ریلوے میں بہتری کی ضرورت

جمیل مرغز  جمعرات 1 اگست 2019

ہر محکمے میں بنیادی کردار وزیر کا ہوتا ہے‘ ریلوے مرکزی حکومت کا ادارہ ہے اور اس کے وزیر محترم شیخ رشید ہیں‘ ان کو جناب عمران خان نے اس محکمے کو بہتر کرنے کے کام پر لگایا ہے۔ میرے خیال میں ریلوے کے بجائے ان کے لیے بہتر وزارت اطلاعات تھی۔ آج تک انھوں نے کبھی بھی ریلوے کے مسائل پر بات نہیں کی‘ بس حکومت مخالفین پر برستے رہتے ہیں۔

ایک طبقے کی رائے ہے کہ خواجہ سعد رفیق نے سنجیدگی سے ریلوے کے نظام کو بہتر بنانے پر کام شروع کیا تھا‘ ان کے اقدامات بھی پس پشت ڈال دیے گئے ہیں۔ ریلوے ہمارے ملک میں انگریزوں کا چھوڑا ہوا بہت بڑا اثاثہ تھا‘اس نظام کو ہندوستان نے ترقی دی اور اب بھی زیادہ تر مسافر اور سامان کی ترسیل اسی ذریعے سے ہوتی ہے‘ بنگلہ دیش نے بھی ریلوے کو ترقی دی‘ پاکستان میں ریلوے کی آدھی لائنیں کباڑ میں بیچ دی گئیں اور جو باقی بچا تھا اس کو زنگ نے ختم کر دیا‘ ملک کے اندر ریلوے کے بہت سے حادثات ہو رہے ہیں۔

اس مہینے 20 افراد ہلاک اور بہت سے زخمی ہو گئے جب اکبر ایکسپریس صادق آباد کے اسٹیشن پر ایک مال گاڑی سے ٹکرا گئی‘ اسی طرح پچھلے مہینے مکلی شاہ اسٹیشن پر ایک مسافر ٹرین مال گاڑی سے ٹکرا گئی‘ جس میں تین افراد مارے گئے‘ ان حادثات کے بعد روٹین کی تحقیقات‘ چند تبدیلیاں اور بس۔ اطلاعات کے مطابق ریلوے کو شدید مالی مشکلات درپیش ہیں‘ تیل کی خریداری بھی مشکل ہو گئی ہے‘ حالات بہت خراب ہیں‘ ان حادثات اور خراب انتظامی صورتحال کی وجہ سے عام لوگوں کا اعتماد مجروح ہو رہا ہے۔

ماضی میں 7600 کلومیٹر پر پھیلے ہوئے ریلوے کے ذریعے سے مغربی پاکستان کے بڑے شہر‘ قصبے اور دور دراز کے علاقے آپس میں منسلک تھے ‘ انگریز کے زمانے کے تربیت یافتہ انجینئر‘ افسر اور انتظامی عملہ بہت ہی بہتر طریقے سے پورے نظام کو چلا رہا تھا‘ سول انجینئر‘ سگنل‘ ٹریفک اور کمرشل کیڈر کے ساتھ ساتھ میکنیکل اور الیکٹریکل انجینئرنگ کا بہترین عملہ موجود تھا‘ مسافر اور سامان کی ترسیل ریلوے کے دو اہم ترین شعبے تھے ‘مال کی ترسیل کے ذریعے جو کمائی ہوتی تھی اس سے مسافروں کو رعایت دی جاتی تھی۔

ریلوے حکام کی غفلت نے مسافروں کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے‘ کراچی میں ٹرینوں کی آمد اور روانگی کو مقررہ اوقات میں لانے پر محکمہ ریلوے ناکام ہو گیا ہے‘ مسافر موجودہ حکومت اور وزیر ریلوے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ بہتری کے بجائے صورت حال دن بدن بدتر ہو رہی ہے‘ بدانتظامی کا خمیازہ مسافر بھگت رہے ہیں‘ لوگوں کا کہنا ہے کہ نئی گاڑیاں چلانے کے بجائے پہلے سے چلنے والی ٹرینوں کی کارکردگی بہتر بنائی جائے۔

میرا ایک رشتہ دار کراچی سے گاؤں آ رہا تھا ‘ اس نے سارا دن گاڑی کے انتظار میں کراچی اسٹیشن پر گزارا ‘ وہ بتا رہا تھا کہ اتوار 21 جولائی کو کراچی ایکسپریس8 گھنٹے‘ تیزگام 4 گھنٹے‘ ہزارہ ایکسپریس2 گھنٹے‘ شاہ حسین ایکسپریس5 گھنٹے‘ پاکستان ایکسپریس 3 گھنٹے اور پشاور سے آنے والی عوامی ایکسپریس 5 گھنٹے تاخیر سے کراچی پہنچیں‘ اسی طرح متعدد گاڑیاں 3 سے 7 گھنٹے تاخیر سے کراچی سے روانہ ہوئیں اور یہ اب روز کا معمول بن گیا ہے۔

ہر اسٹیشن پر عوام پریشانی کا شکار ہوتے ہیں لیکن ریلوے حکام ٹرینوں کو معمول پر لانے میں ناکام ہیں‘ جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے‘ مسافروں کو شکایت ہے کہ ریلوے کا عملہ بھی انھیں درست معلومات فراہم کرنے سے قاصر ہے ‘ انکوائری کا نمبر بھی نہیں ملتا۔

ایک اخباری اطلاع کے مطابق11 جولائی کو اکبر ایکسپریس کے حادثے کے بعد خراب سگنلز اور ٹریک کی وجہ سے ریلوے کے ڈرائیور اب تک چھ خطرناک حادثات کو بچانے میں کامیاب ہوئے ہیں‘ ایک روز لاہور جانے والی خیبر میل کے ڈرائیور نے بڑی ہوشیاری سے ایمرجنسی بریک استعمال کر کے ایک بڑے حادثے کو بچایا‘ اس وقت نوشیرو فیروز سندھ کے محراب پور اسٹیشن کے لوپ لائن پر پہلے سے فرید ایکسپریس کھڑی تھی۔ اخبارات میں شایع خبروں کے مطابق ڈرائیوروں اور اسسٹنٹ ڈرائیوروں نے مطالبہ کیا تھا کہ نئی گاڑیاں چلانے سے قبل ریلوے لائن اور سگنلز کو ٹھیک کیا جائے ۔

پاکستان ٹرین ڈرائیور ایسوسی ایشن کے چیئرمین چوہدری شمس پرویز نے انگریزی معاصر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان ریلوے کے حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سسٹم کی ناکامی کے ذمے داروں اور ان لوگوں کو جو ریلوے کی بگڑتی ہوئے خراب لائنوں کے باوجود غفلت کے مرتکب ہوئے ہیں‘ ان کو ایکسپوز کیا جائے‘حالانکہ ریلوے لائنوں کی دو سال میں لازمی مرمت کرنا ہوتی ہے ‘ریلوے کی یہ ایسوسی ایشن 2600 ڈرائیوروں کی نمایندگی کرتی ہے۔ جب سگنل کا سسٹم خراب ہو اور ریلوے لائن کی حالت بھی بدتر ہو تو ڈرائیور اپنے مسافروں کو کیسے بچا سکتے ہیں‘ ان حالات میں جب کہ ہر وقت حادثات کا خطرہ ہوتا ہے‘ تو بجائے خرابیاں دور کرنے کے حکمران نئی ٹرینیں چلا رہے ہیں‘یہ درست عمل نہیں۔

ہر شخص جانتا ہے کہ میانوالی ایکسپریس کا اجراء صرف وزیر اعظم کو خوش کرنے کی کوشش ہے ورنہ یہ لائن برسوں سے بند ہے کیونکہ مسافروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی تھی‘ کیا مسافر ایسی گاڑی میں سفر کریں گے جو میانوالی سے لاہور پانچ گھنٹے میں پہنچتی ہے‘ جب کہ سڑک کے راست سفر دو گھنٹوں کا ہے۔ اب تو گاڑیوں میں چوہوں اور کھٹملوں کی بھرمار کی وجہ سے بھی لوگ سفر کرنے سے خوفزدہ ہیں‘ یہ تصویریں ٹی وی پر بھی دکھائی جا رہی ہیں۔

وزیر ریلوے کو معلوم ہونا چاہیے کہ ریلوے کے نظام کو چلانے کے لیے بنیادی ضروریات فراہم کرنا ضروری ہوتی ہیں‘ ان میں بہتر ریلوے اسٹیشن سب سے ضروری ہیں‘ ہمارے اسٹیشنوں کی حالت انتہائی خراب ہے‘ کھانا بھی خراب ہوتا ہے‘ بیٹھنے کے لیے انتظار گاہیں بدترین حالت میں ہیں‘ آرام اور اچھی خوراک کا تصور محال ہے‘ ایسے حالات میں مسافروں کا سوچنا بھی محال ہے۔ حالانکہ ریلوے دنیا بھر میں سفر کا بہترین ذریعہ جانا جاتا ہے‘ یورپی ممالک‘ چین اور جاپان اپنے ریلوے نظام کو بہتر بنانے میں اربوں ڈالر لگا رہے ہیں‘ اب تو تیز ترین ٹرینوں کا مقابلہ ہو رہا ہے ‘یہ زمینی ذریعہ سفر کم خرچ اور ماحول دوست ہے ‘چین کی طرف سے ریلوے کی بہتری کا منصوبہ ML1 کافی عرصے میں مکمل ہو گا‘ اس سے قبل موجودہ نظام ٹھیک کرنا ضروری ہے۔

سب سے اہم مسئلہ تو ریلوے کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے خواہش ہونی چاہیے‘ صرف بیانات سے مسئلہ حل ہونے کے بجائے اور بھی خراب ہوتا ہے‘ اس وقت بھی ریلوے کا خسارہ 24 ارب سے زیادہ ہے۔ ریلوے کی ملکیت میں ایک اندازے کے مطابق 166,000 ایکڑ اراضی ہے‘ موجودہ حکومت اس قیمتی اثاثے کو نیلام کرنے کا سوچ رہی ہے حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ اس اراضی کا بہتر استعمال کر کے اس سے مالی فائدہ اٹھائے‘ یہ اراضیات ریلوے کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے مختص کی گئی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔