سیاسی پنڈتوں سے عوام دور رہیں
دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے مخالفین ہر سال اس وحشیانہ قتل عام کا ماتم کرتے ہیں
ایسی تقاریر، ایسے بیانات جن سے عالمی امن کو خطرہ لاحق ہو، ان پر ایک تنقیدی نظر ڈالنا ضروری ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ آئے دن اپنے مخالفین کو دھمکیاں دیتے رہتے ہیں، خاص طور پر ایران عشروں سے امریکی صدور کے زیر عتاب ہے۔ تازہ ترین بیان میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ جاری رکھنے کی پالیسی برقرار رہے گی۔
حضرت نے مزید فرمایا ہے کہ ایران آگ سے کھیل رہا ہے۔ وائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک مراسلے میں کہا گیا ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی ایران کو جوہری ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ یورپی یونین نے ایران سے جوہری معاہدے کی پاسداری کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ روس نے کہا کہ امریکی دباؤ کی وجہ جوہری معاہدہ متاثر ہوا۔ برطانیہ نے تہران کو معاہدے سے مزید روگردانی برتنے سے گریز کی ہدایت کی ہے۔ اس معاہدے کے مطابق ایران 300 کلوگرام سے زیادہ یورینیم کی افزودگی نہیں کر سکتا، لیکن ایران نے اس معاہدے کے خلاف یورینیم افزودگی کی حد پار کر لی ہے۔
یورینیم ایٹمی ہتھیاروں کا حصہ ہے، امریکا اور اس کے اتحادی چاہتے ہیں کہ ایران یورینیم کی طے شدہ تعداد سے زیادہ افزودہ نہ کرے اس سارے فسانے کا واحد مقصد یہ ہے کہ ایران ہرگز ایٹمی ہتھیار بنانے کے قابل نہ ہو۔ جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکا نے جو کم طاقتی بم گرایا تھا اس سے نہ صرف لاکھوں انسان جاں بحق ہوگئے تھے بلکہ عمارتیں کوئلے کے ڈھیر میں بدل گئی تھیں، یہ کارگزاری اس وقت کے امریکی صدر ٹرومین کے حکم پر کی گئی تھی۔ دنیا کے انصاف پسند ملک امریکا نے کیا لاکھوں انسانوں کے قاتل ٹرومین کے خلاف اس بین الاقوامی جرم کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی کی تھی۔
دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے مخالفین ہر سال اس وحشیانہ قتل عام کا ماتم کرتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس تباہ کن واقعے کے بعد ساری دنیا میں ایٹمی ہتھیار بنانے پر سخت پابندی عائد کردی جاتی اور دنیا میں پائے جانے والے تمام ایٹمی ہتھیار تلف کر دیے جاتے لیکن ایسا کچھ نہ ہوا بلکہ کئی ملکوں نے ایٹمی ہتھیار تیار کر لیے اور کرہ ارض ایٹمی ہتھیاروں کے ذخیرے پر کھڑا ہوا ہے۔ کیا امریکا کے حکمران نہ سہی امریکا کے مدبرین نے ہیروشیما اور ناگاساکی کے المیے سے عبرت پکڑتے ہوئے ایٹمی ہتھیار بنانے پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا؟
دوسری عالمی جنگ کے خاتمے تک امریکا واحد ایٹمی طاقت تھا اگر ہیروشیما اور ناگاساکی کی تباہی کے مضمرات سے ہمارے حکمران اور دنیا بھر کے سیاستدان واقف تھے تو پھر سب سے پہلا کام یہی کیا جاتا کہ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری پر فوری پابندی لگا دی جاتی لیکن انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ قومی مفادات کے اندھے لٹیروں نے اس قسم کی کوئی پابندی عائد نہ کی ، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا کے کئی ملک اب ایٹمی طاقت بن چکے ہیں ۔ ایران پر ایٹمی ہتھیار تیار کرنے پر پابندی کا مطالبہ یقینا جائز اور دنیا کے مفاد میں ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایران کا ازلی دشمن اسرائیل ایٹمی طاقت ہے اور اسرائیل کے جنگی جنون کا عالم یہ ہے کہ لاکھوں فلسطینی اسرائیل کے جنگی جنون کا شکار ہوچکے ہیں اور اسرائیل ایران کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہے۔
اس پس منظر میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کا ایران پر ایٹمی ہتھیار بنانے پر پابندی کا مطالبہ لاجیکل کہلا سکتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد بڑی طاقتوں نے کمزور ملکوں کو اپنا تابع بنا لیا اور دو بڑے ملکوں کوریا اور جرمنی کو تقسیم کر کے ان کی وحدت کا ستیا ناس کر دیا۔ جرمنی کی تقسیم کو دیر ہی سے سہی جرمن عوام نے مسترد کر کے وہ دیوار برلن ڈھا دی جو جرمن عوام کو تقسیم کر رہی تھی ۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کے مدبرین نے دنیا میں امن برقرار رکھنے اور دنیا کے ملکوں کو ناانصافی سے بچانے کے لیے ایک اور ادارہ اقوام متحدہ بنایا تھا۔
بلاشبہ اس قسم کے ادارے کی دنیا کو پہلے بھی ضرورت تھی اور اب بھی ہے۔ لیکن اس قسم کے ادارے جب بڑی طاقتوں کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتے ہوں تو دنیا میں ان کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل کو فلسطینیوں کا قتل عام کرنے سے روکنا کیا اقوام متحدہ کی ذمے داری ہے یا امریکا کی؟ اگر اقوام متحدہ آزاد ہوتی تو اسرائیل کو فلسطینیوں کے اور بھارت کو کشمیریوں کے قتل عام سے نہیں روک سکتی تھی؟ بڑی طاقتیں خاص طور پر انکل سام جب اقوام متحدہ کو اپنی جیب میں ڈال کر پھر رہے ہوں تو اسرائیل کیوں نہ دادا بنا رہتا، کشمیری عوام کا اور فلسطینیوں کا قتل عام کس طرح جاری رہ سکتا؟ کیا بڑی طاقتوں کے غلام ادارے دنیا میں امن اور انصاف کی ذمے داریاں پوری کرسکتے ہیں؟
کوئی صاحب عقل اس بات کی مخالفت کرسکتا ہے کہ ایران کو ایٹمی ہتھیار نہیں بنانے چاہئیں لیکن دنیا جب ایران کے سر پر اسرائیل کو بلکہ ایٹمی اسرائیل کو سوار دیکھتی ہے تو صرف ایران پر ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کی پابندی کو کس طرح منصفانہ سمجھ سکتی ہے؟
دنیا کے اربوں غریب عوام ایک مشکل زندگی گزار رہے ہیں، انھیں اپنے مسائل ہی سے فرصت نہیں کہ وہ دنیا کے مسائل پر غور کریں یہ ہر ملک کے دانشوروں، مفکروں، ادیبوں، شاعروں کی ذمے داری ہے کہ وہ دنیا میں ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھائیں۔ ایران کو ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری سے روکنا ایک منصفانہ کام ہے اور ہمیشہ کی طرح یہ کام بے چارہ امریکا کر رہا ہے اور جب سے اندھے امریکی عوام نے بہرے ٹرمپ کو اپنا صدر منتخب کیا ہے دنیا کا امن ٹرمپ کی مرضی کا تابع ہوگیا ہے۔
انسانوں کے سر پر ہزاروں ایٹمی ہتھیار سایہ فگن ہیں۔ دنیا کے غریب اور تعلیم سے محروم اربوں عوام یہ نہیں جانتے کہ جاپان کے دو شہروں ناگا ساکی اور ہیروشیما میں کیا قیامت برپا ہوئی کتنے لاکھ معصوم انسان ایٹمی آگ میں جل کر راکھ ہوگئے۔ اگر دنیا کو تیسری عالمی جنگ یا ایٹمی جنگ سے بچانا ہے تو قومی مفاد کی ٹوپی پہنے ہوئے سیاسی مسخروں سے نجات پانا ہو گی اور دنیا کی باگ ڈور ایسے انسانوں کے ہاتھوں میں دینا ہوگی جو ملک و قوم کی حد بندیوں میں گھرے ہوئے نہ ہوں جن کے سامنے دنیا کے اربوں انسانوں کا درخشاں مستقبل ہو۔