آزادی کشمیر مبارک ہو!

شہلا اعجاز  جمعرات 8 اگست 2019

وزیر اعظم عمران خان کا دورہ امریکا بھارت کے لیے کچھ اچھا ثابت نہیں ہوا۔ شاید اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ مسئلہ کشمیر کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک خوش آیند قدم اٹھانے کی بات کی ہے۔ وہ بھی اس صورتحال میں جب بھارت میں 370 اور 35A کی شق کو ختم کرنے کی کوششیں بڑی شد و مد سے جاری تھیں۔

یہ درست ہے کہ پاکستان افغانستان کی اندرونی خلفشار کو قابوکرنے میں ایک بڑا معاون ہتھیار ثابت ہو سکتا ہے وہیں افغانستان کی اندرونی سیاسی اور جنگی محاذ آرائی ہمارے ملک کے لیے ہرگز بھی فائدہ مند نہیں ہے، اسی ایشو پر اگر بحث جاری رکھی جائے تو یہ اس قدر طویل ہو سکتی ہے کہ بہت سے دوسرے اہم مسائل نظر انداز ہو سکتے ہیں لیکن اس تمام بحث و مباحثے کے دوران کشمیر کے ایشو پر اگر مثبت انداز میں کوئی بات ہوئی ہے تو یقینا یہ بہت اچھی خبر ہے خدا کرے کہ اس پر کام ہوتا رہے تو کشمیری عوام اور ان کے رستے زخموں کو دوا ملے۔

دوسری بار جب نریندر مودی کرسی صدارت پر برا جمان ہوئے تو ان کے سامنے بہت اہم مسائل کو حل کرنے کے عزائم تھے جن میں کشمیرکے حوالے سے بھارت کے آئین سے جڑے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے آرٹیکل 370 اور 35A کو ختم کر دینا بھی شامل تھا، گویا مظلوم کشمیری عوام کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر کے زبردستی اس زمین کو خرید کر انھیں بے گھر کر دینا تھا۔ یہ ایک بہت بڑا جرم بھی ہے لیکن مودی نے اپنے اردگرد جس انتہا پسندی کے رویے کو اختیار کر رکھا ہے ان کے لیے یہ معمولی سی بات تھی جو شخص نوے کی دہائی میں ہزاروں مظلوم مسلمانوں کو صوبہ گجرات میں خون کی ہولی میں بہا چکا تھا اس کے لیے یہ کچھ مشکل نہ تھا لیکن سچ ہے کہ فیصلے تو اوپر والے کی عدالت میں ہی ہوتے ہیں۔ مودی کے دست و بازو امیت شا بھی ان کے اس امر پر بہت مطمئن تھے۔

ان کے خیال میں گاندھی جی اور جواہر لال نہرو نے حماقت کی تھی اور وہ ان آرٹیکلز کی حماقت کو ختم کر کے اپنی قوم کے لیے ایک ایسا باب رقم کرنے چلے تھے کہ خوابوں میں انھیں اپنے نام سرخ اور سنہرے حرفوں سے لکھے نظر آ رہے تھے۔ درحقیقت اس طرح جنوبی ایشیا میں بھارت اپنی بالادستی قائم کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ گویا کشمیر پر اپنے بھرپور قانونی تسلط کے بعد قدم اور بڑھانے کے ارادے جس کا اظہار پچھلے ادوار میں دیکھا گیا ہے۔ مثلاً دو فروری 2006ء میں بھارتی صدر اعلان کرتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان کے مابین فیڈریشن کے قیام کا امکان موجود ہے اور اگلے پچاس برسوں کے اندر خواب حقیقت کا روپ دھارے گا، لیکن جناب خواب تو خواب ہوتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکا سے جڑے ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بیان کہ وہ کشمیر کے مسئلے کے لیے ثالثی کا کردار ادا کرنے پر تیار ہیں اور اس کے لیے چین بھی پیش پیش ہے، بھارتی حکومت کو بوکھلانے کے لیے کافی تھا اسی لیے انھوں نے جلد جلد پینترے بدلے۔ ادھر فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی اور دیگر کشمیری سیاسی ارکان بھارتی حکومت کی سنگ دلی کو سمجھتے ہوئے اپنی جماعتوں میں اتحاد پیدا کرنے کی باتیں کر رہے ہیں تا کہ وہ متحد ہو کر بھارتی حکومت کو ان کے اس اقدام سے باز رکھ سکیں۔ فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ نے نریندر مودی سے ملاقات کی تو مودی جی جن تک امریکا کے اس ثالثی کردار کی خبریں پہنچ چکی تھیں فوراً ہی اپنی بات سے مکر گئے اور فرمانے لگے کہ ان کی سرکار کو 370 اور 35A آرٹیکل ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں حالانکہ اسی دوران امیت شا کا کہنا تھا کہ وہ سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

25 جولائی کو کشمیرکے ایک گاؤں میں شروع ہونے والی مشکل امرناتھ یاترا جو ہندو برادری کے لیے خاصی مقدس سمجھی جاتی ہے جس کا مشکل راستہ پار کرنا یاتریوں کے لیے خاصا دشوار ہوتا ہے، اس کے لیے سیکیورٹی کے خاص انتظامات کیے گئے تھے ہر سال ہونے والی اس یاترا کے لیے خاص اہتمام کیا جاتا ہے لیکن تینتالیس دن بعد اس یاترا کو بندکر دیا گیا اور ہندو یاتریوں کو ان کے گھر واپس پلٹنے کے لیے کہا گیا۔

7 اگست کو اچانک اس یاترا کو بندکرنے کا مقصد کیا تھا؟ صرف یہی نہیں بلکہ پینتیس ہزار پیرا ملٹری فورس کی بھی وادی میں تعیناتی نے پورے بھارت میں ایک ہلچل مچا دی۔ خیال یہی تھا کہ کشمیر میں کچھ ہونے والا ہے۔ یہ ڈرامہ تھا یا حقیقت۔ امریکا کی جانب سے پاکستان کے لیے نرم گوشہ یا دنیا میں مودی حکومت کے چہرے سے اٹھتا پردہ۔۔۔۔دو اگست کو ہی خبریں ملتی ہیں اور بھارتی میڈیا شور مچاتا ہے کہ یاترا بند کرنے کی وجہ وہ بارودی سرنگ تھی جو بھارتی فوج کو ملی وہ ہتھیار تھے جو یاتریوں پر برسنے کو تھے تیار، جنھیں دکھا دکھا کر وہ بھارتی عوام کو سمجھا رہے تھے کہ پاکستانی کس قدر عیاری سے ان مذہبی اقدار کی دھجیاں بکھیرنے کو تیار تھے اور پھر تین اگست کو دکھایا جاتا ہے کہ پانچ چھ فدائی جن کو بھارتی افواج نے مار گرایا وہی تھے کہ جن کے حملے سے ہندو یاتریوں کو بچا یا گیا تھا۔

مودی سرکار کے اس نئے ڈرامے کا کیا مقصد تھا، کیا یہ ان کی بوکھلاہٹ تھی کہ کس طرح وہ پاکستان کی افواج اور حکومت کو بدنام کرے اور دنیا میں واویلا کرے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ مودی سرکار اور ان کے اپنے اہم پٹھو سمجھ چکے ہیں کہ واقعی اب کشمیر میں کچھ ہونے کو ہے۔ خدا کرے جلد وادی کشمیر کی آزادی کی ہواؤں میں جھولے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔