نئے پاکستان کی ہاؤسنگ اسکیم

ظہیر اختر بیدری  پير 22 جولائی 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

وزیر اعظم عمران خان نے نیا پاکستان ہاؤسنگ منصوبے کے 18 ہزار 500 گھروں کی ابتدائی تعمیر کے حوالے سے پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چھوٹے تنخواہ دار طبقے کے لیے اپنی چھت کی فراہمی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔

عمران خان نے کہا کہ حکومت نجی شعبے کے ساتھ مل کرکچی بستیوں کے مکینوں کو سہولیات کے ساتھ گھروں کی فراہمی کو ممکن بنائے گی۔ گھروں کی تعمیر کے لیے بینکوں سے قرضہ حاصل کرنے میں آسانیاں فراہم کرنے کے لیے قانون سازی سمیت دیگر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ عمران خان نے کہا ہے کہ آج مجھے بے حد خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ پروجیکٹ کا آغاز ہو رہا ہے۔

انشا اللہ یہ اسکیم پورے پاکستان میں لے جائیں گے۔ اسلام آباد کے زون 4 میں ڈیڑھ سال کے عرصے میں 18ہزارگھر تعمیر ہوں گے، جن میں 10 ہزار گھر غریب اور نادار طبقے کے لیے مختص کیے گئے ہیں جو قرعہ اندازی کے ذریعے دیے جائیں گے۔ انھوں نے کہا کراچی میں 30 سے 40 فیصد آبادی کچی بستیوں میں رہ رہی ہے۔ حکومت کوشش کر رہی ہے کہ نجی شعبے کے ساتھ مل کر کچی بستیوں کے مکینوں کو ’’سہولیات کے ساتھ‘‘ گھروں کی فراہمی کو ممکن بنایا جاسکے۔

حکومت زمین فراہم کر رہی ہے آدھی زمین کو نجی شعبہ کمرشل استعمال کرے گا جب کہ آدھی زمین پر نجی شعبہ کچی بستیوں کے مکینوں کو گھر بنا کر دے گا۔ اسلام آباد کے دو سیکٹروں کی نشان دہی کی گئی ہے جہاں کچی بستیاں موجود ہیں۔ حکومت کو جن معاشی مشکلات کا سامنا ہے اس کے پیش نظر نجی شعبے سے جو امداد لی جا رہی ہے وہ مناسب بھی ہے اور فائدہ مند بھی ہے۔ بدقسمتی سے ماضی قریب کی کسی حکومت نے غریب طبقات کے لیے کوئی ایسی ہاؤسنگ اسکیم تیار نہیں کی جو واقعی عوام کے مفاد میں ہو۔ اس اسکیم کے تحت نجی شعبے کو جو سہولیات دی جا رہی ہیں ان پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ اس اسکیم کو بدعنوانیوں اور کرپشن سے بچایا جاسکے۔

پچھلے دنوں ناجائز تعمیرات کے خاتمے کی ایک ’’اسکیم‘‘ میں کراچی میں ہزاروں پکے گھر توڑ دیے گئے، بے شک ناجائز تعمیرات سے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور شہر کی خوبصورتی بھی متاثر ہوتی ہے لیکن اس حوالے سے ناجائز تعمیرات کے مرتکب افراد سے زیادہ بڑے مجرم وہ لوگ ہیں جو اس کی اجازت دیتے ہیں۔ ان ناجائز تعمیرات کے مرتکبین میں وہ غریب لوگ بھی شامل ہوتے ہیں جو بڑی مشکلوں سے اپنی رہائش کا بندوبست کرتے ہیں۔ ان کی تعمیرات کو منہدم کرنے سے ان کی عمر بھر کی کمائی لٹ جاتی ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ ناجائز تعمیرات اور کچی بستیوں کو تعمیر ہی نہ ہونے دیا جائے تاکہ غریب لوگ اپنے چھوٹے سے سرمائے سے محروم نہ ہوجائیں۔ اس حوالے سے ایک پبلسٹی مہم چلائی جائے کہ کچی بستیاں بسانا اور ناجائز تعمیرات کرنا خود غریب طبقے کے مفاد میں نہیں ہے، اس طرح کی انتباہی پبلسٹی سے لوگ اس نقصان سے بچ جائیں گے جو ناجائز تعمیرات کے انہدام سے ہوتا ہے اور اس حوالے سے زیادہ ذمے داری ان اداروں پر آتی ہے جو ناجائز تعمیرات کی اجازت دیتے ہیں یا مدد کرتے ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا ہے کہ کراچی میں 30 سے 40 فیصد کچی بستیاں ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان لگ بھگ ایک کروڑ عوام کا کیا ہوگا جو کچی بستیوں میں رہتے ہیں۔ اگر حکومت کچی بستیوں کے مکینوں کو گھر بنا کر دیتی ہے تو وہ مکین ان مکانوں کی قیمت کہاں سے ادا کریں گے جن کی بستیوں کو منہدم کردیا جائے گا۔ سابقہ دور میں جب کہ ہر کام رشوت کے ذریعے ہو جاتا تھا اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ کراچی میں 30 سے 40 فیصد لوگ کچی بستیاں بسا کر اس میں رہنے لگے ہیں۔یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ  اب تک کراچی جیسے بڑے اور صنعتی شہر میں 40-30 فیصد عوام کچی بستیوں میں رہ رہے ہیں۔ ان بستیوں میں ضروری سہولتوں کا فقدان ہے۔

ایک کروڑ کے لگ بھگ لوگ کچی بستیوں میں رہ رہے ہیں جہاں آبادی کے اندر جگہ جگہ گندی نالیاں بنی ہوئی ہیں ہر طرف کچرے کے ڈھیر ہیں اگر اتفاق سے یا پبلسٹی کی خاطر کوئی حاکم اعلیٰ ان بستیوں میں آتا ہے تو ہنگامی بنیادوں پر اس آبادی کو چمکا دیا جاتا ہے اس کے بعد گندی بستیوں کا دور ہے اور ہم ہیں دوستو رہ جاتا ہے۔ آج جو حکما عمران خان کو گرانے کی رٹ لگا رہے ہیں پچھلے دس سال میں عوام کو سوائے لوڈ شیڈنگ، پانی کے قحط، گندی بستیوں کے کیا دیا ہے اخباروں میں ان حکمرانوں کی اربوں روپوں کی کرپشن کی جو داستانیں چھپ رہی ہیں یہ اربوں روپے اگر کچی بستیوں کو ختم کرکے عوام کو جو بے گھر ہیں گھر بنا کر دیے جاتے تو وہ کچی بستیاں ختم ہوجاتیں جو جانوروں کے رکھنے کے لیے ناسازگار ہیں۔

صرف ایوب خان کی حکومت کے دوران کراچی میں لانڈھی، کورنگی اور ملیر میں نئی بستیاں بسائی گئی ہیں۔ ایوب خان ایک فوجی آمر تھا ہمارے سیاستدان خاص طور پر اپوزیشن آج جمہوریت کے جو نعرے بلند کر رہی ہے کیا یہ بتا سکتی ہے کہ اس نے اپنے دور حکومت میں بے گھر عوام کے لیے کتنے گھر بنائے، کیا کیا سہولتیں فراہم کیں؟ ایسی مہان حکومتیں جب حکومت گرانے کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں وہ کیا عوام سے مخلص ہوسکتی ہیں؟ عمران حکومت کو سلیکٹڈ بتانے والے کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ الیکٹڈ حکومتوں نے عوام کی کیا خدمت کی؟عمران حکومت نے بے شک اب تک مہنگائی کے سوا کچھ نہ دیا اور ہماری محترم اپوزیشن جو مہنگائی کے بہانے عوام کو مس گائیڈ کر رہی ہے کیا وہ عوام کو یہ بھی بتا رہی ہے کہ آج کی مہنگائی کل کی کرپٹ حکومتوں کی کارکردگی کا نتیجہ ہے۔

ہماری قابل احترام اپوزیشن عوام کو یہ بتا سکتی ہے کہ چوبیس ہزار ارب کا قرضہ کس نے لیا اور کہاں خرچ کیے۔ بے گھروں کے لیے، کتنی ہاؤسنگ اسکیمیں بنائیں اور کتنی کچی بستیوں کو پکا کیا؟ آج حکومت کے وسائل گزرے ہوئے کل میں 24 ہزار ارب کے قرضوں کا سود ادا کرنے میں لگ رہے ہیں۔ اور محترم اپوزیشن کا نعرہ ’’حکومت گراؤ‘‘بنا ہواہے۔

عمران حکومت پر ناجائز حکومت کا الزام لگانے والے کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ اربوں روپوں کی کرپشن کیا جائز ہے؟ حکومت نے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا لیکن اس نے کرپشن بھی نہیں کی۔ حکومت کو گرانے کی باتیں کرنے والے کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ حکومت نے ایک سال کے اندر کتنے ارب کی کرپشن کی؟ کیا اسی وجہ سے اپوزیشن کے مدبرین حکومت کو گرانے کی بات کر رہے ہیں؟ حکومت سے ہمیں کوئی ہمدردی نہیں کیونکہ اس نے عوام کو ناقابل تصور مہنگائی دی ہے۔

مہنگائی کے حوالے سے عوام کو  حکومت کے خلاف سڑکوں پر آنے کی ترغیب دینے والے کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ آج کی مہنگائی کی اصل ذمے داری کس پر آتی ہے؟ عمران خان پچاس لاکھ گھر بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں ظاہر ہے وہ پچاس لاکھ گھر نہیں بنا سکتے نہ بیروزگاروں کو ایک کروڑ نوکریاں دلا سکتے ہیں لیکن انھیں عوام کے مسائل حل کرنے کی شدید خواہش ہے کیا اسی وجہ سے ان کی حکومت کو گرا دیا جانا چاہیے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔