اپوزیشن اور حکومت اندرکی کہانی

معاشرے میں جھوٹ، بے ایمانی اور دکھاوے کا رویہ ختم ہو۔ اسی طرح ماحولیاتی آلودگی بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔


رفیق پٹیل August 02, 2019

ISLAMABAD: اس حقیقت سے کون انکارکرے گا کہ پاکستان کی سیاست میں جوکچھ سامنے نظر آتا ہے، اندرون خانہ اس کے برعکس یا کچھ اور ہوتا ہے، عوام اور میڈیا کے سامنے اصل کہانی وقت گزرنے کے بعد سامنے آتی ہے۔ اس کی اہم مثال 2000 دسمبرکی ہے، جب سابق وزیر اعظم نواز شریف جیل میں تھے، جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی۔

مسلم لیگ کے کارکن جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے خاتمے کی تحریک چلا رہے تھے۔ اندرون خانہ کچھ اور ہو رہا تھا۔ نواز شریف اور پرویز مشرف کے درمیان معاملات طے ہوگئے نواز شریف دس سال کے لیے سیاست سے دستبرداری کا معاہدہ کرکے سعودی عرب چلے گئے، مسلم لیگ (ن) کے کارکن اور حامی حیران رہ گئے۔

1993 میں بے نظیر بھٹو حزب اختلاف کے اتحاد کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کر رہی تھیں ،انھوں نے درمیان میں ہی مارچ کے خاتمے کا اعلان کردیا۔ اندرون خانہ نئے انتخابات کے لیے معاملات طے ہوگئے تھے، لیکن نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم کو بھی اس کی خبر نہ ہوسکی۔ بعد میں حزب اختلاف کی قیادت کو حقائق کا علم ہوا۔

ان دونوں واقعات کی نوعیت مختلف اور اثرات علیحدہ علیحدہ تھے، لیکن یہ اس بات کا ثبوت پیش کرتے ہیں کہ سیاست میں بظاہرکچھ ہوتا ہے پس پردہ کچھ اور ہوتا ہے یہی اگر اب بھی ہو رہا ہے تو اس کے نتائج بھی جلد سامنے آجائیں گے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا حقائق کے خلاف ہوگا کہ سابق حکمران دوبارہ برسر اقتدار آجائیں گے، حالات تبدیل ہوچکے ہیں۔ خطے کی صورت حال میں نئی کیفیت ہے جو ہمیشہ کی طرح اندرونی سیاست پر اثرانداز ہے۔ ان جماعتوں پر شخصیات کا غلبہ ہے۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے نئے اثرات سامنے آرہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں نئے حالات کے مطابق جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔

پاکستان میں غیر آئینی تبدیلی کو بھی پاکستان کے طاقتور حلقوں نے ناپسندیدہ تصور کر رکھا ہے۔ جمہوری ڈھانچہ رفتہ رفتہ مستحکم ہو رہا ہے پاکستان کی موجودہ حکومت اور عمران خان کو بطور وزیر اعظم خارجہ محاذ پر کافی کامیابیاں ملی ہیں۔ امریکا سے سرد مہری والے تعلقات بہتری کی جانب ہیں۔ عرب ممالک، ایران، چین اور روس سے تعلقات میں کافی بہتری آچکی ہے۔ عمران خان کی عالمی سطح پر حمایت میں اضافہ ہوا ہے جب کہ سابقہ حکمرانوں کی عالمی سطح پر ساکھ بہت خراب ہوچکی ہے، اندرونی محاذ پر بھی اہم طاقتور حلقوں کی جانب سے عمران خان کی حمایت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اپوزیشن کے تقریباً تمام اہم رہنما حالات کی گہرائی کا جائزہ نہ لے سکے۔ وہ پاکستان اور عالمی طاقتوں کے اہم حلقوں کی سوچ میں تبدیلی کا اندازہ نہ کرسکے۔ حالانکہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ پاکستان کا ایک خاص جغرافیائی محل وقوع ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان نہ صرف خطے کی طاقتوں بلکہ عالمی طاقتوں کے لیے بھی اہم ہے۔

اس وقت سب سے اہم مسئلہ افغانستان میں امن و استحکام ہے۔ جو امریکا، چین، ایران، روس کے لیے ضرورت بن گیا ہے جب کہ مغربی ممالک بھی یہی خواہش رکھتے ہیں۔ اس کے لیے پاکستان میں بھی ایک مضبوط اور مستحکم حکومت کی ضرورت ہے۔ کمزور حکومت اپنے مسائل میں الجھی رہے گی تو وہ بھرپور انداز میں افغانستان میں امن و استحکام کے لیے کام نہیں کرسکے گی۔ جس کی وجہ سے دنیا بھر کی اہم طاقتوں کی جانب سے موجودہ حکومت کے لیے مثبت رویہ ہے۔ پاکستان کی اپوزیشن جماعتیں بظاہر حکومت پر تنقید کرتی ہوئی نظر آتی ہیں لیکن ان کے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کی اکثریت موجودہ حکومت کو وقت دینا چاہتی ہے۔

وہ کسی صورت نئے انتخابات کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کے پاس کوئی واضح حکمت عملی نہیں ہے۔ اپوزیشن کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اس بیانیے کو بہت زیادہ آگے لے کر نہیں چلنا چاہتے کہ گزشتہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی انھیں معلوم ہے کہ اس بات کو بہت زیادہ آگے بڑھایا گیا تو نئے انتخابات کا مطالبہ ہوگا یا پھر ان کی قیادت ان سے کہے گی کہ وہ اسمبلیوں سے مستعفیٰ ہوجائیں۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی حکومت کا خاتمہ نہیں چاہتی ہے وہ اندرون خانہ احتساب کے عمل میں رعایتوں کی طلب گار ہے۔

مسلم لیگ (ن) میں انتشار بہت زیادہ ہے۔ان کے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی بھی اسمبلیوں کی تحلیل اور نئے انتخابات کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مسلم لیگی قیادت کسی ایسے سمجھوتے کی راہ تلاش کر رہی ہے جس میں ان کی احتساب سے جان چھوٹ جائے۔ انھیں پورا اندازہ ہے کہ اگر وہ مولانا فضل الرحمن کے مدرسوں کے طلبا کی بڑی تعداد اور اپنے کچھ کارکن اسلام آباد میں جمع کرلیں تو حکومت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ عمران خان نے جب اسلام آباد میں ایک طویل دھرنا دیا تھا تو حکومت اور زیادہ مضبوط ہوگئی تھی اور عمران خان کی جماعت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے تھے۔ حکومت کی تبدیلی کے لیے ایک راستہ عدم اعتماد کی تحریک ہے۔

مرکز میں وزیر اعظم عمران خان اور پنجاب میں وزیراعلیٰ عثمان بزدارکے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانی ہوگی۔اس وقت جب میڈیا میں سیاسی جماعتوں کے نمایندے اپنا موقف بیان کر رہے ہیں تو ایسی صورت میں جلسے جلوس کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے کئی اہم رہنما بد عنوانی کے مقدمات کی زد میں ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی ساکھ پر خراب اثرات مرتب ہو رہے ہیں ، نئی قیادت کی راہ مسدود ہوچکی ہے۔ پیپلز پارٹی کو سندھ حکومت نے سہارا دے رکھا ہے اور وہ عدالتوں اور جیلوں کے ساتھ نااہلی کے مقابلے کے لیے تیار ہیں ، اس کے باوجود پارٹی میں انتشار ہے اور اس کی تنظیم پہلے سے کمزور ہو رہی ہے۔ اپوزیشن کے لیے ایسا مشکل وقت کبھی نہیں آیا۔ قومی سطح پر اور بین الاقوامی سطح پر مسلم لیگ کی ساکھ خراب ہو رہی ہے اور وہ اس کا ادراک بھی نہیں رکھتی ہیں۔

پیپلز پارٹی پنجاب سے نکل کر اندرون سندھ تک محدود ہے اور سندھ حکومت کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے سب سے خراب حالات اندرون سندھ میں ہیں۔ برسر اقتدار تحریک انصاف اور وزیر اعظم عمران خان کے لیے بھی ہموار راستہ نہیں ہے۔ ایک طرف افغانستان میں قیام امن اور استحکام کا انتہائی پیچیدہ اور مشکل مسئلہ ہے، دوسری جانب پاک بھارت کشیدگی ہے۔ سب سے اہم مسئلہ معیشت کی بحالی ہے۔ زراعت کے فروغ اور اسے جدید خطوط پر استوار کرنا نئی ٹیکنالوجی اور طریقہ کار کے ذریعے فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کے بھرپور اقدامات نظر نہیں آتے۔

صنعتوں کے فروغ خصوصاً برآمدات پر مشتمل صنعتوں کے قیام ایک مشکل کام ہے تجارتی سرگرمیوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا، سڑکوں کی تعمیر، گیس، بجلی اور پانی کی فراہمی، تعلیم عام کرنے کے اقدامات، صحت عامہ کی سہولیات، ٹریفک کا بہتر نظام، بڑھتی ہوئی آبادی کی روک تھام، غربت کا خاتمہ اور روزگارکی فراہمی بڑے بڑے چیلنج ہیں۔ جہاں تک بدعنوانی کا مسئلہ ہے یہ زہر بھی اوپر سے نیچے تک پھیلا ہوا ہے۔ ہر سطح پر اس کی روک تھام کے اقدامات کے بغیر اس پر قابو پانا مشکل ہوگا۔ قومی سطح پر ایسے اقدامات بھی کرنے ہوں گے جس سے اخلاقی اقدار بہتر ہوں۔

معاشرے میں جھوٹ، بے ایمانی اور دکھاوے کا رویہ ختم ہو۔ اسی طرح ماحولیاتی آلودگی بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ درختوں میں اضافے اور شجرکاری کی مہم کو بھی تیز کرنا ضروری ہے حکومت کے لیے قدم قدم پر چیلنجز ہیں۔ عوامی سطح پر لوگوں کی پریشانیاں بڑھ رہی ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کے خاتمے کو ترجیح دیتے ہوئے ہر سطح پر تمام مسائل کے حل کے اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت خلوص نیت سے پاکستان کو خوشحالی اور ترقی کی طرف لے جانا چاہتی ہے تو اسے سارے مسائل کے حل میں آگاہی کی مہم چلانی چاہیے۔

عوامی حمایت کے دائرے کو مزید وسیع کرنا چاہیے۔ قومی یکجہتی کو فروغ دینا چاہیے۔ مسائل بہت زیادہ ہیں پوری قوم کو یکسو ہوکر ان چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ تحریک انصاف اور عمران خان کے لیے موقع ہے کہ وہ قوم کو آگے لے جائیں۔ خوشحالی اور ترقی کی جانب سفر شروع کریں۔ پاکستان میں حکومت چلانا کبھی آسان نہیں رہا۔ لیکن قانون کی حکمرانی، اچھی حکومت، مسائل کی نشاندہی ان کے دیرپا حل کے لیے مکمل کوشش کے ذریعے راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ کیا موجودہ حکومت کے پاس یہ صلاحیت ہے۔ کیا وہ ان مسائل کے حل کے لیے صاف ستھری اور باصلاحیت مشینری کا انتظام کر سکتی ہے؟ آنے والے وقت میں ہی ہمیں اس سوال کا جواب مل سکے گا۔

مقبول خبریں