربی جمہوریت کا مطلب ''لوٹ مار'' لیا جاتا ہے لیکن اس میں بھی توازن ہوتا ہے مگر ہمارے ملک میں چونکہ اشرافیہ بے لگام تھی لہٰذا لوٹ مارکا ایک ایسا سلسلہ شروع کر دیا گیا جس کا کوئی انت نظر نہیں آرہا تھا۔ اشرافیہ ہر معاملے میں من مانی کرتی ہے۔ اگر کوئی حکومت ان کی کرپشن پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتی ہے تو یہ اس حکومت کے خلاف سازشیں شروع کر دیتے ہیں اور مزید آگے بڑھ کر جلسے جلوس اور ہنگامہ آرائی کا آغاز کر دیتے ہیں۔

جس کے نتیجے میں حالات اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں کہ برسراقتدار حکومت یا تو اشرافیہ کے خلاف کارروائی بند کر دیتی ہے یا پھر انتشار اتنا پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ حکومت ختم ہو جاتی ہے۔ماضی میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے اور آخر کار جمہوریت کا بوریا بستر لپیٹ دیا جاتا ہے۔اس پس منظر میں جو انتخابات ہوئے، اس کے نتیجے میں تحریک انصاف برسر اقتدار آئی۔ جس کے سربراہ عمران خان ہیں۔ اس جماعت سے کسی کو ابتدا میں کوئی شکایت نہ تھی لیکن جیسے ہی اس حکمران جماعت نے احتساب کی آواز بلند کی سیاسی محاذ دو لڑاکا حصوں میں بٹ گیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ '' دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی'' ہر روز نئے نئے انکشافات سامنے آ رہے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے اور عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کی افواہ کیوں سامنے آئی ہے؟ بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ افواہ جان بوجھ کر اڑائی گئی ہے تاکہ حکومت پر دباؤ بڑھایا جائے۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ چیئرمین سینیٹ کا انتخاب تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔ سیاسی جماعتوں کی آپس کی چپقلش کے نتیجے میں ایک غیر متنازعہ شخص کے بارے میں افواہوں کا بازار گرم کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ ہم نے دنیا کی جمہوریتوں کا ذکر کیا تھا یہ جمہوریتیں بھی بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ ہی ہیں لیکن ان کے یہاں تھوڑی بہت اخلاقیات کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری جمہوریت اخلاق کے نام ہی سے نابلد ہے۔

اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ دو بڑی اپوزیشن جماعتوں کے سربراہوں کے علاوہ کئی ''نامور'' رہنماؤں کے خلاف کرپشن کے حوالے سے کارروائی کی جا رہی ہے اور یہی تحریک انصاف کا وہ جرم ہے جس کی اسے سزا دی جا رہی ہے اور مزید سزا دینے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ کرپشن نے ملک کو دیوالیہ پن کی سرحد پر پہنچا دیا ہے اس اشرافیائی کرپشن کا شکار بے چارے عوام ہو رہے ہیں۔

کہا جا رہا ہے کہ ملک کے موجودہ معاشی حالات تاریخ کے بدترین حالات ہیں ۔ اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ ملک کی معاشی حالت تاریخ کی بد ترین حالت ہے۔ اپوزیشن الزام لگا رہی ہے کہ یہ حالت تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے سے ہوئی ہے۔ بظاہر یہ الزام درست ہی معلوم ہوتا ہے لیکن عوام کے درمیان یہ بحث جاری ہے کہ ملک کی یہ حالت نو دس ماہ کی عمران حکومت کی وجہ سے ہوئی ہے؟ اس سوال کا ایک منطقی جواب یہ ہے کہ 10 ماہ کی حکومت ملک کو اس حال تک نہیں پہنچا سکتی۔ اس سوال کا ایک منطقی جواب یہ ہے کہ 10 ماہ کی حکومت میں کتنی کرپشن کا ارتکاب کیا گیا ہے اس کی تحقیق کی جائے وہ بھی عدالتی تحقیق کی جائے۔ کہا جا رہا ہے کہ ماضی کی دس سالہ حکومتوں نے عمران خان حکومت کے لیے جو معاشی ورثہ چھوڑا ہے وہ اتنا بڑا ہے کہ یقین نہیں آتا۔

قارئین کرام ! ذرا دل تھام کے رہیے کہ ہم اس ورثے کا ذکرکر رہے ہیں جو دس سالہ حکومتوں نے عمران حکومت کے گلے میں ڈالا ہے۔ وہ ورثہ ہے 24 ہزار ارب کا قرض۔ کیا ہمارے قارئین 24 ہزار ارب کی گنتی کو سمجھ سکتے ہیں؟ حکومت پر مہنگائی کے الزام عائد کیے جا رہے ہیں۔ ڈالر اور سونے کے بھاؤ میں ناقابل یقین اضافہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے اور عمران حکومت کی 10 ماہی حکومت کے دوران ہی ہو رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اضافہ عمران خان کی دس ماہی حکومت کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے؟

اس کا منطقی جواب یہ ہے کہ یہ اضافے یا خرابیاں محض دس مہینوں میں صرف اس وقت پیدا ہو سکتی ہیں جب حکومت نے 10 ماہ کے دوران کھربوں روپوں کی کرپشن کی ہو۔ یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ دشمن اپوزیشن دوسرے الزامات تو لگا رہی ہے لیکن حکومت پر کرپشن کے الزامات نہیں لگا رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت نے کرپشن اور وہ بھی اتنی بھاری کرپشن کی ہی نہیں کہ مہنگائی آسمان پر چلی جائے، ڈالر آسمان پر اڑنے لگے، سونا عوام کی پہنچ سے باہر ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جوکچھ واہی تباہی مچی ہوئی ہے یہ نئی یا دس ماہ کی نہیں بلکہ دس سال کی ہے، اس حقیقت سے کوئی صاحب عقل انکار نہیں کر سکتا ۔ ان زندہ حقائق کی روشنی میں ضرورت اس بات کی ہے کہ پچھلے دس سال کی کرپشن کی تحقیق کے ساتھ عمران حکومت کے دس ماہ کی بھی تحقیق کی جائے، اپوزیشن بے گناہوں کو سزا نہ دے۔

مقبول خبریں