اقبال مسلمانوں کی معاشرتی، مذہبی اور سیاسی معیاراتِ فکر کیلیے مسلمہ قانون ساز کی حیثیت رکھتے ہیں

فیض احمد فیض  ہفتہ 9 نومبر 2019
اقبال نے مغرب کے بہت سے فلسفیانہ اور سائنسی خیالات کو قابل قدر گردانا اور انہیں ہضم کر لیا۔ فوٹو : فائل

اقبال نے مغرب کے بہت سے فلسفیانہ اور سائنسی خیالات کو قابل قدر گردانا اور انہیں ہضم کر لیا۔ فوٹو : فائل

’’کوئی شخص بھی شاعری میں عظمت کا حامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ عظیم فلسفی بھی نہ ہو۔‘‘ یہ قول اس نہایت ذی شعور نقاد کاہے جو کہ کولرج کے نام سے موسوم ہے۔

خواہ مغرب میں یہ مفروضہ کلیتاً قابل قبول نہ ہو لیکن مشرق میں‘ بالخصوص مسلمانوں میں‘ عظیم ناموں کی ایک فہرست اس کی شہادت دیتی ہے۔ جلال الدین رومی (1207ء تا1273ء) ‘ مصلح الدین سعدی (وفات 1313ء) ‘ شمس الدین حافظ (وفات 1389ء) ابن الحسن خسرو (1253ء تا 1325ء) ‘ اسد اللہ خاں غالب (1797ء تا1869ء) ۔ اقبال (ڈاکٹر ‘ سر ‘ شیخ محمد‘ یا علامہ جیسا کہ انہیں احتراماً پکارا جاتا ہے) بلا حیل و حجت اسی منفرد سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔

تاہم ایک فریق ہے اور وہ یہ کہ عہد وسطیٰ کے پیش روؤں کے برعکس محض یہ نہیں کہ انہوں نے فلسفہ کے مختلف مدرسہ ہائے فکر کا ’جس میں قدیم و جدید دونوں شامل ہیں‘ بہ نظر غائر مطالعہ  کیا تھا بلکہ وہ ایک سے زیادہ زبانوں میں ایسا نثری سرمایہ بھی رکھتے ہیں جس میں منطقی اختصار کے ساتھ انہوںنے حقیقی دنیا کے مسائل کا اپنا حل پیش کیا ہے۔

تمام’’شاعران اثبات‘‘ مثلاً دانتے ‘ ملٹن اور گوئٹے کی طرح اقبال بھی محض مجرد فکر کے حامل نہیں ہیں۔انہیں کی طرح وہ بھی گرد و پیش کی معاشرتی دنیا کے معاملات میں بڑے انہماک سے شامل تھے اور برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی نسلاً بعد نسل کی معاشرتی‘ مذہبی اور سیاسی معیارات فکر کے لئے غیر مستند نہیں بلکہ مسلمہ قانون ساز کی حیثیت رکھتے تھے۔

غیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل کی دہائیاں شدید ذہنی الجھنوں اور جذباتی اذیتوں کا دور تھیں۔ مغلیہ خاندان کی مسلم حکومت کا زوال 1857ء میں برطانوی حکومت کے خلاف سرکشی کا خونین انتقام ۔ جاگیرداری نظام کے حقوق‘ اقدار  اور رعایتوں کا خاتمہ۔ غیر مسلم باشندوں کو قوت و دولت کی بیشتر اعلیٰ حیثیتوں کی تفویض… یہ ساری باتیں اجتماعی ذہن کو منتشر کر رہی تھیں۔ تباہ حالی نے انہیں سرحد پار کی دیگر مسلم اقوام کے ساتھ جو خود بھی ایسے ہی حالات سے دور چار تھیں‘ بھائی چارے کے رشتے میں پیوست کر دیا تھا۔

عثمانی ترکوں کے ساتھ مشرقی وسطیٰ کے عربوں کے ساتھ ‘ شمالی افریقہ میں لیبیا ‘ مراکش اور تیونس کے لوگوں کے ساتھ۔ وہ ایک سکوں بخش و حوصلہ پرور آواز کے منتظر تھے جو انہیں بے اطمینانی کے بنجر پن سے باہر نکالے۔ پچھلے دور کی رہنما آوازیں‘ آزاد خیال مصلحین کی دھیمی آوازیں جوانہیں برطانوی حکمرانوں کے بدیشی طور طریق سے مصالحت کرنے پر اکسا رہی تھیں‘ نیز مذہبی علما کی درشت آوازیں جو انہیں  کفار کے دلفریب اطوار کو رد کرکے اجداد کی روایات کی جانب واپس بلا رہی تھیں۔ یہ دونوں آوازیں نئے دانشور طبقے کے لئے کوئی اپیل نہ رکھتی تھیں۔

شاعر اقبال ان کی نا آسودگی کے سوتوں سے کما حقہ‘ واقف تھے اورمفکر اقبال ان کے اس فکری اور روحانی کرب کی ماہیت کو خوب سمجھتے تھے جو جدیدیت اور روایت کے دیوان کی کلائیوں کو گرفت میں لے کر مختلف سمتوں میں کشا کش سے پیدا کر رہے تھے۔ وہ دونوں سے ذہنی و جذباتی انس رکھتے تھے۔ رفتہ رفتہ انہوں نے ہندی مسلمانوں ‘ مسلمانان عالم اور خدا، انسان اور فطرت کی تکون سے متعلق عصری مسائل کے جوابات تلاش کر لئے۔

اقبال نے مغرب کے بہت سے فلسفیانہ اور سائنسی خیالات کو قابل قدر گردانا اور انہیں ہضم کر لیا۔ مثال کے طور پر ہیگل کا تصور  انسان اور تاریخ کے انسانی عمل کا نتیجہ ہونے کا تصور‘ کانت کا عقل مطلق کے بارے میں استدلال ‘ سرمایہ داری اور طبقاتی استحصال کے خلاف مارکس کا شدید رد عمل‘ نطشے کا آزاد خیال بورژوا اخلاقیات کا رد اور حصول قوت و اقتدار کا استحسان ‘ وجدانی علم کی صحت کے حق میں برگساں کی بحث اینسٹائن کا چہار ابعادی زمانی‘ مکانی تسلسل کا تصور وغیرہ اس کے باوجود ان کا خیال تھا کہ مغرب کے عینی و مادی دونوں قسم کے فلسفے یہاں کے لوگوں کی معاشرتی و نظریاتی صورت حال سے بڑی حد تک مطابقت نہیں رکھتے۔ انہیں یہ محکم یقین تھا کہ مذہب اسلام اور ہماری محترم و پاکیزہ روایات یعنی پیغمبر اسلامؐ کی عملی زندگی اور ان کے اقوال‘ یہی وہ بنیادیں ہیں جو ان کے پیغام کے لئے سند ہو سکتی ہیں۔

اور انہیں پر اقبال نے اپنی بصیرت کی روشنی ڈالی۔ مسلم ذہن کو آزاد کرانے کی ضرورت‘ ایک طرف تو تقریباً پانچ سو سال کے معاشرتی و فکری جمود سے پیدا شدہ بنجر پن سے تھی اور دوسری طرف عقل دشمن‘ رجعت پسند متعصب قوتوں کے جبر سے۔ پہلے اقدام کے طور پر‘ قدیم زمانے کے پیغمبروں کی طرح‘ انہوں نے خانہ خدا کو جھوٹے بتوں سے‘ فرسودہ روایت پرستوں‘ تاریک ضمیر ملا‘ تارک الدنیا صوفی‘ مجمع بازوں اور شورش پسندوں سے پاک کرنے کی کوشش کی۔

کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے

میرے لئے مٹی کا حرم اور بنا دو

میں ناخوش و بیزار ہوں مر مر کی سلوں سے

پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو

(بال جبریل)

محض اسی طور ’’خانہ خدا‘‘ زمین پر اس کے خلیفہ انسان کے شایان شان ہو سکتا ہے۔

اقبال محض معنوی طور پر ہی نہیں لفظی طور پر بھی انسان دوست ہیں۔ ان کے لئے ’’حقیقت کی کوئی صورت اتنی توانا‘ اتنی دلکش اور اتنی حسین نہیں جتنی کہ روح انسانی۔‘‘ زوال آدم رحمت الٰہی سے محرومی نہیں بلکہ اس کے برعکس وہ منزل ارتقا ہے جو اسے اس عمل تخلیق میں جو مسلسل جاری ہے ‘ ہم کار خدا کا درجہ دیتی ہے۔ اس لئے کہ کائنات مکمل نہیں‘ یہ اب بھی مرحلۂ تکمیل میں ہے اورانسان کو اس کام میں ہاتھ بٹانا ہے تاکہ وہ کسی حد تک انتشار میں نظم و ضبط پیدا کر سکے۔ یہ عالم اجسام جتنا خدا کی تخلیق ہے اتنا ہی انسان کی بھی۔ فرق یہ ہے کہ تخلیق خداوندی … فطرت یا مادہ … مقابلتاً غیر متحرک اور جامد ہے جبکہ انسان کی تخلیقی قوتیں ایسے ارتقائی عمل کی حرکت میں ظاہر ہوتی ہیں جو لازماں بھی ہے اور لامکاں بھی۔

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا

کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں

(بال جبریل)

تو شب آفریدی چراغ آفریدم

سفال آفریدی ‘ ایاغ آفریدم

بیابان و کہسار وراغ آفریدی

خیابان وگلزار و باغ آفریدم

(پیام مشرق)

اس کے منطقی نتیجے کے طور پر اقبال نے اسلامی تصور توحید … خدا کی وحدت اور اکائی کے تصور… کو عالم اجسام اور عالم ارواح کی اکائی کے تصور پر منبطق کیا اور خدا کے ماورایٰ تصور کی جگہ وجودی تصور کو قائم کیا‘ اور اس طرح دین و دنیا اور روح و مادہ کی ثنویت کو ختم کیا ۔ ’’روح اپنے امکانات کو فطرت ‘ مادے اور دنیا میں ظاہر کرتی ہے۔ پس جو کچھ دنیوی ہے وہی اپنے وجود کی ماہیت میں دینی بھی ہے۔‘‘

علاوہ ازیں چونکہ مادی قوتوں کی تدریجی تسخیر کے ذریعے انسانی ارتقا کا عمل مسلسل اور لامتناہی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ کائنات کا دائم عنصر محض تغیر و تبدیلی ہے۔

ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

(بانگ درا)

یہ اصول داخلی و نظریاتی صورتی حال پر اتنا ہی منطبق  ہوتا ہے جتنا کہ معاشرتی و مادی صورت حال پر، یہاں تک کہ مذہبی احکامات پر بھی۔ ’’ابدی اصول اگر تغیر کے تمام امکانات کو خارج کر دیں جو کہ قرآن پاک کے مطابق اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نشانیوں میں سے ہے تو یہ اس شے کو جامد بنانے کے مترادف ہے جو اپنے جوہر کے اعتبار سے حر کی  ہے۔‘‘ ایسے روایتی صوفی سے جو موجود دنیا کو واہمہ اور انسان کے دنیوی عمل کو کار لا حاصل سمجھ کر اسے رد کر دیتا ہے اقبال کنارہ کش ہو جاتے ہیں مگر وہ متشرع فقیہوں اور ان کی جامد و ساکن عصبیت کو بھی پوری قوت سے رد کر دیتے ہیں۔

اب آخری بات: اس تخلیقی عمل میں خاص عامل انسانی انا یا شخصیت یا ذات یا خود کو نہ تنہا فروغ دے سکتی ہے اور نہ توانا کر سکتی ہے ۔ یہ بحیثیت محموعی معاشرتی تعلقات کے حوالے سے ہی ممکن ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں اقبال کا ’’مرد کامل‘‘ نطشے کے ’’سپرمین‘‘ سے مختلف ہو جاتا ہے اس لئے کہ اقبال کے حتمی فیصلے ہر قسم کے قومی تعصبات ‘ استعماری مقبوضات‘ نسلی امتیازات‘ معاشرتی استحصال اور ذاتی اغراض کے سراسر خلاف ہیں۔ ان میں سے ہر صورت حال انسانی شخصیت کو مسخ کرتی ہے اور اس کی تذلیل کا باعث بنتی ہے۔

یہ بات قابل فہم ہے کہ اقبال کے بارے میں وافر تنقیدی مواد‘ ان کی شاعری کی تحسین اور قدری جائزے کے بجائے ان کے پیغام اور تصورات کے مطالعے اور تجزیئے سے متعلق ہے۔ تاہم ان کے جذبہ کی شدت سے بھرپور تھرتھراتی ہوئی شاعری اور اس شاعری کی قائل کرنے والی تاثیر ان کے بیشتر اثر و رسوخ کا باعث ہے ان کی شعری مجموعوں میں ہئیت و مواد ‘ خیال و اسلوب واضح خطوط پر حرکت کرتے نظر آتے ہیں اور سلسلہ تخلیق کے طویل عرصے میں ان کا ارتقا دلچسپ مطالعے کا موضوع ہے۔ پہلے دور میں جو 1905ء تک ختم ہو جاتا ہے بیشتر نظمیں مظاہر فطرت کے محرکات استعجاب و حیرت سے متعلق ہیں… سحر و غروب آفتاب‘ پہاڑ دریا‘ چاند‘ ستارے اور نوجوانی کی بے سبب اداسیاں۔

مختصر نظموں کے اس داخلی دور کے بعد طویل نظموں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے… شدید جذبات پر مشتمل خطیبانہ نظمیں‘ جن میں زیادہ تر قومی یا بین الاقوامی سیاسی موضوعات پر ہیں۔ یہ تمام نظمیں اردو میں ہیں۔ 1915ء میں اقبال نے اپنی پہلی طویل فلسفیانہ نظم‘ اسرار خودی‘ فارسی زبان میں پیش کی۔ اس کے ساتھ ہی فلسفیانہ فکر کا دوسرا دور‘ جو زیادہ تر فارسی منظومات پر مشتمل تھا، شروع ہوا۔ اور آخر میں تیسری دہائی کے اوائل میں ان کے پیغامات اور فن کا تکمیلی دور آیا جو تین ا ردو مجموعوں پر مشتمل  تھا۔ بال جبریل‘ ضرب کلیم اور ارمغان حجاز جو ان کی موت کے بعد شائع ہوا۔ اس وقت تک ان کی بے چین تلاش کا سفر داخلی تجربوں کے ٹکڑوں‘ فطرت سے پیدا ہونے والے تحیر‘ ہندی مسلمانوں اور اسلامی دنیا کی زبوں حالی سے گزر کر بنیادی حقائق ‘ خدا‘ کائنات اور انسان کے بارے میں پرسکون فکر تک پہنچ گیا۔

شعری بصیرت کے دائرے میں تدریجی پھیلاؤ کے تناسب سے ان کے شعری موضوعات میں کمی ہوتی گئی اسراف‘ پھیلاؤ سے استحکام کی طرف چلتے ہوئے آخر کار ان کی فکر آخری برسوں کے تصور وحدت تک پہنچ گئی۔ اسی قسم کی تبدیلی اسلوب میں بھی ہوئی۔ تفاصیل کی طوالت کے بجائے ایجاز و اختصار‘ تزئین اور ایمائیت کے بجائے واضح اوربلا واسطہ بیان‘ شاندار خطابت کے بجائے سادہ شاعری، مثنوی کی سیاسی یا فلسفیانہ طویل نظم یا مسدس کی ہیئت کی جگہ غزل ‘ قطعہ اور رباعی کے ایجاز نے لے لی۔ جذباتی فضا میں تبدیلی محبت کے احساس کے بجائے عشق کے شدید جذبات کی صورت میں ہوئی۔ بالغ ذہن  کی ان نظموں میں اقبال نے مشرقی شاعری کی عام تزئینی روایت کو رد کر کے بہت سے طریق کار ایسے وضع کئے جن کے باعث ان کی نظموں کی سختی و درشتی دور ہو گئی مگر معنی کی اعلیٰ سطح قائم رہی۔

اول صوتیات کا نظام و آہنگ اور بہت سی ایسی عروضی ایجادات جو ترجمہ کی صورت میں معدوم ہو جاتی ہیں۔ دوم خیال انگیز اسم معرفہ کا استعمال جو ان سے پہلے اردو شاعری میں مروج نہ تھا۔ مثلاً ’’ریگ روان کا ظمہ‘‘ کو ہ دماوند کی برف‘‘ ۔ ’’عراق و حجاز کے ریگزار‘‘ ’’خون حسین‘‘ ۔ ’’عظمت روما‘‘ ۔ ’’جمال قرطبہ‘‘ ۔’’سمر قند و اصفہان کی شان‘‘ وغیرہ۔ سوم یہ کہ انہوںنے بہت سے غیر معروف الفاظ کا اجرأ کیا جو قدیم ہیں مگر منسوخ نہیں‘ جو غیر مستعمل ہیں مگر مبہم نہیں۔ نیز یہ کہ انہوں نے ان سب کے لئے ایسے آہنگ اور اوزان استعمال کئے جو اردو شاعری میں شاید ہی کبھی آ سکے ہوں۔

اس منزل پر شدید داخلی چھان بین اور مختلف جہتوں میں غور و فکر کے بعد انہیں بالا خر وہ موضوع مل گیا جو اپنی وسعت کے سبب ان کی پوری شعری بصیرت پر چھا گیا اور وہ دہرا موضوع تھا انسان کی عظمت اور اس کی تنہائی… انسان کے خلاف صف آراء مشکلات‘ ظلم‘ استحصال‘ اس کی باطنی خامیاں ا ور خارج میں ایک دشمن سنگ دل فطرت اور ان سب کا احاطہ کرتی ہوئی اس کی تنہائی یہ ہے وہ چیلنج جس کے بالمقابل المیہ کے ہیرو‘ انسان‘ کی عظمت ہے… لامتناہی کشمکش اور وصال خداوندی کے لئے مستقل آشوب اور حصول اس کا مقدر  ہے اس شان و شوکت اور اس دکھ درد کا‘ امیدوں اور پریشانیوں کا‘انسانی زندگی کے آشوب اور اس کے حصول کا نغمہ خواں ہے کبھی ان نغموں میں نرمی و ہمدردی ہوتی ہے تو کبھی شدید غصہ اور جھنجھلاہٹ اور اقبال نے یہ کام خلوص و یقین اور اظہار کی ایسی وسعت و لطافت کی سطح پر کیا جو ان کے عہد میں کوئی نظیر نہیں رکھتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔