سوشل میڈیا پراسٹیڈیم فل حقیقت میں خالی

سلیم خالق  اتوار 15 ستمبر 2019
 27ہزار افراد کی گنجائش والے اسٹیڈیم میں 100سے کچھ زائد لوگ ہی آئے ہوئے ہونگے۔

27ہزار افراد کی گنجائش والے اسٹیڈیم میں 100سے کچھ زائد لوگ ہی آئے ہوئے ہونگے۔

نئے پاکستان میں نئے اندازسے ڈومیسٹک کرکٹ ہو رہی ہے، اس بار تو سب کچھ تبدیل شدہ نظر آئے گا،ہم ایسا ہی سوچ رہے تھے، پی سی بی میڈیا ڈپارٹمنٹ نے بھی ایسی ہائپ بنائی جیسے پاکستان میں ورلڈکپ ہو رہا ہے۔

اتنی پریس ریلیز اور ویڈیوز وغیرہ جاری کیں جس سے روزانہ اخبار کا ایک صفحہ بھر جاتا، ٹی وی پر پانچ منٹ کا خبرنامہ بھی صرف اسی کا ہوتا، یہ سب کچھ ایک حد میں رہتا تو ٹھیک تھا مگر ’’اوورڈوز‘‘ نے تخلیقی پہلو ختم کردیا، میں نے صبح ٹویٹر پرپی سی بی کی  ایک ویڈیو دیکھی جس میں قذافی اسٹیڈیم کا دروازہ کھلتے ہی لوگ جوق در جوق اندر آتے ہیں۔

یہ دیکھ کر مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ شائقین ڈومیسٹک کرکٹ میں بھی خوب دلچسپی لے رہے ہیں مگر پھر ایکسپریس نیوز کے رپورٹر محمد یوسف انجم نے حقیقت بتائی کہ 27ہزار افراد کی گنجائش والے اسٹیڈیم میں 100سے کچھ زائد لوگ ہی آئے ہوئے ہونگے، پھر دوپہر کو میں یو بی ایل اسپورٹس کمپلیکس گیا اور وہاں صحافی آصف خان کے ساتھ شائقین کو گنا تو 60،70 افراد کو ہی موجود پایا۔

ادھر پی سی بی کے میڈیا ڈپارٹمنٹ نے پریس اور ویڈیو ریلیز سے ایسا تاثر دیا جیسے شائقین کا تانتا بن گیا،  یہ طریقہ کار درست نہیں سچ بنانا اچھی بات ہے، جھوٹے دعوؤں سے کیا حاصل ہوگا، ہم جانتے ہیں کہ پہلے دن ہی اسٹیڈیم بھر نہیں سکتا لہٰذا انتظار کرتے، آپ پورے کراچی شہر میں گھوم لیں،لوگوں سے پوچھیں کہ قائد اعظم ٹرافی کا میچ ہو رہا ہے دیکھنے جاؤ گے تو 99 فیصد کا جواب یہ ہوگا کہ ہمیں پتا ہی نہیں کہ کون سا ٹورنامنٹ ہو رہا ہے۔

یو بی ایل گراؤنڈ پر قومی کپتان سرفراز احمد سمیت کئی اسٹارز موجود تھے لیکن پھر بھی لوگ نہیں آئے یہ مایوس کن ہے،پی سی بی نے دکھاؤے کیلیے بہت سے اقدامات کیے لیکن حقیقت برعکس ہے، پورے شہر میں مجھے کوئی ایک پوسٹر یا بینر نظر نہیں آیا جس میں قائد اعظم ٹرافی کے حوالے سے بتایا گیا ہو، شاید ہی کسی اسکول یا کالج سے رابطہ کر کے اسٹوڈنٹس کو میچ دیکھنے کی دعوت دی گئی ہو۔

آپ پہلے لوگوں کو ڈومیسٹک کرکٹ کی جانب راغب تو کریں، انعامات دیں، کھلاڑیوں سے ملاقات کا کہیں پھر شاید ایک، دو ہزار افراد آ جائیں، مقابلے سے بھرپور میچز ہوںگے تو لوگوں کی تعداد بڑھے گی، ابھی تو یہ حال ہے کہ ڈیڈ پچ پر بھی خرم منظور اور عابد علی اتنا سلو کھیل رہے تھے کہ لوگ سو جاتے۔

شاید اسی وجہ سے وہاں موجود ایک لڑکے نے مجھ سے کہا کہ ’’یہاں ویرات کوہلی کھیل رہا ہوتا تو ایک دن میں ہی چار سو رنز بنا دیتا‘‘، جھوٹے دعوؤں کے بجائے عملی اقدامات نہ کیے تو ڈومیسٹک کرکٹ کا وہی حال رہے گا جو پہلے تھا،  البتہ بورڈ کے خزانے سے ڈیڑھ ارب روپے سالانہ ضرور کم ہوتے رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔