ایک نئی ادبی تحریک کی ضرورت

جبار قریشی  ہفتہ 26 اکتوبر 2019
 jabbar01@gmail.com

[email protected]

ایک عام انسان کو اپنی روزمرہ زندگی میں کئی کیفیات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ مثلاً غم ، خوشی ، بے چینی ، بے قراری، فتح ، شکست ، اذیت ، خود غرضی ، افسوس ، محبت ، انتظار اور بہت سی کیفیات جن کو ہر انسان محسوس ضرورکرتا ہے مگر جو لوگ اپنے فن کے ذریعے ماہرانہ انداز میں اس کی عکاسی کرتے ہیں فنکارکہلاتے ہیں۔

یہ فنکارکیسے وجود میں آتے ہیں۔ ہر شخص اپنی ذات میں ایک سمندر ہے لیکن وہ خود ایک جزیرے میں قید ہے، یہ جزیرہ نفسیات کی اصطلاح میں Ego (انا) ہے ، اس کی صفت میں اکیلا پن ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص اپنی ذات کے Ego یعنی جزیرے سے نکل کر اپنی ذات کے سمندر میں داخل ہوتا ہے تو اس کا اکیلا پن دور ہوتا ہے اور وہ دوسرے تجربات سے آگاہ ہوتا ہے۔

پھر وہ کوئی طریقہ اختیارکر کے ان جذبات اور احساسات کی ترسیل کر دیتا ہے۔ یہ عمل اس وقت ہوتا ہے جب شخص احساس کی شدت، احساس کمتری یا کسی ذہنی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے۔ احساس کی شدت کی مثال بجلی کی رو کی ہے جو اگر بے قابو ہو تو شخصیت فنا کر دیتی ہے لیکن اگر اسے گرفت میں لاکر کام میں لایا جائے تو اس سے قلب و نظر میں وہ روشنی پیدا ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں تخلیق کا عمل انجام پاتا ہے۔ ایک محاورہ ہے ’’جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا ‘‘ اس میں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ مور اپنے اظہار کے لیے اپنے تماشائی کا محتاج نہیں۔ تخلیقی عمل میں ایک کیفیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں اظہارکو اولیت حاصل ہے ، ابلاغ کو نہیں۔ اس سے خود فنکارکی ذات کو آسودگی حاصل ہوتی ہے۔

اس آسودگی سے اس کی ذات میں توازن پیدا ہوتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو سبھی چہرے بناوٹ کے اعتبار سے ایک ہوتے ہیں دو آنکھیں ، دو کان ، پیشانی ، ناک اور دہانہ لیکن ان سب اعضا کی موجودگی کے باوجود کچھ چہرے ہمیں خوبصورت ، دل کش دکھائی دیتے ہیں ایسا کیوں؟ اس کا شاید صحیح جواب نہ دیا جا سکے لیکن احساس ہوتا ہے کہ اعضا کا متناسب خد وخال اور نقوش سب مل کر چہرے کو دلکش اور قابل قبول بناتے ہیں ، تکنیکی اعتبار سے ہر تحریر حروف و الفاظ کا مجموعہ ہوتی ہے لیکن اگر الفاظ مناسب خد وخال اور توازن کا خیال رکھا جائے تو تحریریں خوبصورت ہوجاتی ہیں۔

ادبی تحریریں اس لحاظ سے ممتاز اور الگ ہوتی ہیں کہ اس میں بات کو خوبصورت طریقے سے کہنے کا سلیقہ ہوتا ہے ، جس طرح آواز کی خوبصورتی، موسیقی رنگوں کی خوبصورتی مصوری ، جسمانی حرکات کی خوبصورتی رقص کو جنم دیتی ہے ، اسی طرح الفاظ کی خوبصورتی ادب کو جنم دیتی ہے۔ جس طرح ایک سیاستدان عقل ودانش کے زور پر سماجی اور سیاسی عوامل کی نشاندہی کرکے فرد کے سماجی حالات کو بدلنے کی کوشش کرتا ہے، اسی طرح ایک ادیب فرد اور معاشرے کے درمیان داخلی رشتہ استوارکرتا ہے۔ ادب کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ پوشیدہ اور ظاہرکی صورت میں آ کر روح کو اپنی مضبوط گرفت میں لے لیتا ہے۔ ادبی تحریریں ہمارے دل میں اترکر ہمارے باطن کا حصہ بن جاتی ہیں اور ہمارے جذبوں کو احساس کی قوت عطا کرکے فرد اور معاشرے کے درمیان تعلق کو مضبوط کرتی ہیں۔

جب ہم کسی قابل ذکر تحریرکو پڑھتے ہیں تو لکھنے والے شخص کا انداز فکر اور رجحان اپنے بھرپور انداز میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ ادب کا طالب علم جب کسی فن پارے ( لمبی مدت تک پڑھے جانے والے ادب) کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کی نظر سب سے پہلے اسلوب پر پڑتی ہے۔ وہ فنکارکی شخصیت اس کے خیالات تجربات تک رسائی حاصل کرتا ہے، اس لیے کہتے ہیں کہ ہر ادیب اپنے اسلوب سے پہچانا جاتا ہے۔

اس لیے لکھنے والے کے پاس واضح خیالات موجود نہ ہوں، اس کے ذاتی تجربات میں انفرادیت اور اس کی شخصیت میں خلوص اور کشادگی نہ ہو تو اسلوب محض الفاظ کا ایک بے جان اور بے رنگ پیکر بن کر رہ جاتا ہے۔ اس لیے ایک ادیب کے لیے ضروری ہے کہ اس کا ذہنی افق وسیع ہو۔ وہ کسی بھی تنگ نظری یا عصبیت کا شکار نہ ہو۔ جو بات پیش کرنا چاہتا ہے، اس کے پس منظر اس کے محرک اور اس کے محرک کے رد عمل سے واقف ہو اس کا مطالعہ وسیع ہو۔ مطالعہ انسانی بصیرت کو وسعت اورگہرائی ہی نہیں دیتا بلکہ سوچ کے نئے زاویے بھی عطا کرتا ہے۔

بقول ایک دانشورکہ جب آدمی دوسروں سے لڑتا ہے تو سیاست دان کہلاتا ہے اور جب اپنے آپ سے لڑتا ہے تو ادیب بن جاتا ہے۔ ادب کے قاری کی حیثیت سے میں نے یہ بات محسوس کی ہے کہ ہمارا ادب گزشتہ کئی برسوں سے عملی بانجھ پن کا شکار ہے کوئی بھی نظریاتی تحریک ہو یا سیاسی ادبی تحریک ہو یا علمی وہ اس وقت تک زندہ اور فعال رہتی ہے جب تک وہ اپنے نظریات اور تخلیقات سے سماج کو متاثرکرتی ہے۔ جب یہ تحریکیں اپنے نظریات اور اپنی تخلیقات سے معاشرے کو متاثرکرنا بند کر دیتی ہیں ، تحریکیں زوال کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ہماری ادبی تحریکوں نے جب اپنی تخلیقات دینی بند کر دیں تو ان کا وجود ہی ختم ہوگیا۔

ہمارے یہاں بعض ادیبوں کو ایک شکایت ہے کہ معاشرہ جمالیاتی حس سے محروم ہے ، اسے ادبی تحریریں یا کتابیں پڑھانا ایسا ہی ہے جیسے کسی نامرد کو سیکس کے موضوع پر پڑھنے کے لیے کتاب دے دی جائے۔ میرے نزدیک ایک سوچ غلط ہے ہر انسان خوبصورتی سے محبت کرتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ایک بدکردار شخص اپنے بچوں کو ایک اچھے انسان کے روپ میں دیکھنا پسند کرتا ہے۔ انسان کی جمالیاتی حس کو بیدار کرنا ہی ایک ادیب کی ذمے داری ہے۔

ادبی تحریروں کی اساس انسانی قدروں پر ہوتی ہے، انسانی قدریں بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں لیکن زندگی کے ہر دور میں بعض قدریں ایسی ہوتی ہیں جن کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ ان کے بارے میں یہ تصور بن جاتا ہے کہ وہ مستقل حیثیت رکھتی ہیں انسان خاص طور پر ادیب کے تجربات ایسی قدروں کے گرد گھومتے ہیں۔ موضوع کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ادب صرف خیر بھلائی کی قدروں کی ترجمانی اور عکاسی کرتا ہے اس لیے ادب کی بنیادیں درحقیقت خیرکی بنیادیں ہیں ادب کی پوری عمارت اسی پر تعمیر ہوتی ہے۔

اس وقت ہمارا معاشرہ منفی قدروں میں گھرا ہوا ہے۔ جھوٹ ، دھوکہ دہی ، استحصال ، ظلم ، منافقت ، مکر و فریب عام ہے۔ ایسے حالات میں ہمارے ادیبوں پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کی ابتری پر غور و فکر کریں اور اسے تبدیل کرنے کی راہیں تلاش کریں۔ خیال رہے کہ ہمارے یہاں وہی ادبی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوگی جس کی جڑوں کا تعلق ہماری زمین سے ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔