یاد کے پرندے

خرم سہیل  پير 14 اکتوبر 2013
khurram.sohail99@gmail.com

[email protected]

دھیان کی دہلیز پر بیٹھے ہوئے یاد کے پرندے جب پروازکرتے ہیں،تو دل کاآسمان بانہیں کھول کر ان کا استقبال کرتا ہے۔ میرے دھیان میں بھی ان دنوں یاد کا ایک ایساہی پرندہ آن بیٹھا ہے،جسے ذہن سے محو ہوئے ایک عرصہ بیت چکا تھا۔چند برس پہلے کی بات ہے،میں اپنی ایک کتاب کے لیے انٹرویوز کرنے کی خاطرکراچی سے لاہور کے لیے بذریعہ ہوائی جہاز سفرکررہا تھا۔

جہاز میںمیرے برابر والی نشست پر ایک پیاری سی بچی براجمان تھی،اس نے کانوں میں ہیڈفون لگائے ہوئے تھے، میں نے جیسے ہی نشست سنبھالی،اس نے ایک خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ میرااستقبال کیا۔جب جہاز کراچی سے پرواز کرگیا،تو میں نے اس بچی سے گفتگو کی ابتدا کی۔ میرے پہلے سوال کا تعلق اس بات سے تھا کہ وہ اس وقت کس گلوکار کوسن رہی تھی؟اس کے جواب سے مجھے حیرت کے دوجھٹکے لگے۔پہلاجھٹکا یہ کہ اس نے کہا’’میں اپنی امی کے گانے سن رہی ہوں۔‘‘اوردوسرا جھٹکا یہ تھا کہ وہ صرف انگریزی سمجھ سکتی تھی۔یہ دونوں باتیں مجھے چونکا دینے والی تھیں،کیونکہ وہ مجھے خدوخال کے لحاظ سے پاکستانی بچی لگ رہی تھی۔

میں نے جب اس سے مزید تفصیل دریافت کی،تو پتا چلا،اس کے ابو پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹر ہیں اورامی امریکی ہیں ،وہ پیشے کے لحاظ سے ماڈل اورگلوکارہ ہیں۔میں نے ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی اورچند لمحوں میں میرے سامنے ایک دراز قد سفید فام خاتون کھڑی مسکرا رہی تھیں اوران کے ساتھ ایک شاندار شخصیت کے مالک ان کے شوہر مجھ سے اردوکے صاف لہجے میں مخاطب تھے۔

یہ ایک حسین اتفاق تھا۔میں موسیقی کی کتاب کے حوالے سے مختلف گلوکاروں کے انٹرویوز کرنے کے لیے لاہور اور اسلام آبادجارہا تھا اورمیری ہم سفر اب ایک ایسی امریکی گلوکارہ تھیں جنھیں پاکستان کی سرزمین اورفنون سے بے حد محبت تھی۔ ان کانام’’ Heather Schmid۔ ہیدر شمڈ‘‘ تھا،جب کہ ان کے شوہر کانام ’’محمد رافع ‘‘تھااوروہ خود بھی تہذیبی رچاؤ کے مالک اورموسیقی کے رسیا تھے۔ان کاتعلق کراچی سے تھا اوراب طویل عرصے سے امریکا میں مقیم اورمسیحائی پیشے سے وابستہ یعنی ڈاکٹر تھے۔

ان سے بنیادی تعارف کے بعدزبردست گفتگو کاآغاز ہو گیا۔میرے ساتھ ایک موقر انگریزی روزنامے کی کالم نویس بھی شریک سفر تھیں،وہ بھی اس گفتگو کا حصہ بن گئیں۔اب ہم پانچوں نے محفل جمائی ،توایسا لگ رہاتھاکہ ہم جہاز میں نہیں ،گھر کے مہمانے خانے میں بیٹھے گفت وشنید میں مصروف ہیں۔کچھ دیر کے لیے ہم نے اردگرد کے ماحول کو فراموش کردیا۔ میں نے ہیدر اوررافع کو کلاسیکی موسیقی کے گھرانوں سے لے کر غزل گائیکی کے تمام گلوکاروں کے بارے میں معلومات فراہم کی۔پاکستانی پوپ میوزک سے لے کر لوک گائیکی تک سب بتایا۔ہیدر نے مجھے اپنے میوزک کیرئیرکے بارے میں بتایا۔میں نے جب ان سے پوچھا ،آپ کے ذہن میں موسیقی کی تعریف کیاہے؟تو ان کے جواب نے مجھے مزید حیران کردیا۔

وہ کہنے لگیں۔’’میرے لیے موسیقی روحانیت کا درجہ رکھتی ہے ،موسیقی کی بدولت میں خود کو روح سے پیوستہ محسوس کرتی ہوں ،میری فکر اور روح کے درمیان موسیقی ایک پُل کا کام دیتی ہے ،اسی لیے موسیقی کی اہمیت میری زندگی میں بہت زیادہ ہے اور میں سمجھتی ہوں، موسیقی کی حتمی تعریف یہی ہے کہ جو ہماری ذات کو تشکیل دے ۔موسیقی ہمیں اپنی ذات کی نفی کرنا سکھاتی ہے ۔‘‘ہیدر سے گفتگو کرکے مجھے احساس ہوا ،میں کسی گلوکارہ سے نہیں ،کسی ایسی شخصیت سے بات کررہاہوں،جسے صوفیانہ شاعری نے اپنے اثر میں لے رکھا ہے،جس کی روح سے ہماری مٹی کی مہک اُٹھ رہی ہے۔

جب میں نے ہیدر سے مزید یہ کہا ،امریکی حکومت اپنے شہریوں کو پاکستان کاسفر کرنے سے گریز کامشورہ دیتی ہے،لیکن اس کے باوجود آپ بے خوف وخطر یہاں سفر کررہی ہیں،تو اس کاجواب انھوں نے یوں دیا۔’’اس لیے کہ مجھے اس سرزمین سے محبت ہے اوراگر مجھے کسی نے مار دیاتو مجھے اسی مٹی میں دفن کرکے میری قبر کے کتبے پر لکھ دیا جائے’یہاں وہ لڑکی دفن ہے،جسے اس دھرتی سے پیارتھا‘۔میں اس گفتگو سے مسلسل متاثر اورحیران تھاکہ میں کسی امریکی گلوکارہ سے بات کررہاہوں یا یہ لڑکی میرے ہی کسی شہر کی رہنے والی ہے۔جس طرح ہاتھ کی پانچ انگلیاں برابر نہیں ہوتیں،اسی طرح کسی ایک ملک کے سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ امریکا میں بھی پاکستان سے ایسے پیار کرنے والے لوگ ہیں۔ میں نے ایک لمحے کے لیے سوچا کہ ہوسکتاہے کہ یہ ہیدر کاوقتی جذبہ ہو،مگر میں غلط تھا۔

کئی برس کے بعد ،رواں برس اگست کے مہینے میں،ہیدر مجھے پھر اتفاق سے کراچی کے ایک ہوٹل میں مل گئیں ۔میں نے ان کی گلوکاری کے حوالے سے دریافت کیاتو انھوں نے مجھے بتایا کہ’’ رواںبرس چودہ اگست کے موقعے پر وہ اپنا ایک ملی نغمہ ریلیز کررہی ہوں،جس کاٹائٹل ’پاکستان زندہ باد‘ہے اوریہ گیت اردو زبان میں ہے‘‘۔اب میری حیرانی اس یقین میں بدل رہی تھی کہ کوئی دوسرے ملک کا ہوکر بھی ہمارے ملک سے محبت کرسکتاہے اورہیدر اس کی حقیقی مثال تھی،جو میرے سامنے کھڑی تھی۔

اسی برس یہ ملی نغمہ ریلیز ہوا۔اس کو بے حد پسند کیاگیا۔میں نے بھی کئی چینلز پر اس کا ویڈیو دیکھا۔میری طرح بہت سے پاکستانی ناظرین بھی یہ گانا دیکھ اورسن کر حیران ہوئے ہوں گے۔پاکستان کے لیے ہیدر کاجذبہ صادق ہے ،وہ مزید اس نوعیت کے منصوبوں پر کام کرنے کے لیے پرجوش ہیں۔میرے خیال سے اگر اس طرح بین الاقوامی سطح کے فن کار ہمارے ملک میں آکر کام کرتے ہیں ،تودنیا بھر میں پاکستانیوں کے لیے قائم منفی تاثر ختم ہوگا۔

میں ہیدر کی گلوکاری کے پس منظر کے بارے میں بھی گفتگو کرناچاہتاہوں،مگر وہ پھر کسی وقت،فی الحال میں آپ کو اس گفتگو میں شریک کرناچاہتاہوں،جس کے جملوں کی بازگشت اب بھی میرے ذہن میں ہے۔ہیدر نے 2005ء کے زلزلہ متاثرین کے لیے پاکستان میں کئی شوز کیے اوراپنا سارا معاوضہ امداد میں دے دیا۔میں نے امن ،محبت ،امریکاپاکستان تعلقات اوردیگر موضوعات پر جب سوالات کیے،تو ہیدر کی باتوں نے مجھے بہت مطمئن کیاکہ کس طرح فن کار دو ملکو ں کو دوستی کے راستے پر گامزن کرسکتے ہیں۔

ہیدر کہتی ہیں’’میں یہ سوچتی ہوں کہ ان مصیبت زدہ لوگوں کے لیے میں کیا کرسکتی ہوں ،میں شاید کوئی بڑا کام کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی، کیونکہ دنیا کے مصائب کے سامنے میرا کام کوئی وقعت نہیں رکھتا ،مگر میں پھر بھی اپنے حصے کا کام کروںگی،چاہے وہ سمندر میں ایک بوند ہی کیوں نہ ہو۔جہاں تک امریکا پاکستان کے مابین تعلقات کی بات ہے، تودنیا میں پاکستان اور امریکا کا منفی تاثر ابھرا ہے ،جب کہ یہ اتنا بھی منفی نہیں ہے جس قدر قائم کرلیا گیا ہے۔

مجھے گانا آتا ہے اسی لیے میں مشرق اور مغرب کے درمیان اپنے فن سے ایک پُل کا کام کرنا چاہتی ہوں تاکہ ہمارے درمیان جو فاصلے بڑھ گئے ہیں ،اس میں کمی آئے۔میں نے پاکستان کے لیے ملی نغمہ’’پاکستان زندہ باد‘‘تخلیق کرکے اپنے اسی جذبے کی عکاسی کی اورخوشی ہے کہ پاکستانی عوام نے میرے اس گیت کو بہت پسند بھی کیا۔‘‘دھیان کی دہلیز پر یادوں کے ایسے پرندے آکر بیٹھیں تو یہ مکینوں کی خوش قسمتی ہوتی ہے،کیونکہ یہ امن کے پرندے ہیں،جو اپنے ساتھ محبت کی خوشبو اور روشنی بھی لاتے ہیں،جن سے صرف دودلوں کے دروازے ہی نہیں، بلکہ دوملکوں کے راستے بھی ایک دوسرے کے لیے کھولے جاسکتے ہیں۔ہیدر اور رافع میرے دھیان کی دہلیز پر بیٹھے ہوئے یادوں کے ایسے ہی دو دلکش پرندے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔