ماہرِ اقبالیات پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر سے ایک ملاقات

تنویر قیصر شاہد  پير 21 اکتوبر 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

کئی سال پہلے بھی اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں راقم کو اُن کی خدمت میں حاضر ہونے اور علمی گفتگو سے فیضاب ہونے کا موقع ملا تھا۔ مگر اُس ملاقات کو وہ بھول چکے تھے۔ اپنے علمی کاموں اور ادبی تحقیق و تدقیق میں وہ اس قدر محو اور مشغول رہتے ہیں کہ مجھ ایسے ہیچ مداں سے ہونے والی ملاقات کو یاد رکھنا اُن کے لیے ممکن ہی نہیں۔

سیکڑوں طالبعلم، خصوصاً کلامِ اقبال و شخصیتِ اقبال سے شناسائی حاصل کرنے کے لیے، اُن کی خدمت میں حاضری دیا کرتے تھے۔ یہ حاضریاں اب بھی جاری ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اسم بامسمیٰ ہیں۔ سوال کرنے والے کی بات صبر سے سُنتے ہیں۔ ریٹائر منٹ کے بعد بھی اقبالیات پر اُن کے ذہن کشا لیکچرز جاری ہیں ۔ جس روز میری اُن سے ملاقات ہُوئی ہے، اُس دوپہر بھی وفاقی دارالحکومت میں بروئے کار ایک بڑے مالیاتی ادارے میں، پیغامِ اقبال ؒ کی اساس پر، اُن کا لیکچر تھا۔ ’’محنت اور سرمایہ‘‘ کے بارے میں حضرت علامہ اقبالؒکے خیالات کیا ہیں، مذکورہ مالیاتی ادارے کے اعلیٰ وابستگان کے سامنے پروفیسر ڈاکٹر ایوب  صابر صاحب نے اس موضوع پر ،فکرِ اقبال کی روشنی میں، اپنی معلومات کے دریا بہا دیے تھے۔

اسلام آباد کے آئی ایٹ سیکٹر میں رہائش پذیر پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر صاحب کے درِ دولت پر حاضر ہونا میرے لیے  اعزاز سے کم نہیں ہے ۔ بنیادی طور پر ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر صابر صاحب نے اسلام آباد کے اس پُر سکون گوشے میں گوشہ نشینی اختیار کر رکھی ہے۔

فکرِ اقبال کی تشریح و تبلیغ اُن کی علمی و تحقیقی زندگی کا محور و مطمحِ نظر ہے۔یکے از عظیم بانیانِ پاکستان اور شاعرِ مشرق حضرت علامہ محمد اقبالؒ کے فکر و فلسفہ اور شخصیت پر حملہ کرنے والوں  کو دلیل، تحقیق اور تاریخ کی روشنی میں دندان شکن جواب دینے میں وہ کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں جانے دیتے۔ اِسی اساس اور لاثانی خدمات پر انھیں بجا طور پر ’’محافظِ اقبال‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا ہے۔ سرگودھا سے تعلق رکھنے والی ایک علمی و ادبی شخصیت، ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم، نے ڈاکٹر ایوب صابر بارے اِسی موضوع پر دو صد سے زائد صفحات پر مشتمل ایک خوبصورت کتاب بھی لکھ دی ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر صاحب کو اگر ’’محافظِ اقبال‘‘ کے لقب و خطاب سے یاد کیا جاتا ہے تو یہ قطعی بے جا اور مبالغہ بھی نہیں ہے۔ کسی نے اگر اس کا علمی جائزہ لینا ہے تو اُسے چاہیے کہ وہ صبر اور محنت سے ڈاکٹر صابر صاحب کی بلند پایہ تصنیف ’’اقبالؒ کی شخصیت اور فکر و فن پر اعتراضات‘‘ کا مطالعہ کرے۔ یہ عظیم المرتبت کتاب تین جلدوں میں 2ہزار سے زائد صفحات کو محیط ہے۔

پچھلے کئی عشروں میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ کے فکر و فن اور شخصیت پر جتنے بھی اور جس پہلو سے بھی اعتراضات اُٹھائے گئے اور جس قدر تعصبات و علمی بددیانتیوں کے مظاہرے کیے گئے، ڈاکٹر ایوب صابر نے ان سب کے جواب دے دیے ہیں۔

اقبال اکادمی پاکستان ( چھٹی منزل، ایوانِ اقبال، ایجرٹن روڈ لاہور) کی شایع کردہ اِس عظیم الشان کتاب پر تفصیلی ریویو تو بعد میں کسی روز کروں گا لیکن ابھی تو یہاں صرف یہ بتایا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر ایوب صابر نے یہ معرکہ خیز کتاب لکھنے میں اپنی زندگی کے 20 قیمتی برس صَرف کیے ہیں۔ اس رزم گاہ میں اُترنے سے قبل انھوں نے پروفیسری سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔ گویا یہ کتاب محض ایک کتاب نہیں ہے ، بلکہ محسنِ پاکستان حضرت علامہ اقبال ؒ سے محبت و عشق کی ایک لافانی داستان ہے۔

حیاتِ اقبالؒ کا شائد ہی کوئی ایسا گوشہ چھوڑا گیا ہے جس پر ڈاکٹر ایوب صابر کا قلم حرکت میں نہیں آیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب کی تین جلدوں کو تین اہم ترین موضوعات میں تقسیم کیا ہے :(۱) مخالفتِ اقبال کے محرکات اور فکرِ اقبال کی تشکیل پر اعتراضات (۲) اقبال کی شخصیت اور تصورِ پاکستان پر اعتراضات (۳) اقبال کے فہمِ اسلام اور فنِشاعری پر اعتراضات۔ ان اعتراضات کے جوابات دیتے ہُوئے ڈاکٹر ایوب صابر کہیں بھی جذبات کی رَو میں بہہ کر اور عشقِ اقبالؒ سے مغلوب ہو کر مخالفین پر لَٹھ اُٹھاتے اور دشنام دیتے نظر نہیں آتے۔

مجھے کوئی دو گھنٹے اُن کی خدمت میں بیٹھنے کا موقع ملا۔ صرف دو گھنٹے !!اس قلیل ترین وقت میں بھلا آدمی کیا سیکھ سکتا ہے؟ لیکن یہ اعزاز و اکرام کیا کم ہے کہ ڈاکٹر ایوب صابر نے مجھ ایسے طالب علم کو وقت عنایت فرمایا۔ اُن کے پاس بیٹھے ہُوئے راقم کو سید نذیر نیازی، ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم، ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان اور پروفیسر مرزا محمد منور کی بہت یاد آئی۔

ان علما کے دم قدم سے مجالسِ فکرِ اقبال شاد و آباد تھیں۔ ان ماہرینِ اقبالیات نے فکرِ اقبال و پیغامِ اقبال کی ترویج و تبلیغ میں بے مثال خدمات انجام دیں۔ ان سب نے روحِ افکارِ اقبال کو سمجھا اور پھر اس آگے بڑھانے کی مقدور بھر سعی کی۔ یوں موجودہ عالمِ قحط میں ڈاکٹر ایوب صابر صاحب کو فکرِ اقبال کا آخری سنجیدہ و شائستہ مبلّغ کہا جانا چاہیے۔

فکرِ اقبال کی تفہیم کے لیے اُن کا ایک ایک جملہ بہت سے اشکالات دُور کر ڈالتا ہے۔ مثال کے طور پر اس مختصر سی ملاقات کے دوران انھوں نے جب حضرت علامہ اقبالؒ کی دینِ اسلام سے وابستگی کا ذکر کرتے ہُوئے یہ کہا کہ ’’اقبال ہر قسم کے ازم کو مسترد کرتے ہیں‘‘ اور یہ کہ ’’مولانا سید مودودی ؒ بھی اقبال ؒ کے دیے گئے نظام ِ سرمایہ داری و جاگیر داری کو صحیح طرح نہ سمجھ پائے‘‘ تو گویا ذہن پر چھائے کئی جالے ایک ہی جھماکے سے صاف ہو گئے۔

راقم نے جب ڈاکٹر ایوب صابر صاحب سے یہ عرض کیا کہ مجھے علامہ اقبال و مولانا رومیؒ سے علمی محبت کرنے والی عظیم جرمن اسکالر، ڈاکٹر این میری شمل، سے جرمنی میں ملنے اور لاہور میں ڈاکٹر سید عبداللہ کے قدموں میں بیٹھنے کے اعزازات بھی حاصل ہیں تو بہت خوش ہُوئے۔

انھوں نے محسنِ اُردو ڈاکٹر سید عبداللہ سے ایبٹ آباد میں ہونے والی متعدد ملاقاتوں کا احوال بھی سنایا اور یہ بھی فرمایا کہ جب وہ لندن میں اپنے ایک تحقیقی ادبی کام کے سلسلے میں مقیم تھے، این میری شمل صاحبہ کا ایک لیکچر سُننے کا موقع بھی ملا۔ دو ہزار سے زائد صفحات پر پھیلی ڈاکٹر ایوب صابر کی یہ پُر شکوہ کتاب ’’اقبال کی شخصیت اور فکر وفن پر اعتراضات‘‘ خونِ جگر میں اُنگلیاں ڈبو کر لکھی گئی ہے۔ اگر ایسی کتاب مغربی دُنیا کا کوئی محقق اور اسکالر لکھتا تو اُسے سونے میں تولا جاتا۔ اُن کے پُر سکون اور خاموش ڈرائنگ رُوم میں بیٹھے ہُوئے مجھے ایک سوال مسلسل تنگ کرتا رہا۔

ہچکچاہٹ تھی کہ آیا یہ سوال پوچھا جائے؟ آخر ہمت کر کے براہِ راست سوال داغ ہی ڈالا: ڈاکٹر صاحب، کیا یہ مناسب ہو گا کہ آپ مجھے یہ بتائیں کہ یہ کتاب لکھنے کا آ پ کو کتنا معاوضہ پیش کیا گیا؟ اُن کے سرخ اور بزرگ چہرے پر ایک لہر سی اُبھری اور غائب ہو گئی۔ وہ ہولے سے بولے: رائلٹی؟ پھر فرمایا : ’’ایک لاکھ اور چند ہزار روپے‘‘۔

برسوں کی محنت اور عرق ریزی کا صرف ایک لاکھ روپیہ؟ میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔ وہ پھر مسکرائے اور جو بات  ارشاد فرمائی، وہ اور بھی حوصلہ شکن تھی۔ کہنے لگے: ’’اس رقم کی بھی مَیں نے اقبال اکادمی والوں سے کتابیں خرید لی تھیں تاکہ دوستوں کو تحفے میں دے سکوں۔‘‘ مزید کیا لکھا جائے کہ یہ ہیں پاکستان کے معتبر ترین اقبال شناس پر سرکاری عنایات؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔