جنوبی ایشیائی ممالک میں غربت…ذمے دار کون؟

جبار قریشی  اتوار 8 ستمبر 2019
 jabbar01@gmail.com

[email protected]

موجودہ دور بین الاقوامی تعاون کا دور ہے۔ کوئی ریاست خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی، طاقتور ہو یا کمزور، ترقی یافتہ ہو یا ترقی پذیر دنیا سے علیحدہ یا تنہا نہیں رہ سکتی۔ اسے دنیا میں اپنا مقام بنانے کے لیے بین الاقوامی برادری کا حصہ بننا پڑتا ہے اس کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ بین الاقوامی تنظیم میں شمولیت اختیار کرے۔

بین الاقوامی تنظیمیں دو طرح کی ہوتی ہیں پہلی بین الاقوامی تنظیم جیسے اقوام متحدہ دوسری وہ تنظیمیں ہیں جو کسی خطے کی چند ریاستوں پر مشتمل ہوتی ہیں علاقائی بین الاقوامی تنظیمیں کہلاتی ہیں جیسے یورپی یونین ماضی میں ہم دیکھتے ہیں کہ کسی بھی ریاست میں ملکی دفاع کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی تھی یہی وجہ ہے کہ جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم جو نوآبادیات کے توسیع پسندانہ مہم کا نتیجے میں واقع ہوئی تھی اس کی تباہ کاریوں اور ہولناکیوں نے دنیا میں عالمی اجتماعی تحفظ کے نظریے کو فروغ دیا اس نظریے کے تحت یہ طے پایا کہ کسی ملک کی طرف سے دوسرے ملک پر لشکر کشی کی صورت میں دنیا میں بسنے والے دیگر ممالک کو خاموش تماشائی، غیر جانبداری اور لاتعلقی کا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے بلکہ تمام دنیا پر لازمی ہے کہ وہ اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کرے اور امن کی خلاف ورزی کرنے والے ملک کو قانونی طور پر ذمے دار قرار دے کر اس کے خلاف کارروائی کرے۔

اجتماعی تحفظ کا مقصد ایسی مساوات قائم کرنا تھا جس کے نتیجے میں کسی ریاست کو یہ ہمت نہیں ہوسکتی تھی کہ وہ دوسری ریاست کے خلاف جنگ چھیڑنے کا خطرہ مول لے۔ عالمی اجتماعی تحفظ کے نظام کا بنیادی اصول یہ ہے کہ کسی ایک ملک پر حملہ تمام ملکوں پر حملہ تصور کیا جائے گا اس نظریے کے تحت اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا۔

بدقسمتی سے یہ نظریہ زیادہ عرصے قائم نہ رہ سکا۔ بلکہ دو عالمی طاقتوں امریکا اور روس کے درمیان سرد جنگ Cold War کا آغاز ہوا۔ یہاں سرد جنگ سے مراد طاقتور ممالک کا ایسی پالیسیوں کو اپنانے کا نام ہے جس کا مقصد پروپیگنڈے کے ذریعے کمزور ریاستوں پر غلبہ حاصل کرکے اپنی برتری کا احساس دلانا اپنے مخالف قوت کی بدنامی کی مہم چلانا ۔ خیال رہے اس جنگ میں عسکری قوت استعمال نہیں کی جاتی۔

اس جنگ کے نتیجے میں دنیا میں بہت تناؤ تھا۔ چھوٹے ممالک کے لیے اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ تھا کہ وہ کسی ایک بلاک میں شامل ہوجائیں۔ اس طرح دنیا دو بلاکوں میں تقسیم ہوگئی۔ اشتراکیت کے خلاف مغربی بلاک کا قائد امریکا بنا اور سرمایہ داری نظام کے خلاف اشتراکی بلاک کا سربراہ روس بنا۔ امریکا کی سرپرستی میں نیٹو، سیٹو اور سینٹو جیسی بین الاقوامی علاقائی تنظیمیں وجود میں آئیں۔

دوسری طرف سوویت یونین کی سربراہی میں مشرقی یورپی ممالک کے تحفظ کے لیے وارسا پیکٹ اور دیگر اشتراکی علاقائی بین الاقوامی تنظیموں کا قیام عمل میں آیا۔ اشتراکی تحریک ایک نظریاتی تحریک تھی۔ نظریاتی تحریک کا مقابلہ نظریاتی تحریک سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ اسے طاقت کے ذریعے نہیں کچلا جاسکتا لہٰذا سرمایہ داری نظام کے حامی ممالک نے اشتراکی نظام کے خلاف مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کیا اور روس کو مذہب دشمن قرار دے کر اسے سیاسی شکست سے دوچار کردیا۔ اس طرح روس کا خاتمہ ہوگیا اور کئی آزاد ریاستیں وجود میں آگئیں۔

یوں امریکا واحد سپر اور عالمی طاقت کے طور پر سامنے آیا۔ یوں طاقت کا جو توازن قائم تھا اب ختم ہوگیا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سیاسی اور نظریاتی دفاعی نوعیت کی بین الاقوامی علاقائی نوعیت کی تنظیمیں غیر موثر ہوگئیں اس کی جگہ مختلف نظریات کی حامل ممالک میں مختلف اقتصادی تنظیموں کو فروغ حاصل ہوا۔ ان تنظیموں میں یورپی یونینEU، شمالی امریکا آزاد تجارت معاہدہ NAFTA، جنوب مشرقی ایشیائی قوموں کی ایسوسی ایشن ASEAN، اقتصادی تعاون کی تنظیم ECO اور تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیمیں OPEC وغیرہ شامل ہیں۔

اس پورے ماحول کا جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ چند برسوں سے عالمی تجارت علاقائی تجارتی بلاکوں میں سمٹ رہی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی بالخصوص جدید ذرائع ابلاغ اور جدید نقل و حمل کے ذرائع کی بدولت یہ بلاک اقتصادی وحدت کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں ان تنظیموں کے قیام کے نتیجے میں ان بلاکوں کی تجارت کی شرح میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے اس حوالے سے EU اور NAFTA کا کردار وسیع ہو رہا ہے۔ ASEANاور OPEC بھی علاقائی تعاون میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

ایسے حالات میں جنوبی ایشیا کے ممالک بھارت، پاکستان، بنگال، نیپال، مالدیپ، سری لنکا، بھوٹان اور افغانستان وغیرہ کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اس پر غور کریں اور ایسے ہی کردار کو اپنائیں۔بدقسمتی سے اس کے بالکل برعکس رویہ دیکھنے میں آتا ہے۔ یورپ کے نوجوان اور تعلیم یافتہ افراد علاقائی اتحاد کے حق میں نظر آتے ہیں اس کے برعکس اس خطے یعنی جنوبی ایشیا کے خطے کے لسانی، نسلی اور مذہبی گروہ علاقائی اتحاد کے خلاف ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرز عمل سے ان کا جداگانہ تشخص ختم ہوجائے گا جب کہ ایسا نہیں ہے یورپی یونین کے ممالک ایک اقتصادی وحدت رکھنے کے باوجود اپنا جداگانہ تشخص برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

ایک خیال یہ بھی ہے کہ جس طرح بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے اس طرح اس خطے میں بھارت ایک بڑا اور طاقتور ملک ہے خطے کو ایک اقتصادی وحدت قرار دینے کی صورت میں چھوٹی ریاستوں پر اس کی بالادستی قائم ہوجائے گی۔ یہ تاثر بھی غلط ہے۔ یورپی یونین میں جرمنی، فرانس اور برطانیہ جیسے بڑے ممالک کے ساتھ مالٹا جیسا چھوٹا ملک بھی شامل ہے جو یورپی ممالک کی یونین سے یکساں طور پر مستفید ہو رہا ہے۔

میری ذاتی رائے میں جنوبی ایشیا کے خطے کے مسائل اور وسائل یکساں ہیں اس خطے کو اقتصادی وحدت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے اور یورپ کی طرح اس خطے کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔ لیکن بھارت کا خطے میں منفی رویہ اس کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر کے مسئلے پر تین جنگیں ہوچکی ہیں اور اب بھی یہ مسئلہ حل طلب ہے۔ بھارت کا کشمیر کے حوالے سے سخت گیر رویہ سرحدی کشیدگی میں اضافہ کر رہا ہے خطے کے دیگر ممالک سے بھارت کے تعلقات کشیدہ رہتے ہیں۔

اس خطے کے وسائل اس خطے کے عوام کی خوشحالی پر صرف ہونے چاہئیں جو بھارت کے منفی رویے کے سبب جنگی ساز و سمان پر صرف ہو رہے ہیں۔ جس سے اس خطے کے عوام کی غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر بھارت خطے کا بڑا اور طاقتور ملک ہونے کے ناطے اپنا مثبت کردار ادا کرے بالخصوص کشمیر کے حوالے سے یقین کیجیے کہ اس خطے کو یورپی یونین کی طرح ایک اقتصادی وحدت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

اس کے نتیجے میں نہ صرف جنوبی ایشیائی ممالک کے مابین اقتصادی سطح پر تعاون کو فروغ حاصل ہوگا بلکہ یہ عمل سیاسی یکجہتی کا پیش خیمہ بھی بن سکتا ہے جو قیام امن میں مفید ثابت ہوسکتا ہے اس کے نتیجے میں اس خطے میں بڑی طاقتوں کے غلبے سے نجات بھی مل سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔