میاں بیوی کی لڑائی

میاں بیوی اپنی لڑائیاں جس موضوع سے شروع کریں، اس پر دلائل سے بات کریں اور معاملہ جتنا جلدی ہوسکے رفع دفع کردیں


مناظر علی August 30, 2019
میاں بیوی کی لڑائی ختم کرنا یا بڑھانا ان کے اپنے ہی بس میں ہوتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کہتے ہیں کہ میاں بیوی اپنی زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں، لیکن میرے ذہن میں ہمیشہ یہی سوال رہا ہے کہ بھئی دو پہیے تو سائیکل اور موٹر سائیکل کے ہوتے ہیں، گاڑی تو دو پہیوں پر نہیں چلتی دیکھی کبھی، رکشہ بھی کم از کم تین ٹائروں پر ہی چلتا ہے۔ ایک سیانے نے اس کا جواب دیا کہ میاں بیوی دو ہی ٹائر ہوتے ہیں اور گاڑی بھی چار ٹائروں پر ہی چلتی ہے۔ ایک ٹائر میاں کے گھر والے اور ایک ٹائر بیوی کے گھر والے۔ پھر اگلا سوال ذہن میں ابھرا کہ اگر ایک ٹائر بیچ چوراہے پنکچر ہوجائے تو یہاں کیا فٹ کیا جائے؟ جواب ملا کہ یہاں دونوں خاندانوں یا پھر میاں بیوی کے قریبی دوست بطور اسٹپنی کام کرتے ہیں۔ یعنی اگر میاں بیوی میں زیادہ لڑائی ہوجائے تو پھر صلح کرانے میں یہ اسٹپنیاں کام آتی ہیں۔

اب بتانے میں شرم کیسی؟ کئی بار ہمیں بھی دوستوں کی خاطر اسٹپنی بننا پڑا۔ جب کسی کے ساتھ گہرا تعلق ہو تو کیا ہوسکتا ہے، جب وہ گھر سے اٹھا کر لے جائے اور اسٹپنی بنادے تو پھر بھاری بھرکم گاڑی کو ناتواں کندھوں پر اٹھانا ہی پڑتا ہے اور اصل ٹائر کا پنکچر لگنے تک دھیرے دھیرے ہی سہی ساتھ چلنا پڑتا ہے۔ البتہ اس عمل کے دوران خاصے تجربات ضرور حاصل ہوتے ہیں۔

حقیقت تو یہی ہے کہ میاں بیوی کی لڑائی ختم کرنا یا بڑھانا ان کے اپنے ہی بس میں ہوتا ہے، مگر اس کےلیے دونوں میں سمجھداری ہونا شرط اولین ہے۔ مثلاً آپ کہہ سکتے ہیں کہ میاں بیوی کی لڑائی پانی میں مدھانی ڈالنے کے مترادف ہے کہ جتنا مرضی پانی میں مدھانی چلاتے رہیں اس سے مکھن کبھی نہیں آئے گا، آخر میں پانی پانی ہی رہے گا اور مدھانی ڈالنے والے کو ہار ماننا پڑے گی۔ اگر یہ پانی میں مدھانی ہی ہے تو پھر مدھانی ڈالنے کی ضرورت کیا ہے، یعنی لڑائی شروع شروع میں ہی ختم ہوجائے تو بہتر ہے، حاصل بحث بھی کچھ نہیں ہونا ہوتا۔ دوسرے لفظوں میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ میاں بیوی کی لڑائی لسی میں پانی ڈالنے کے مترادف ہے، جتنی مرضی پانی ڈال کر بڑھا لیں۔ یعنی میاں بیوی اپنی لڑائی شروع میں ہی ختم کردیں تو بہتر ہے، ورنہ بڑھے گی تو پھر بڑھتی ہی چلی جائے گی۔

میں نے کچھ عرصہ قبل ازدواجی زندگی کی احتیاطی تدابیر پر ایک مفصل بلاگ بھی لکھا تھا، اسے بھی پڑھا جاسکتا ہے۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: ازدواجی زندگی کےلیے احتیاطی تدابیر

البتہ میاں بیوی کی لڑائی کے معاملے میں ایک بات دونوں فریق ہی ذہن میں رکھیں کہ اس پتنگ کی ڈور آپ کے اپنے ہاتھ میں ہی ہوتی ہے، جتنا مرضی ہے اونچا اڑا لیں یا پھر ڈور کٹوا کر کف افسوس ملتے رہیں۔ کسی کا نقصان کچھ نہیں ہونا ہوتا، دنیا ایک تماشائی کا کردار نبھاتی ہے اور وہ ہر دور میں، ہر حال میں اسی کردار میں نظر آئے گی۔

ہلکی پھلکی بحث وتکرار ہر گھر میں ہوتی ہے اور جیسے کہتے ہیں کہ اختلاف جمہوریت کا حسن ہے، ایسے ہی چھوٹی موٹی بحث اور اختلاف ازدواجی زندگی کا حسن ہے۔ مگر اسے بڑھانے سے گریز کریں تو بہتر ہے، ورنہ اسے کوئی سمجھداری نہیں کہے گا۔ میاں بیوی کو یہ خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اگر بات اس نکتے سے شروع ہوئی ہے کہ سالن میں مرچ زیادہ ہے یا نمک کم ہے تو پھر موضوع بحث بھی اس دن کا سالن ہی رہنا چاہیے اور جو بحث چھڑی ہے اس کا مرکزی نکتہ سالن ہی رہنا چاہیے۔ یعنی لڑائی سالن سے شروع ہوکر سالن پر ہی ختم ہوجائے تو پھر معاملہ درست ہے۔

اور اگر اس میں گزشتہ ہفتے کا سالن، حلوہ، گڑ والے چاول اور شوہر کو اس کی ماں کے ہاتھ کا بنا سالن، اس کی بہن کے ہاتھ کی بنی چائے، اس کی بھابھی کے ہاتھ کا بنا ناشتہ اور سسرال میں پہلی روٹی، ولیمے کا کھانا وغیرہ سب شامل کرکے ایک ہلکی سی جھڑپ کو آپ بڑی جنگ میں بدل لیں، ہلکے ہتھیار استعمال کرنے کے بجائے، بھاری توپ خانے، ٹینک، جنگی جہاز اتار دیں تو پھر اس جنگ میں قریب ممکن ہے کہ ایٹمی حملہ بھی ہوجائے اور سب کچھ نیست ونابود ہوجائے۔ یعنی سالن کے نمک مرچ سے شروع ہونے والی بحث کو آپ بڑھاتے بڑھاتے بڑی لڑائی اور پھر ناراض ہوکر بیوی کے میکے چلے جانے اور خدانخواستہ بات علیحدگی سے بھی بعض دفعہ بڑھ جاتی ہے۔ یعنی کورٹ کچہری، ہاتھا پائی اور قتل وغارت۔

عموماً ایسی خبریں نظر سے گزرتی ہیں کہ چھوٹی سی لڑائی سے بڑا جھگڑا ہوجاتا ہے کہ بات طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ گزشتہ دنوں ملتان میں افسوسناک واقعہ ہوا تھا، جس میں شوہر سعودیہ سے واپس آیا تو بیوی ناراض ہوکر میکے میں پائی گئی، صلح کی کوشش کی تو کامیابی نہ ہوسکی پھر شوہر کو جب اور کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو نہ صرف بیوی بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا بلکہ سسرال کے پورے گھر کو نذر آتش کردیا۔ اس معاملے میں کسی صورت بھی شوہر کو درست نہیں کہا جاسکتا، مگر یہ بھی تو نہیں کہا جاسکتا کہ لڑائی یک طرفہ تھی۔

لہٰذا صاحبو! بہتری اسی میں ہے کہ میاں بیوی اپنی لڑائیاں جس موضوع سے شروع کریں، اس پر دلائل سے بات کریں اور معاملہ جتنا جلدی ہوسکے رفع دفع کردیں۔ شوہر سے بات شروع کرکے اس کی ماں بہن اور پورے سسرال کا پوسٹمارٹم کرنے سے گھر میدان جنگ تو بن سکتا ہے، امن کا گہوارہ نہیں۔ اسی طرح شوہر نامدار بھی اپنی آمرانہ سوچ کو بدل کر پُرامن رہیں اور جان لیں کہ بحث نہ بڑھانے میں ہی بھلا ہے، اسی میں خیر ہے۔

سیانے ایسے ہی نہیں کہہ گئے کہ ''ایک چپ، سو سکھ''۔ مگر کیا کریں کہ پھر بعض کہتے ہیں ''بول کہ لب آزاد ہیں تیرے''۔ دونوں کو برابر کرانے کےلیے درمیانہ حل یہ ہے کہ ''پہلے تول، پھر بول'' کیوں کہ قابلیت اور اس کے ہم پلہ اہلیتیں سب کچھ زبان کے نیچے چھپا ہے۔ انسان بولے گا تو پتہ چلے گا کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ موضوع اور ٹریک کو نہ چھوڑیں اور مدلل بحث کو مطلوبہ نکتے پر ہی ختم کردیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مقبول خبریں