- تصویر کو شاعری میں بدلنے والا کیمرا ایجاد
- اُلٹی چلنے والی گاڑی سوشل میڈیا پر وائرل
- امریکا میں شرح پیدائش کم ترین سطح پر آگئی
- نظام انصاف ٹھیک ہونے تک کچھ ٹھیک نہیں ہوگا:فیصل واوڈا
- پہلا ٹی ٹوئنٹی: ویسٹ انڈیز نے پاکستان ویمن ٹیم کو ایک رن سے شکست دے دی
- خیبر پختونخوا: صوبائی وزراء اور مشیروں کی مراعات میں اضافے کی سمری تیار
- فوج سے جلد مذاکرات ہوں گے، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے بات ہوگی، شہریار آفریدی
- چین میں پاکستان کیلئے تیار ہونے والی پہلی ہنگور کلاس آبدوز کا افتتاح
- وزیراعظم کی ہدایت پر کرپشن میں ملوث ایف بی آر کے 13 اعلیٰ افسران عہدوں سے فارغ
- پتوکی کے دو بے گناہ نوجوان بھارت سے رہا ہوکر پاکستان پہنچ گئے
- بی آر ٹی کا مالی بحران سنگین، حکومت کا کلومیٹر کے حساب سے کرایہ بڑھانے کا فیصلہ
- محموداچکزئی کے وارنٹ گرفتاری جاری، 27 اپریل کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم
- چینی صدر اور امریکی وزیرخارجہ کی شکوے شکایتوں سے بھری ملاقات
- لاہور؛ 10 سالہ گھریلو ملازمہ پراسرار طور پر جھلس کر جاں بحق، گھر کا مالک گرفتار
- اغوا برائے تاوان کی واردات کا ڈراپ سین؛ مغوی نے دوستوں کے ساتھ ملکر رقم کا مطالبہ کیا
- فیس بک کے بانی کو 50 کھرب روپے کا نقصان ہوگیا
- عازمین حج کیلئے خوشخبری، جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ روڈ ٹومکہ میں شامل
- اسٹاک ایکسچینج میں کاروباری میں تیزی، انڈیکس 72 ہزار 742 پوائنٹس پر بند
- بلدیہ پلازہ میں بیٹھے وکلا کمرے کا ماہانہ کرایہ 55 روپے دیتے ہیں، وزیراعلیٰ بلوچستان
- انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی نسبت روپیہ تگڑا
فیصلہ کسی اپوزیشن کے پاس نہیں
تاجروں کے ایک دھڑے کی جانب سے اطلاع یہ ہے کہ آج یعنی بروز ہفتہ ہڑتال ہے اور اس دھڑے کی یہ کوشش ہے کہ ملک بھر میں کاروبار بند رہے۔ کئی اخبارات سامنے کھلے ہیں اورخبروں میں اپوزیشن بھی یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ ہڑتال ہو رہی ہے لیکن سرکار کا کہنا ہے کہ اس کے تاجروں کے ساتھ معاملات طے پا گئے ہیں لہذا اب ہڑتال نہیں ہو گی۔
یہ فیصلہ آج ہو جائے گا کہ ہڑتال ہوئی کہ نہیں ۔ ہر کوئی خود دیکھ لے گا کسی کو حکومت یا اپوزیشن کی آنکھیں مستعار لینے کی ضرورت نہیں لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ان ہڑتالوں اور احتجاجی تحریکوں کی ضرورت کیوں پڑتی ہے، کیا اپوزیشن میں اتنی عقل بھی نہیں کہ وہ کسی اہم وجہ کے بغیر اپنی شوقیہ کوئی تحریک شروع کر دے۔ تحریک تو کسی کی جان نکال لیتی ہے یہ اتنی بڑی ریاضت ہے کہ اس کے بعد بحالی ِجسم و جاں میں برسوں لگ جاتے ہیں تب کہیں دوبارہ مصرع تر کی صورت نظر آتی ہے۔
حکومت اپنے وسائل کی وجہ سے بظاہر سب کچھ برداشت کر جاتی ہے لیکن ہڑتال کی صورت میں اسے جو دیمک لگ جاتی ہے وہ اپنے نشان چھوڑ جاتی ہے اور اگر کوئی تحریک پھیل جائے اور ٹڈی دل کی شکل اختیار کر جائے تو وہ درختوں کے تنوں کی چھال بھی چٹ کر جاتی ہے اور درخت رفتہ رفتہ سوکھ جاتا ہے۔ مگر یہ سب کیوں ہوتا ہے ایک نارمل حکومت میں یہ سب کچھ نہیں ہونا چاہیے۔
تھانیدار تحصیلدار وغیرہ ہر حکومت میں ہوتے ہیں امیر غریب بھی ہر ملک میں ہوتے ہیں ۔ اسی طرح کسی حکومت کے تمام محکمے اور اہلکار ہر حکومت میں کام کیا کرتے ہیں کوئی اپوزیشن اگر حکومت میں آجائے تو وہ کوئی نیا سیٹ اپ لے کر نہیں آتی جو عوام کے ہر دکھ کی دوا کر سکے۔ پرانے لوگوں سے کام چلاتی ہے ۔ یہی ہوتا آیا ہے اور یہی ہوتا رہے گا ۔
اب سوال یہ ہے کہ کچھ لوگ اقتدار میں آکر اور ایوانوں میں داخل ہو کر بھول کیوں جاتے ہیں، کیا وہ ہوتے ہی ایسے ہیں یا ایسے بن جاتے ہیں ، بنا دیے جاتے ہیں ۔ ضروری نہیں کہ کوئی غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہو اور جہانبانی کے اسرار ورموز کا ماہر ہو ۔ ایک نارمل انسان اگر اپنی ذمے داری محسوس کرے تو وہ کسی گھر کی طرح ملک کا کاروبارِ حیات بھی چلا سکتا ہے ۔
نیک نیت حکمرانوں کی عوام بھی مدد کرتے ہیں اور ان کی انتظامیہ کے اچھے لوگ بھی ان کا ساتھ دیتے ہیں، بس ضرورت اتنی ہے کہ جو حکمران ہو وہ کسی نہ کسی کے سامنے اپنے آپ کو جوابدہ سمجھے۔ جوابدہی کا یہی احساس انسان کو ذمے دار فرض شناس اور ہر دلعزیز بنا دیتا ہے۔ تاریخ میں تو ایسے بادشاہ بھی گزرے ہیں جو جوابدہی کے احساس سے تڑپ جاتے رہے ہیں۔
دجلہ کے پل پر ایک بڑھیا نے سلجوق حکمران ملک شاہ کی سواری روک لی اور شاہی گھوڑے کی لگام پکڑ کر کہا کہ میرے ساتھ انصاف کرو ۔ ہٹو بچو والے آ گئے اور بڑھیا کو دور لے جانے لگے تو وہ چیخی ملک شاہ میرا حساب اس پل پر صاف کرو گے یا اگلے جہان کے پل پر۔ یہ سن کر بادشاہ کی رعونت ریزہ ریزہ ہو گئی اور وہ کانپتے ہوئے گھوڑے سے گرتے گرتے بچا اور بڑھیا سے معافی کے الفاظ ڈھونڈنے لگا ۔ چلیے اتنا نہ سہی اس سے کچھ کم احساس ذمے داری سے بھی کام چل سکتا ہے لیکن یہ کیا ہوا کہ بڑھیا تو کجا کوئی پرندہ بھی وہاں پر نہ مار سکے جہاں سے کسی کی سواری گزرنی ہو۔
میری عمر اپوزیشن کی رپورٹنگ کرتے گزر گئی اور میں آج کے ہی نہیں ان قائدین کو بھی جانتا ہوں جو آج کے رہنماؤں کے بزرگ اور استاد تھے کئی تحریکیں اور لاتعداد ہڑتالیں دیکھیں، جلسے جلوسوں میں آنسو گیس کھاتی میری آنکھیں، گیس کے ایک گولے کے گاڑی کے اندر پھٹنے سے خراب ہوئیں جس میں، میں بیٹھا ہوا تھا اور ہمیشہ یہ دیکھا کہ اپوزیشن نے حکمرانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا اور ان کمزوریوں کوتاہیوں سے طاقت حاصل کی ۔ مشاہدہ اور تجربہ بتاتا ہے کہ تحریک اپوزیشن نہیں حکومت چلاتی ہے اپنے ساتھ دشمنی وہ خودکرتی ہے۔
ہمارے نئے حکمرانوں کا معیشت کا فلسفہ ابھی بار آور نہیں ہورہا اس کے مطابق ابھی تک اوپر والوں کی دولت نیچے والوں تک گرنی شروع نہیں ہوئی اور کیا ہمارے حکمرانوں کو معلوم ہے کہ تحریک کی جان خوشحال طبقہ نہیں غریب ہوتے ہیں جن کے سامنے سوائے سر ٹکرانے کے کوئی اور راستہ موجود نہیں ہوتا۔ اس لیے حکومت سے گزارش ہے کہ وہ اگر یہ نہیں چاہتی کہ اس کا معاشی نظام درہم برہم ہو اور اس میں کوئی خلل واقع ہو تو وہ ہاتھ ہولا رکھے۔
آئی ایم ایف نے بتایا ہے کہ ابھی ڈالر کی قیمت اور بڑھے گی جب کہ حکومتی عہدیدار بھی یہ بات مانتے ہیں کہ مہنگائی بڑھی ہے اور ابھی مزید بڑھے گی تو بات یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اپوزیشن تو گویا یہ مستند حکومتی عہدیدار ہیں ۔ کوئی پاکستانی گڑ بڑ نہیں کرنا چاہتا ۔ حکمرانوں کا تو مسئلہ اقتدار ہو سکتا ہے لیکن پاکستانی عوام کا مسئلہ حالات میں استحکام ہے وہ اس قدر لاچار ہو چکے ہیں کہ ذرا سی تبدیلی سے بھی سہم جاتے ہیں۔ فیصلہ کسی اپوزیشن کے پاس نہیں حکمرانوں کے پاس ہے۔ اس سے زیادہ کیا عرض کروں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔