مسٹر پرائم منسٹر تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے

اقتدار میں آنے کے بعد خان صاحب نے بھی تقریباً وہ تمام کام کرلیے ہیں جو میکسملین نے کیے تھے


آصف ملک October 24, 2019
خان صاحب! آپ اس وقت اس ملک کے بادشاہ ہیں۔ میکسملین روبسپیئر کی طرح نہ ہوجائیے گا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ لیکن کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ کب، کیسے اور کس طرح۔ ماضی میں ہونے والا واقعہ جب حال میں وقوع پذیر ہوتا ہے تو لوگ ماضی میں اس واقعے کی کھوج میں لگ جاتے ہیں۔ اس واقعے میں کون شخصیات تھیں، کس طرح اور کیسے حالات میں واقعہ پیش آیا اور اس کی وجوہات اور مستقبل پر اثرات کیسے تھے؟

تاریخ میں ایسی کئی شخصیات گزری ہیں جو کچھ کےلیے کامیابی کا استعارہ بنیں تو کچھ کےلیے عبرت کا نشان۔ 18 ویں صدی کے اوائل میں دنیا کی ایک بڑی طاقت کو اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔ بادشاہ اور ملکہ کو اقتدار سے الگ کردیا گیا اورایک خونیں جمہوریت نے جنم لیا۔ آج جس شخصیت سے میں آپ کو متعارف کرواؤں گا اس نے عوام کی بے چینی اور غصے کو اپنے حق میں استعمال کیا اور پھر وہ ہوا جس نے آنے والوں کےلیے ایک پیغام چھوڑا۔

کہانی کا آغاز 6 مئی 1758 بروز ہفتہ فرانس کے ایک چھوٹے سے قصبے Arras (ارراس) سے ہوتا ہے، جہاں وکلاء کے مشہور خاندان میں ایک لڑکے نے آنکھ کھولی۔ وکالت کا پیشہ اپنایا اور قصبے میں یکساں انسانی حقوق، ترقی پسند خیالات کی بدولت جلد ہی مقبول ترین شخصیت بن گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی شہرت قصبوں سے نکل کر شہروں تک دراز ہوگئی۔ اس کا خواب تھا فرانسیسی قوم کی نمائندگی بادشاہوں کے ہاتھ میں ہو، نہ ہی جمہوریت پسند ان کی تقدیر کا فیصلہ کریں۔ یہ خواب ایسے وقت دکھائے جارہے تھے جب عوام کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا، مگر بادشاہ شادی پر کروڑوں فرانکس خرچ کررہے تھے اور پیرس میں کچھ روشن خیال لوگ خوشحال فرانس کا نقشہ کاغذوں پر کھینچ رہے تھے۔

غلاموں جیسی زندگی اور شاہی احکامات کی بجا آوری پر مجبور فرانسیسی عوام کےلیے برابری اور اقتدار میں شراکت جیسے خواب مقبول ہونے لگے۔ اُس نے شہر کا رخ کیا تو عوام اور اشرافیہ کے معیار زندگی میں فرق کو ان الفاظ میں بیان کیا ''بادشاہ وقت کے ایک وقت کے کھانے پر جتنا خرچ آتا ہے وہ ایک ہزار افراد کی خوراک کےلیے کافی ہے''۔
بادشاہ کے سامنے جرأت کا یہ اظہار اُسے قوم کا مسیحا بنا گیا۔ تاریخ اسے میکسملین روبسپیئر کے نام سے جانتی ہے۔

یہ وہ وقت تھا جب بادشاہ لوئس چہاردہم اور ملکہ میری اینٹونیٹ کے سونے جاگنے پر بھی تقریبات ہورہی تھیں، بناؤ سنگھار پر لاکھوں خرچ ہورہے تھے، عوام پر ٹیکسز میں اضافہ ہورہا تھا۔ کسی پر شک گزرتا وہ بریڈ ذخیرہ کررہا ہے تو اسے قتل کردیا جاتا۔ غربت نے غصے کو جنم دیا اور ملک بھر میں مظاہرے شروع ہوگئے۔ اس صورت حال میں وزیر خزانہ نے بادشاہ کو عوامی نمائندوں کی پیشی کا مشورہ دیا تاکہ حالات کو کنڑول کیا جاسکے۔ یہ حالات دیکھ کر میکسملین ورسائی پہنچا اور تھرڈ اسٹیٹ کے ڈپٹی آف اسٹیٹ جنرل بننے کے بعد 17 جون 1789 کو قومی اسمبلی کا ڈپٹی بن گیا۔ اس نے اپنے ہم خیال ڈپٹیز کو ساتھ ملایا اور نعرہ لگایا کہ ''اشرافیہ کو غریبوں کی طرح ٹیکس دینا چاہیے''۔ ہم خیال ممبران کے ساتھ مل کر نئے آئین کےلیے ووٹنگ کروائی گئی اور 9 جولائی 1789 کو قانون ساز اسمبلی نے جنم لینے کے بعد عوام کے حقوق کے بل کو پاس کرنے کا مطالبہ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مطالبہ انقلاب فرانس کی جانب پہلا قدم تھا۔

بادشاہ نے بل پر دستخط کیے، مگر Declaration of rights of men پر دستخط کرنے کے بجائے پیرس پر فوج کشی کردی۔ ایک جانب فرانسیسی فوج تھی تو دوسری طرف انقلاب فرانس کے نیشنل گارڈز۔ اتنے حساس موقع پر بادشاہ نے عوام میں مقبول وزیر خزانہ کو عہدے سے برخاست کردیا۔ جس کو عوام نے اپنے خلاف عمل کے طور پر لیا اور عوامی غم و غصہ 14 جولائی 1789 کو بسٹیل کے قلعے کے سامنے انقلاب فرانس کے جھنڈے کی تشکیل کی صورت میں سامنے آیا۔ قلعے کے محافظوں نے عوام پر فائر کھول دیا اور یوں عوامی نفرت قلعے کے دروازے توڑتی ہوئی اندر داخل ہوگئی۔ بسٹیل کے گورنر کو پہلے سڑکوں پر گھسیٹا گیا، پھر سر کاٹ کر سنگین میں پرو کر سڑکوں پر لہرایا گیا اور یوں خونیں انقلاب کی شروعات ہوگئیں۔ بسٹیل کی جیت نے آزادی اور انقلاب کی خواہش کو بھڑکایا اور بادشاہت کی نشانی قلعہ بسٹیل اپنے ہاتھوں سے زمین بوس کردیا۔

حالات کے دھارے کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے میکسملین نے فوراً اخبارات سے پابندی اٹھائی۔ پابندی کا اٹھنا تھا ملوکیت کے خلاف لاوا پھٹ پڑا۔ فرانسیسی سیاستدان اور صحافی پال جین مراٹ نے بادشاہ کی جانب سے انقلابی جھنڈے کی بے حرمتی کی خبر لگائی۔ خبر عام ہوئی تو کہرام مچ گیا۔ لوگ غصے میں ایک بار پھر سڑکوں پر نکل آئے۔ بادشاہ نے پیرس کے محاصرے کا حکم دے دیا تو دوسری طرف غصے سے لبریز خواتین کا ایک گروہ شاہی محل کی جانب بڑھنے لگا۔ خبر ملکہ تک پہنچی تو کچھ تاریخ دانوں کے مطابق اس نے مشہور زمانہ جملہ کہا ''بریڈ نہیں مل رہی تو لوگ کیک کھا لیں''۔

شاہی محل کے باہر 20 ہزار مظاہرین دیکھ کر بادشاہ نے بل پر دستخط کردیے۔ مگر اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ خواتین نے محل پر دھاوا بول دیا۔ گارڈز کو قتل کرکے ان کے سر سنگینوں پر چڑھا دیے۔ تاریخ دان لکھتے ہیں اگر انہیں ملکہ یا شاہی خاندان کا کوئی شخص ہاتھ لگ جاتا تو وہ اس کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کردیتے۔ شاہی خاندان کو محل سے گھسیٹ کر پیرس منتقل کیا گیا۔ دو سال کی قید کے بعد بادشاہ اور اس کی ملکہ نوکروں کے بھیس میں پیرس سے فرار ہوگئے مگر آسٹریا کے قریب انہیں پکڑ کر دوبارہ پیرس منتقل کردیا گیا۔ لوئس چہاردہم کو ہٹادیا گیا، محافظوں کو قتل کردیا گیا اور یوں انقلاب فرانس نے French Republic کو جنم دیا۔

فرانسیسیوں کےلیے انقلاب فرانس کے بعد ''نیا فرانس'' جنم لے چکا تھا۔ اب کہانی کو پاکستان لے کر آتے ہیں۔

1996 میں عمران خان نے انصاف کی تحریک شروع کی۔ عمران خان کا نعرہ تھا امیر اور غریب کے درمیان فرق ختم، سب کا احتساب اور سب کےلیے انصاف۔ پیپلزپارٹی کی پانچ سالہ ''کرپشن کارکردگی'' نے اسے ایک صوبے تک محدود کردیا۔ مسلم لیگ نواز کے قائدین کے قصے سن سن کر وہ بھی عوام میں غیر مقبول ہوگئے۔ ایسی صورت میں تحریک انصاف بطور متبادل جماعت کے طور پر سامنے آئی اور عمران خان ایک مسیحا کے روپ میں نمودار ہوئے۔ شاہ محمود قریشی کی تحریک انصاف میں شمولیت روایتی سیاست کے سمندر میں پہلا کنکر ثابت ہوا اور پھر جوق در جوق پارلیمنٹیرنز تحریک انصاف میں شامل ہوتے چلے گئے۔

مینار پاکستان کا کامیاب ترین جلسہ بھی 2013 کا الیکشن جتوانے میں کسی کام نہ آیا۔ لیکن پھر پانامہ لیکس کے سامنے آنے کے بعد عمران خان کا 22 سالہ بیانیے کہ طاقتور کا احتساب نہیں ہوتا اور غریب کو صرف سزا ملتی ہے، وہ غلط ثابت ہوگیا۔ میاں نوازشریف جیل پہنچ گئے اور عمران خان کو 22 سال کی محنت کا ثمر مل گیا۔ اور یہ سب کچھ 2018 الیکشن سے کچھ ماہ قبل ہوا۔

تحریک انصاف کے نزدیک عمران خان کا وزارت عظمیٰ کا حلف لینا کسی انقلاب سے کم نہیں۔ جب اسیٹس کو کی جماعتوں کو شکست ہوئی۔ عہدے کا حلف لینے کے بعد پہلی تقریر میں انہوں نے اپنے ''سب کا احتساب ہوگا اور میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا'' کا دوبارہ عہد کیا۔

ہم تاریخ کا دھارا ایک بار پھر 2018 سے واپس 1789 میں لے کر جاتے ہیں۔ فرانس میں انقلاب کے بعد عام تاثر یہی تھا ظالم بادشاہ کے ہٹ جانے کے بعد عوام کو برابری کے حقوق ملیں گے، شخصی آزادی ہوگی اور ایک شخص کی حاکمیت کا خاتمہ ہوجائے گا۔

انقلاب فرانس بنیادی طور پر 5 مئی 1789 سے 9 نومبر 1799 کے درمیان ہونے واقعات کا مجموعہ ہے۔ بادشاہ کے ہٹائے جانے، قتل کیے جانے کو انقلاب نہیں، بلکہ ایک اہم ترین واقعہ کہا جاسکتا ہے۔ 1792 میں گلوٹین کو بطور سزا کے ہتھیاروں کے استعمال پر سوالات اٹھائے جانے لگے۔ انقلاب کے حامیوں نے اسے غداری کے طور پر لیا اور ملک میں ایک بار پھر خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ یہاں ایک بار پھر اخبار نویس جین پال مراٹ نے لکھا اگر 2 لاکھ غداروں کے سر قلم کردیے جائیں تو شورش ختم ہوجائے گی۔ قتل عام کا ذمے دار ٹھہراتے ہوئے جولائی 1789 میں جین پال کو ایک خاتون نے قتل کردیا۔ جین پال کا قتل انقلابیوں کی نظر میں شہرت کا باعث بنا۔ چونکہ جین پال میکسملین کے اقتدار کو دوام دینے میں ایک اہم مہرہ تھا، تو جین کی موت کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے میکسملین نے ملکہ کے خلاف مقدمے کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔

سنگین غداری اور قومی خزانے کے بے دریغ استعمال پر ملکہ کو گلوٹین کے حوالے کردیا گیا۔ ملکہ کے تینوں بچے جو ایک سال سے دس سال کی عمر کے تھے، ماں باپ سے جدائی ان کےلیے جان لیوا ثابت ہوئی۔ گلوٹین کے ذریعے ہونے والے قتل عام پر Jacques Danton جو کہ کمیٹی آف پبلک سیفٹی کا صدر تھا، اس نے کہا " Revolution is like Saturn, it devours its own children" انقلاب نے چار سال میں فرانس کو تاراج کردیا۔

میکسملین نے ملک میں سول مارشل لاء نافذ کرنے کا فیصلہ کیا اور تاریخ اس فیصلے کو "Reign of Terror" کے نام سے جانتی ہے۔ پیرس کی گلیاں خون سے رنگین ہوئیں، آزادی صحافت اور مذہبی آزادی پر پابندی لگادی گئی اور مذہبی پیشواؤں کو سمندر برد کیا جانے لگا۔ آمریت کے مخالف میکسملین نے لوگوں کے سر قلم کروانے شروع کردیے۔ نتیجتاً اس کی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد شروع ہوگئی۔ 1793 سے 1794 کے درمیان صرف پیرس میں آٹھ سو سے زائد افراد کے سر قلم ہوئے۔ میکسملین کے ہاتھوں نے اتنا خون بہادیا کہ اسے اپنے ہی ساتھیوں پر بھی شک ہونے لگا کہ کہیں وہ ان کو بھی باغی نہیں سمجھنے لگ گیا۔ اس تاثر کو تقویت اس طرح سے بھی ملی کہ میکسملین نے باغیوں کی ایک لسٹ بنائی جس کو وہ کمیٹی آف پبلک سیفٹی کے سامنے رکھنا چاہتا تھا۔ کمیٹی کے ممبران نے، اس سے پہلے کہ وہ نام سامنے لاتا میکسملین کو گرفتار کرکے ایک کمرے میں بند کردیا۔ مقدمہ چلایا گیا اور 27 جولائی 1794 کو گلوٹین اس کا مقدر ٹھہری۔

میکسملین کے اقتدار کو صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو وہ ایک سال اور کچھ ماہ حاکم رہا۔ خوابوں کی تعبیر سے لے کر سر قلم ہونے تک انتہا کی محبت بھی دیکھی اور نفرت بھی ایسی کہ جب سر قلم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو ایک شخص بھی سامنے نہ آیا۔ اور یاد رہے یہ وہ میکسملین تھا جب اقتدار میں آیا تو لوگ اسے Incorruptible کہہ کر پکارتے تھے۔

پاکستان میں عمران خان کی وجہ شہرت بھی Incorruptible ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد خان صاحب نے بھی تقریباً وہ تمام کام کرلیے ہیں جو میکسملین نے کیے تھے۔ ایک ایک کرکے تمام سیاسی قائدین جیلوں کے پیچھے ہیں، اس سے قطع نظر کہ الزامات درست ہیں یا نہیں۔ ملکی معیشت بہتری کے بجائے ابتری کی جانب گامزن ہے۔ اختلاف رائے کرنے والے کو ملک دشمن قرار دیا جاچکا ہے، اور صرف ''مثبت رپورٹنگ'' کی اجازت ہے۔

ہمارے ہاں بھی یہ تاریخی حقیقت ہے کہ مسند اقتدار تک پہنچانے والے اپنے قائدین کو سروں پر بٹھاتے ہیں مگر جب خوابوں کے بجائے بات ذاتی انا کی تسکین تک پہنچ جائے تو پھر لوگ ایسے بے نیاز ہوجاتے ہیں جیسے فرانس کے لوگ میکسملین روبسپیئر سے بیزار ہوگئے تھے اور پاکستانی ایوب خان اور پرویز مشرف سے۔

خان صاحب! آپ اس وقت اس ملک کے بادشاہ ہیں۔ میکسملین روبسپیئر کی طرح نہ ہوجائیے گا جس نے اپنے مخالفین پر زندگی تنگ کردی۔ اپنے معاشی ویژن، تعلیم اور صحت پر مرتب پالیسیوں پر عمل کیجئے۔ خوش آمدیوں سے بچیے، مخالفین کو ذاتی انا کی بلی چڑھانے سے دور رہیں۔ اور آخری بات قدیم رومیوں کی طرح آپ کے دو رفیق ایسے ضرور ہونے چاہئیں جو آپ کے کان میں مسلسل کہتے رہیں "Caesar you are mortal"۔ کیونکہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے اور میں بطور پاکستانی نہیں چاہتا کہ لوگ مستقبل میں آپ کا نام میکسملین روبسپیئر کے ساتھ لیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مقبول خبریں