غیرت ہے بڑی چیز!

تنویر قیصر شاہد  پير 29 جولائی 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

مجھے ایمر جنسی میں اسلام آباد سے فیصل آباد جانا تھا۔ بس اڈے تک پہنچنے کے لیے مَیں نے ایک ٹیکسی سروس کی ایپ کے ذریعے میسج بھیجا ۔ چند منٹ میں رابطہ ہو گیا۔ٹیکسی پانچ چھ منٹ کے فاصلے پر تھی۔ موبائل فون پر ڈرائیور کے نام کے ساتھ اُس کی فوٹو بھی ظاہر ہو گئی تھی، موبائل نمبر بھی اور گاڑی کا نام و نمبر بھی۔ مَیں نے ڈرائیور کو فون کیا تو اُس نے کہا:’’ سر جی، میرے پاس آپکی لوکیشن آ گئی ہے، ابھی چند منٹ میںآپ کے پاس پہنچتا ہُوں۔ ‘‘ واقعی چند منٹ ہی میں ٹیکسی گاڑی میرے سامنے تھی۔ گاڑی کا نمبر دیکھ کر مَیں اُس میں بیٹھ گیا۔ دوپہر کوئی ساڑھے بارہ بجے کا عمل ہو گا۔

سیِٹ پر بیٹھا ہی تھا کہ ڈرائیور نے شائستگی سے معذرت کرتے ہُوئے کہا: ’’سر جی، معافی چاہتا ہُوں ، گاڑی کا اے سی آج خراب ہے۔‘‘ گرمی تو تھی لیکن خاموشی اور صبر ہی بہتر تھا۔ بس نکلنے کا وقت بھی ہُوا چاہتا تھا اور دوسری گاڑی منگوانے کا رِسک نہیں لے سکتا تھا۔کوئی بیس منٹ بعد ٹول پلازہ آیاتو ٹیکسی ڈرائیور نے ٹول وصول کرنے والے کلرک کو ٹوکن رقم دینے کے بجائے اپنا قومی شناختی کارڈ دکھادیا ۔ اُس نے مطلوبہ رقم (شائد تیس روپے) ادا نہیں کی تھی۔ اُس کا شناختی کارڈ دیکھ کر ٹول پلازہ کلرک بھی مطمئن ہو گیا تھا اور گاڑی پلازہ سے نکل گئی ۔

مجھے تجسّس ہُواکہ ڈرائیور نے ٹول ٹوکن کیوں ادا نہیں کیا ہے؟ اور یہ کہ اس کے شناختی کارڈ میں کیا جادُو ہے؟ ڈرائیور سے پو چھا تو اُس نے پشتو لہجے میں جواب دیا: ’’سر جی، ہم نہیں دیتاکیونکہ ہمارے قومی شناختی کارڈ پر مخصوص نشان جو لگا ہے۔ ‘‘میرا تجسس مزید بڑھا۔ مَیں نے ڈرائیور سے کہا:اگر آپ بُرا نہ منائیں تو کیا آپکا شناختی کارڈ دیکھ سکتا ہُوں؟اُس نے بایاں ہاتھ جیب میں ڈالا اور خاموشی سے شناختی کارڈ میری طرف بڑھا دیا۔ کارڈ کے دائیں کونے میں، سرخ رنگ کی ایک وہیل چیئر کا نشان ثبت تھا۔ یہ تو معذوری کی علامت ہے۔ کارڈ واپس کرتے ہُوئے مَیں نے ڈرائیور سے کہا: آپ تو ماشاء اللہ اچھی بھلی گاڑی چلا رہے ہیں، بظاہر صحتمند بھی ہیں، پھر معذوری کیسے؟ اُس نے بھاگتی گاڑی کو ذرا سا آہستہ کیا اور اسٹیئرنگ پر رکھے دائیں بازو کو میری جانب لہرایا۔ مَیں بھونچکا رہ گیا۔ مجھے سخت شرمندگی ہُوئی ۔ دل کو ایک دھچکا سا لگا۔ افسوس بھی ہُوا کہ مجھے یہ سوال پوچھنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ ٹیکسی ڈرائیور کا دایاں ہاتھ ہی نہیں تھا ۔

اُس نے بتایا کہ بچپن میں کسی بیماری کے سبب میرا یہ دایاں ہاتھ پوری طرح پنپ نہ سکا اور مَیں ایک ہاتھ سے مکمل معذور ہو گیا۔ بایاں ہاتھ بالکل ٹھیک ہے۔ اُس نے کہا: ’’سر جی، الحمد للہ مَیں نے اللہ کی دی گئی معذوری کے سامنے ہار نہیں مانی۔ مڈل تک پڑھا اور پھر گھر کی غربت دیکھ کو مزدوری کرنے لگا۔ ہم سات بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ میرے باپ کی دو بیویاں ہیں۔ دوسری شادی بابا نے اس لیے کی کہ شائد حالات بدلیں ۔ بچے تو مزید بڑھ گئے لیکن بابا کے مالی حالات خوشحالی کی طرف نہ بڑھ سکے۔

ہم سب بھائیوں کو چھوٹی سی عمر میں محنت مزدوریاں کرنا پڑیں۔ پھر مَیں نے کار ڈرائیونگ سیکھنے کی ٹھانی۔ کوئی سکھانے کے لیے تیار نہیںتھا۔ ہر کوئی یہی کہتا تھا: اِس ٹُنڈے ہاتھ کے ساتھ گاڑی چلاؤ گے؟ دل توڑنے والی باتوں کے باوجود مَیں نے اپنا حوصلہ نہ ٹوٹنے دیا۔ آخر گاڑی چلانا سیکھ ہی لی۔ پھر اِسی ایک ہاتھ کے ساتھ ڈرائیونگ لائسنس بھی لیا ۔‘‘ وہ زور سے مسکرایا اور بولا:’’ جس روز ٹریفک پولیس کے دفتر میں ڈرائیونگ لائسنس لینے کے لیے ٹیسٹ دینے گیا ، سر جی، ہر کوئی مجھے عجب نظروں سے دیکھ رہا تھا لیکن جس نے میر ا ٹیسٹ لینا تھا، وہ اللہ کا کوئی خاص بندہ تھا۔ اُس نے مجھے بغور دیکھااور میرا کندھا تھپتھپاتے ہُوئے کہنے لگا: نوجوان، بھئی تمہاری ہمت پر حیرانی ہے، پریشان نہ ہونا۔اُس نے کار ٹیسٹ کے دوران کئی چکر لگوائے، گاڑی زِگ زیگ راستوں پر چلوا کر دیکھی، اچانک بریکیں لگا کر میرے حواس کا امتحان لیا۔ پتہ نہیں کیا کیا۔

اُس نے مگر مجھے خوش ہو کر پاس کر دیا۔ ‘‘ٹیکسی ڈرائیور ایسی مشاقی سے گاڑی چلا رہا تھا کہ حیرت ہوتی تھی۔ پھر اُس کی آواز اُبھری۔ وہ کہہ رہا تھا: ’’اب مجھے آٹھ سال ہو گئے ہیں ٹیکسی چلاتے ہُوئے اور یہ میری تیسری گاڑی ہے۔ اللہ کے فضل سے کبھی ایکسیڈنٹ نہیں ہُوا۔ اِن آٹھ برسوں میں صرف دو بار چالان ہُوا ہے۔ کبھی کسی کے سامنے اپنا دُکھڑا رویا ہے نہ اپنی معذوری ظاہر کی ہے۔ اللہ کا شکر ادا کرتا رہتا ہُوں کہ اُس نے مجھے سارا جسم صحیح سلامت، تندرست عطا کیا ہے، صرف یہ ایک معذوری دی ہے تو کیا؟ کیا صرف اِس ایک وجہ سے اللہ سے شکوے کرنا شروع کر دُوں؟ اللہ کا بڑا ہی شکر ہے کہ روزی روٹی کے لیے کسی کا محتاج نہیں ہُوں ۔ ‘‘ وہ باتیں کرتا جاتا تھا ۔ اُس کے لہجے میں عزم بھی تھا اور حوصلہ بھی ۔ اللہ کی شکر گزاری کا جذبہ اُس کے ہر لفظ ے ٹپک رہا تھا ۔ کہنے لگا: ’’ سر جی، روزانہ گیارہ گھنٹے گاڑی چلاتا ہُوں اور بایاں ہاتھ ہی استعمال کرتا ہُوں ۔‘‘ گاڑی سرخ اشارے پر رکی تو کہنے لگا: ’’جب اس ٹیکسی کمپنی میں خود کو رجسٹر کروانے گیا تو اس کا مینجر مجھے تکتا ہی رہ گیا۔

منہ سے کچھ بولا نہیں۔ بس یہ کہنے لگا : کسٹمرز کو یار کوئی شکایت نہ ہو۔ مَیں نے کہا، سر جی کبھی شکایت نہیں ہوگی۔بس کام سے کام رکھتا ہُوں ۔ کسٹمر سے بات کم کرتا ہُوں ۔ کسٹمر میں زیادہ تر لوگ بات بھی نہیں کرتے۔ آپ نے خود یہ باتیں پوچھی ہیں تو بتا دی ہیں۔ ‘‘ پھر سامنے لگے آئینے میں جھانکا اور میری طرف مسکراتے ہُوئے دیکھ کر کہا: ’’ دراصل آپکو اس بات کی زیادہ پریشانی تھی کہ مَیں نے ٹول پلازے والے کو ٹوکن رقم کیوں نہیں دی۔ ایسا ہی ہے ناں؟‘‘

خاموشی ہی میرے لیے بہتر تھی۔ دِلی خوشی اس بات کی ہو رہی تھی کہ ایک معذور آدمی نے اپنی معذوری کے سامنے ہتھیار نہیںڈالے تھے۔ جرأت، بہادری اور غیرتمندی کے ساتھ رزقِ حلال کما رہا تھا۔ آنکھوں کے سامنے لاتعداد ایسے چہرے گھوم گئے جو معذور نہ ہو کر بھی معذوری کا بہانہ بنا کر بھیک مانگتے ہیں۔ ایسے کئی بہانہ ساز اور جعلساز لوگ ہمیں روزانہ شہر کے چوراہوں ، شاپنگ مالز کے اندر اور باہر، گلیوں ، سڑکوں، ٹریفک اشاروں پر ملتے ہیں اور کئی ہاتھ آپکے سامنے دراز ہو جاتے ہیں۔ وہ خود تو شرمسار نہیں ہوتے لیکن ہمیں ضرور شرمسار کر دیتے ہیں۔

پولیس بھی اُن کے راستے مسدود نہیں کر سکتی۔ نجی ٹی ویوں والے آئے روز اُن کے فراڈ  سامنے لاتے ہیں لیکن اُن کی تعداد کم ہونے کے بجائے روز افزوں ہے۔ بس اڈے پر پہنچ کر ٹیکسی کا جتنا کرایہ بنا تھا ، مَیں نے ایک سو روپیہ اضافے کے ساتھ یہ کہہ کر کہ یہ تمہاری ہمت کا انعام ہے، اُسے کرایہ ادا کیا تو ٹیکسی ڈرائیور نے زور سے مسکراتے ہُوئے یہ کہہ کر مجھے سو روپیہ واپس کر دیا : ’’چاچا، آپ میرے لیے دعا کریں۔‘‘بس میں بیٹھ کر اسلام آباد سے فیصل آباد پہنچ گیا تھا لیکن ان ساڑھے چار گھنٹوں کے سفر میں ایک لمحے کے لیے بھی اُس غیرتمند ٹیکسی ڈرائیور کا چہرہ بھول سکا نہ اُس کے الفاظ۔ ابھی تک اُس حیرت خیز شخص کا چہرہ آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔