صحافی کا قتل گیارہ سال گزر گئے
قانون ساز اداروں میں صحافیوں کے تحفظ کےلیے ٹھوس اور موثر قانون سازی سے ہی صحافیوں کا تحفظ ممکن ہوپائے گا
صحافیوں کو ریاستی سطح پر تحفظ فراہم کیا جائے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)
سوات میں دہشت گردی کے دوران صحافی قاری شعیب سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے جاں بحق ہوئے تھے۔ قاری شعیب کے قتل کی ایف آئی آر درج ہوسکی اور نہ ہی تحقیقات کرائی گئی۔ دس سال قبل 9 نومبر 2008 کو صحافی قاری محمد شعیب اپنی بیٹی کو اسپتال میں داخل کروا کر واپس گھر جارہے تھے کہ ائیرپورٹ روڈ پر سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے اُن کی گاڑی کو فائرنگ کا نشانہ بنایا اور موقع پر ہی اُن کی موت واقع ہوگئی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق قاری محمد شعیب کی لاش کو سیکیورٹی اہلکار اپنی گاڑی میں سرکٹ ہاؤس لے گئے تھے اور پھر وہاں سے میڈٰیا کے نمائندوں نے لاش اہلخانہ کے حوالے کردی تھی۔ قاری محمد شعیب کے بھائی بختیار خان نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسپتال میں موجود تھے کہ شام کے وقت ایک سیکیورٹی اہلکار نے انہیں کال کی اور کہا کہ تمہارے بھائی کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے اور وہ سرکٹ ہاؤس میں ہے۔ جب میں وہاں پہنچا تو پہلے مجھے دلاسہ دیا گیا اور بعد میں مجھے موت کی اصل وجہ بتائی اور پھر وہاں سے ہم نے لاش وصول کی۔''

(صحافی قاری محمد شعیب کی یادگار تصویر)
قاری محمد شعیب کے بھانجے صحافی قوت خان جو روزنامہ جھنگ کے ساتھ وابستہ ہیں، نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صحافی قاری شعیب ایک پاک اور راست گو انسان تھے۔ روزنامہ آزادی، خبرکار اور ایک نیوز ایجنسی کےلیے کام کرتے تھے۔ سوات میں کشیدہ حالات کے دوران اُن کو طالبان کی جانب سے بار بار دھمکیاں دی جاتی تھیں، مگر وہ حق گوئی پر قائم رہے اور اپنی صحافتی ذمے داریاں جاری رکھیں۔ طالبان کے خلاف انہوں نے پولیس اسٹیشن رحیم آباد میں ایف آئی آر بھی درج کروائی تھی مگر اس وقت پولیس اور دیگرقانون نافذ کرنے والے ادارے مفلوج تھے اور انہیں کسی قسم کا تحفظ فراہم نہ کیا جاسکا۔''
سیکیورٹی ذرائع کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ قاری شعیب کو دوران کرفیو فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا اور سیکیورٹی اہلکاروں کو علم ہی نہیں تھا کہ گاڑی میں صحافی بیٹھا ہے یا کوئی اور۔
صحافی قاری محمد شعیب کے قتل کی نہ تو کسی نے ایف آر درج کروائی اور نہ ہی تحقیقات کرانے کی کوشش کی۔ 14 نومبر 2008 کو اوورسیز پریس کلب آف امریکا نے اس وقت پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کو ایک خط بھیجا تھا، جس میں لکھا گیا تھا کہ صحافی قاری محمد شعیب کے قتل کی شفاف تحقیقیات کرائی جائے۔ خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے وارننگ دیئے بغیر گاڑی پر فائرنگ کی۔ پی ایف یو جے کے مطابق سیکیورٹی اہلکاروں نے یہ تسلیم کرلیا تھا کہ صحافی کا قتل ''غلطی'' سے ہوا ہے۔
قاری محمد شعیب کے بھائی بختیار نے اس حوالے سے بتایا کہ ہم گہرے صدمے میں تھے اور سیکیورٹی اہلکاروں کے خلاف ایف آئی درج کرانا ممکن نہ تھا۔ ہمیں علم تھا کہ اگر ایف آئی آر درج بھی کرائی جائے تو پھر بھی کچھ ہونے والا نہیں ہے۔
محمد شعیب کا قتل تیسرا واقعہ تھا، اس سے قبل بھی دو اور صحافیوں نے جانوں کے نذرانے پیش کیے تھے، جس کے بعد صحافی برادری سیخ پا ہوگئی اور ملک گیر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ صحافی شہزاد عالم کہتے ہیں کہ قاری شعیب کے قتل کے بعد ہم نے صحافیوں کے تحفظ کےلیے احتجاجی مظاہرے کیے اور حکومتی عہدیداروں سمیت سیکیورٹی فورسز اور طالبان سے بھی ملاقاتیں کیں کہ صحافیوں کو دوران جنگ تحفظ فراہم کیا جائے۔ فریقین کے ساتھ صرف زبانی باتیں ہوا کرتی تھیں اور دونوں کی جانب سے صحافیوں کے تحفظ کی یقین دہانیاں کرائی جاتی تھی، مگر تحریری معاہدہ کسی بھی فریق کے ساتھ نہیں ہوپایا تھا۔
قاری محمد شعیب گھر کا واحد کفیل تھا۔ ان کی دو بیویاں، تین بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا جبکہ گھر میں ایک ماں اور دو بھائی بھی تھے۔ قاری شعیب کے چھوٹے بھائی بختیار نے ایک سال بعد ان کی ایک بیوہ سے شادی کرلی جبکہ دوسری بیوہ سے ان کے بڑے بھائی کے بیٹے نے شادی کرلی۔ بختیار خان کا کہنا ہے کہ قاری شعیب کے جانے کے بعد در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگئے۔ اور اس کے بعد بڑی مشکل سے گھر کا خرچہ چلایا۔ ان کے جانے کے بعد ماں بیمار ہوکر بستر تک محدود ہوگئیں اور اب بھی اس کو یاد کرکے رویا کرتی ہیں۔
محمد شعیب کی شہادت کے بعد سیکیورٹی فورسز نے ان کے اہلخانہ کو دو لاکھ روپے کا معاوضہ دیا، جبکہ ان کے بچوں کے تعلیمی اخراجات اُٹھانے کی بھی یقین دہانی کرائی۔ شعیب کے بھائی بختیار خان کا کہنا ہے کہ بھائی کی شہادت کے بعد صرف فوج نے ان کی مدد کی اور میڈیا اداروں کی جانب سے ستر ہزار روپے ملے۔ باقی بچوں کی تعلیم کے وعدے بھی ایفا نہ ہوسکے اور حکومت کی جانب سے پلاٹ دیئے جانے کا وعدہ بھی ابھی تک پورا نہیں ہوسکا۔ قاری شعیب کے بیٹے کو یتیم بچوں کے ادارہ پرورش میں داخل کرایا ہے، جبکہ ان کی بیٹیاں مالی اخراجات کی کمی کے باعث تعلیمی میدان میں پیچھے رہ گئی ہیں۔ جب فوج کی جانب سے دو لاکھ روپے کی امداد ملی تو طالبان کی جانب سے دھمکیاں ملنا شروع ہوگئیں کہ فوج سے پیسے کیوں لیے؟ جس کے بعد ہم نے گھربار چھوڑ کر اسلام آباد میں رہائش اختیار کرلی اور جب حالات سازگار ہوگئے تب واپسی اختیار کی۔
وادی سوات میں جہاں دہشت گردی کے دوران صحافیوں نے جانوں کے نذرانے پیش کیے، انہیں ڈرایا دھمکایا گیا، انہیں اغوا اور ان پر تشدد کیا گیا۔ سوات ہی نہیں ملک بھر میں صحافیوں کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھا جارہا ہے۔ جو خطرات صحافیوں کو دہشت گردی کے دوران درپیش تھے، ان سے کئی گنا خطرناک خطرات آج بھی موجود ہیں۔ سینئر صحافی نیاز خان کے مطابق آج بھی صحافیوں کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے، انہیں دباؤ کا شکار بنایا جاتا ہے اور ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔ صحافیوں کو اغوا کرنا، انہیں تشدد کا نشانہ بنانا ایک عام سی بات ہے۔ آج بھی سوات سمیت پاکستان بھر میں صحافیوں کو منشیات فروشوں، جرائم پیشہ عناصر اور ریاستی اداروں کی جانب سے شدید خطرات لاحق ہیں۔
صحافی حسین علی خان کہتے ہیں کہ بااثر افراد اور ریاستی ادارے خطرناک نتائج کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ ذہنی اذیت پہنچاتے ہیں۔ آج بھی جب کسی بااثر شخصیت یا ریاستی اداروں کے خلاف خبریں نشر ہوتی ہیں تو وہی خطرات محسوس کیے جاتے ہیں جو آج سے گیارہ سال قبل تھے۔ صحافی نیاز احمد خان اور فیاض ظفر کو افغانستان سے بھی فون کے ذریعے دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ حکومت اور پولیس کی جانب سے صحافیوں کےلیے سیکیورٹی فراہم کرنے کے دعوے تو کیے جارہے ہیں، تاہم مہیا کی گئی سیکیورٹی میں صحافی غیر محفوظ ہیں۔
سوات میں قاری شعیب سمیت چار دیگر صحافی کشیدگی کے دوران شہید ہوئے۔ دوران کشیدگی صحافیوں کےلیے کسی قسم کے حفاظتی اقدامات نہیں کیے گئے اور آج بھی صحافی غیر محفوظ ہیں۔ شہزاد عالم کہتے ہیں کہ حکومتی اقدامات تو ایک طرف میڈیا اداروں کی جانب سے بھی صحافیوں کے تحفظ کےلیے اقدامات نہیں کیے جاتے، انہیں وارزون میں رپورٹنگ کرتے ہوئے سیفٹی جیکٹ تک مہیا نہیں کی جاتی۔ قومی اسمبلی میں صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے پیش کیے جانے والے بل پر فوری عمل درآمد کرنا وقت کی ضرورت ہے، تاکہ صحافیوں کا تحفظ ممکن ہوسکے۔
سینئر صحافیوں، تجزیہ نگاروں اور قانون دانوں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ قانون ساز اداروں میں صحافیوں کے تحفظ کےلیے ٹھوس اور موثر قانون سازی سے ہی صحافیوں کا تحفظ ممکن ہوپائے گا۔ بصورت دیگر ''جس کی لاٹھی، اس کی بھینس'' والا قانون چلتا رہے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔