ازدواجی زندگی کےلیے احتیاطی تدابیر

مناظر علی  جمعرات 25 جولائی 2019
گھر اداکار کا ہو یا پھر عام انسان کا، ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ (فوٹو: فائل)

گھر اداکار کا ہو یا پھر عام انسان کا، ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ (فوٹو: فائل)

یہ الگ بات ہے کہ جب میاں بیوی کے رشتے کے درمیان نفرت انتہا کو پہنچ جائے تو پھر ہلکاپھلکا جھگڑا بھی ایک گھریلو جنگ کی شکل اختیار کرجاتا ہے، جس کا نتیجہ ہمیشہ کی علیحدگی کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہ نتیجہ مرد کو کم اور عورت کو زیادہ متاثر کرتا ہے۔ معاشرے میں سارے سوال عورت پر ہی اٹھتے ہیں اور اس کی ذات مرد کی نسبت زیادہ اذیتوں سے دوچار ہوتی ہے۔ بعض دفعہ عورت کی عمر یا اس کی کچھ ایسی مجبوریاں اس کی پاؤں کی اتنی مضبوط زنجیر بن جاتی ہیں کہ وہ نئے سرے سے زندگی کا سفر بھی شروع نہیں کرسکتی۔

معمولی سی بات سے شروع ہونے والی لڑائی جب خوفناک شکل اختیار کرتی ہے تو پھر نتیجہ دونوں کے سامنے ہوتا ہے، مگر پھر بھی بعض اوقات نہ وہ خود صلح کی طرف بڑھتے ہیں، نہ قریبی رشتے دار اس میں کردار ادا کرتے ہیں۔ یوں کہہ لیں کہ میاں بیوی کی گھریلو لڑائی دنیا پر ظاہر ہوتے ہی مرد و زن ایک تماشے کی شکل اختیار کرجاتے ہیں، جسے ختم کرنے والے کم اور تماشا دیکھنے والے زیادہ ہوتے ہیں۔ محسن عباس اور فاطمہ سہیل کے درمیان بھی تنازعہ آج کل ہر طرف زیربحث ہے اور میڈیا کی بھی گرماگرم خبر ہے۔ مگر اسے ایک خبر سے ہٹ کر بھی دیکھنے کی ضرورت ہے اور اس جھگڑے کی گتھیاں سلجھا کر دونوں کو ایک ساتھ بٹھانے میں کردار ادا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ مگر ایسا کچھ نظر نہیں آرہا۔

فاطمہ کے تمام الزامات کو محسن نے قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر رد کردیا ہے کہ وہ اس رشتے کو نبھانے کی پوری کوشش کرتا رہا، مگر زیادتی فاطمہ کی طرف سے کی گئی۔ جبکہ فاطمہ نے خود کو سچا اور محسن کو ظالم اور ذہنی مریض ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ میرا سوال ان دونوں کے رشتے داروں اور انتہائی قریبی دوستوں سے ہے کہ کیا میڈیا پر عزتیں اچھالنا ہی اس مسئلے کا حل ہے؟

وہ لوگ جو اس میں کردار ادا کرسکتے ہیں، کیا ان کی ذمے داری نہیں کہ وہ گھر میں بیٹھ کر اس مسئلے کو آرام سے حل کرلیں۔ کیا آج کے اس ڈھنڈورے سے ان کے بچے کے مستقبل پر اثر نہیں پڑے گا؟ کل کو وہ بڑا ہوکر جب ان خبروں اور ویڈیوز کو دیکھے گا، جس میں اس کے والدین دنیا میں تماشا بن کر رہ گئے۔ تو کیا سوچے گا کہ میرے بچپن کو والدین کی شفقت سے محروم کرنے کا ذمے دار کون ہے؟ ان گنت سوالات ہیں جو اس معصوم کے ذہن میں ابھریں گے، مگر شاید تب اسے کوئی جواب دینے والا نہ ملے۔

پیار ایک خوبصورت احساس ہے اور یہ ایک ایسی طاقت ہے جس سے انسان مشکل کو بھی ہنسی خوشی آسانی میں بدل سکتا ہے۔ مگر یہی پیار قربانی کا بھی تقاضا کرتا ہے۔ صبروتحمل، برداشت اور ایک دوسرے کے احترام کا بھی تقاضا کرتا ہے۔ یہ پیار جہاں محسن سے غصے کو پی جانے کا تقاضا کررہا ہے، وہیں فاطمہ سے بھی زخم بھلانے کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ پیار بچے کے مستقبل کی خاطر سمجھوتہ کرکے پھر سے شروعات کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ غلط فہمیاں یقیناً تعلقات میں دراڑیں ڈالنے کی بڑی وجہ ہیں۔ مگر ان غلط فہمیوں کو پیدا ہونے سے قبل ہی اپنی فہم وفراست کا استعمال کرکے سرے سے ختم کرنا بھی انسان کے بس میں ہی ہے۔

محسن عباس نے قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس کا موقف درست ہے۔ ساری برداشت اس نے کی ہے، فاطمہ نے اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی گھر بسانے کی کوشش کی ہے۔ بہت سی ایسی باتیں محسن نے کیں جنہیں کوئی بھی سن کر فاطمہ کو ہی قصووار ٹھہرا سکتا ہے۔ مگر کچھ باتیں فاطمہ کی کہانی بھی بیان کرتی ہیں۔ اب اس کہانی کی سچائی کیا ہے، یہ میں اور آپ تو سو فیصد نہیں جانتے، مگر میاں بیوی تو اس بات کو جانتے ہیں کہ کہاں پر کون غلط ہے اور کون صحیح ہے۔ یقیناً دونوں طرف کے خاندان حقائق سے بخوبی آگاہ ہیں۔

دونوں کے الزامات کی بوچھاڑ تو تب تک ہوتی رہے گی، جب تک اس کہانی کا اختتام نہیں ہوجاتا۔ ایسا کیا، کیا جائے کہ یہ گھر اجڑنے سے بچ جائے اور کون سی احتیاطی تدابیر اختیار کرکے دوبارہ ایسے جھگڑوں سے بچا جاسکتا ہے؟

میاں بیوی خواہ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتے ہوں، سب سے پہلا کام ایک دوسرے پر اعتماد کریں۔ اس اعتماد کا معیار یہ ہونا چاہیے کہ جیسے انسان خود پر اعتبار کرتا ہے۔

غلط فہمی انسانی ذہنی میں اکثر پیدا ہوجاتی ہے، جس پر کنٹرول تو نہیں کیا جاسکتا مگر اسے دور کرنا ممکن ہے۔ تیسرے شخص سے پوچھنے کے بجائے خود ہی ایک دوسرے سے غلط فہمی پر بات چیت کرکے اسے ختم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ تبھی ہوگا، جب میاں بیوی کے درمیان اعتماد کا پختہ رشتہ ہوگا۔

اپنے دوست اور دشمن کی پہچان کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ خاندان، دوست، محلے دار اور کوئی عام انسان بھی ہوسکتے ہیں۔ دشمن کبھی آپ کو خوشگوار زندگی گزارتے دیکھ کر خوش نہیں رہ سکتا۔ وہ سازش کرے گا اور اس سے کبھی خیر کی توقع نہیں کرنی چاہیے، نہ ہی دشمن کو کمزور سمجھا جائے۔

میاں بیوی دونوں کو ہی اپنے اندر ایک سوچ پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ سسرال کو بھی سگے رشتے داروں کی طرح دل میں جگہ دیں، تاکہ وہ آپ کے اخلاق سے متاثر ہوکر آپ کی دل سے قدر کریں اور آپ کے لائف پارٹنر کے دل میں کسی بھی وقت کوئی منفی بات ڈالنے کا نہ سوچ سکیں۔

میاں بیوی شادی کے بعد دو الگ الگ انسان نہیں، بلکہ یک جان ہونے چاہئیں، تاکہ درمیان میں کوئی ایسی خالی جگہ نہ ہو جسے کوئی تیسرا پُر کرنے کی کوشش کرے۔ ایک دوسرے کا احترام، جائز خواہشات کی تکمیل، ضروریات زندگی، اخراجات اور حتی الامکان ایک دوسرے کو وقت دینے کی ضرورت ہے۔

ہلکی پھلکی غلط فہمی پر بحث کی صورت میں صبروتحمل اور برداشت کا دامن تھام کر رکھیں۔ ایک لڑ رہا ہے تو دوسرا خاموشی اختیار کرے، کیوں کہ غصے کے وقت جواب دینے سے لڑائی مزید بڑھ جاتی ہے۔ البتہ دماغ ٹھںڈا ہونے کے بعد پیار سے اپنا موقف ضرور بتائیں، تاکہ دوسرا یہ نہ سمجھے کہ وہی درست تھا اور آپ غلط۔

مرد کا دیگر خواتین کے ساتھ دوستیاں بنانا، دوستی کے نام پر حد سے تجاوز کرنا اور اس سے ملتے جلتے اعمال، چاہے عورت برداشت کرلے، مگر خواتین اپنے شوہر کی ایسی حرکتیں پسند کرتی ہیں اور نہ ہی برداشت کرتی ہیں۔ لہٰذا ایسی غلطیاں جو واقعی غلطیاں ہیں، ان سے بچنا ہی گھریلو سکون کا ضامن ہوسکتا ہے۔ یہ چیزیں مرد بھی اپنی خواتین سے توقع کرتے ہیں، بلکہ عورت کی نسبت زیادہ امید کرتے ہیں، کیوں کہ غیرت کے معاملے میں مرد خود چاہے جو مرضی کرتا پھرے (حالانکہ اسے کرنا نہیں چاہیے) مگر اپنی عورت چاہے وہ کسی بھی رشتے سے منسلک ہو، برداشت نہیں کرتا اور کئی مقامات پر معاملہ قتل تک پہنچ جاتا ہے۔ اس لیے اپنے خاندان، علاقے اور روایات کو دیکھتے ہوئے خود کو ایسی باتوں سے دور رکھنے میں ہی عافیت ہے۔ اگر اعتماد ہو تو پھر ایسے معاملات میں جھگڑے کی شرح انتہائی کم رہ جاتی ہے۔

ازدواجی زندگی مرد و خواتین، دونوں کے گرد ہی ایک دائرے کی طرح ہے۔ مختلف ممالک اور طبقات میں یہ دائرہ مختلف ہوسکتا ہے۔ دونوں میں سے جو بھی اس دائرے سے باہر نکلے گا، دنیا جاتی ہے کہ اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ لہٰذا ہر طبقے کے مرد و خواتین کو اپنے اس دائرے کو بھی پہچاننے کی ضرورت ہے، تاکہ ان سے باہر نکلنے سے بچ سکیں۔

لو میرج کرنے والوں کو بطورخاص محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ مرد و خواتین دونوں ہی اس معاملے میں انتہائی حساس ہوتے ہیں۔ خاص طور پر عاشق مزاج مرد کو صنف نازک میں دلچسپی زیادہ ہوتی ہے، لہٰذا اس کی آنکھیں ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتی ہیں۔ پیار کرنے والے اپنے تعلق میں دراڑ پیدا نہ ہونے دیں، ورنہ کوئی دوسری عورت یا مرد اس دراڑ میں گھس جائے گا اور کسی بھی وقت حملہ آور ہوسکتا ہے، جس کے بعد بڑے نقصان کا اندیشہ ہے۔

اداکارہ میرا، صنم بلوچ، وینا ملک، فضا علی، متھیرا اور اب محسن عباس حیدر اور فاطمہ سہیل کے تنازعات ان کی زندگیوں میں زہر بن کر آئے اور خوشگوار ازدواجی زندگی اور پیار کی موت بن گئے۔ غلط فہمیوں نے ان جیسے کتنے ہی میاں بیوی کو ایک دوسرے کا دشمن بنادیا۔ کہیں دونوں کی راہیں جدا ہوئیں، تو کہیں بچے بھی والدین کی شفقت سے محروم ہوگئے۔

گھر اداکار کا ہو یا پھر عام انسان کا، اس کے آنگن میں خوشیاں ہی اچھی لگتی ہیں، غموں کے سائے میں زندگی کی کٹھن راہوں پر سفر پاؤں کو لہولہان کردیتا ہے۔ میاں بیوی کو خوشگوار زندگی گزارنا ہے تو پھر ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ اگر آپ اسے پھولوں کی سیج سمجھ رہے ہیں تو یہ کانٹوں سے بھی بھری پڑی ہے۔ اگر حقائق کو سمجھداری کی عینک سے نہیں دیکھیں گے تو انجام کیا ہوتا ہے؟ ایسے قصے کہانیوں سے ماضی کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مناظر علی

مناظر علی

بلاگر مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز کے نیوزروم سے وابستہ رہ چکے ہیں، آج کل لاہور کے ایک ٹی وی چینل پر کام کررہے ہیں۔ عوامی مسائل اجاگر کرنے کےلیے مختلف ویب سائٹس پر بلاگ لکھتے ہیں۔ ان سے فیس بک آئی ڈی munazer.ali پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔