درست فیصلے سے زیادہ امپائر کا اعتماد دیکھا جاتا ہے، حمیرا فرح

حسان خالد / محمود قریشی  منگل 3 دسمبر 2019
آئی سی سی پینل میں شامل ہونا خواب ہے، پاکستان کی پہلی خاتون امپائر حمیرا فرح کے حالات و خیالات

آئی سی سی پینل میں شامل ہونا خواب ہے، پاکستان کی پہلی خاتون امپائر حمیرا فرح کے حالات و خیالات

خواتین کرکٹ کا باقاعدہ آغاز تو 1934ء میں ہو گیا تھا جب برطانیہ اور آسٹریلیا کی خواتین ٹیموں کے مابین پہلا ٹیسٹ کھیلا گیا تاہم 2005ء میں ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے آغاز سے بین الاقوامی سطح پر خواتین کرکٹ کو نہ صرف تیزی سے فروغ ملا ، بلکہ خواتین کا کردار کھیل کے دوسرے شعبوں کمنٹری، امپائرنگ اور انتظامیہ میں بھی تسلیم کیا گیا ہے۔

پاکستان کی بات کی جائے تو ہماری خواتین کرکٹ ٹیم نے 1997ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف اپنا پہلا ایک روزہ میچ کھیلا۔ تب سے پاکستان خواتین کرکٹ ٹیم 162 ون ڈے ، تین ٹیسٹ اور 110 ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں حصہ لے چکی ہے۔

ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں اس کا ریکارڈ نسبتاً بہتر ہے۔ پاکستانی خواتین کرکٹ سے متعلق دیگر شعبوں میں بھی اپنی الگ پہچان بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ امپائرنگ میں حمیرا فرح کا نام سرفہرست ہے، جنہیں پاکستان کی پہلی خاتون امپائر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

زمانہ طالب علمی سے کھیلوں سے وابستہ حمیرا فرح نے اپنے کالج اور ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے کئی اعزازت جیتے۔ پھر عملی زندگی میں نوجوان کھلاڑیوں کی تربیت کا موقع ملا۔ ’لاہور گریژن یونیورسٹی‘ میں سپورٹس ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں، اس کے ساتھ سپورٹس سائنسز میں اپنی پی ایچ ڈی کی تعلیم بھی مکمل کر رہی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں، ’’پاکستان کرکٹ بورڈ نے 2005ء میں امپائرنگ کورسز کرانے کا فیصلہ کیا تو میں نے بھی درخواست دے دی، جسے منظور کر لیا گیا۔ 50 مرد اور چھ، سات خواتین اس لیول ون انڈکشن کورس کا حصہ بنیں۔ قذافی سٹیڈیم میں پانچ دن صبح نو سے شام پانچ بجے تک ہماری کلاسز ہوئیں، قواعد و ضوابط پڑھائے گئے، مختلف پلیئنگ کنڈیشنز کے بارے میں بتایا گیا۔ اگلے دن ہمارا تحریری امتحان تھا، جس میں کامیاب ہونے کے لیے ضروری تھا کہ 90 فیصد سے زیادہ نمبر حاصل کیے جائیں۔

میں نے امتحان کی تیاری خوب محنت سے کی۔ اس کے بعد زبانی امتحان ہوا۔ نتیجہ آیا تو خوش قسمتی سے میرا نام کامیاب ہونے والی دو خواتین میں شامل تھا۔ اس کے کچھ ماہ بعد لیول ٹو کورس کے امتحان میں بھی کامیاب ہوگئی، جس کی تیاری میں نے پہلے سے شروع کر رکھی تھی۔ کامیاب ہونے والی دو، تین خواتین میں سے، میں واحد خاتون ہوں جو کرکٹ میدان میں اتری اور 2005ء سے اب تک امپائرنگ کر رہی ہوں۔ میرے بعد کچھ اور خواتین بھی اس پینل کا حصہ بنیں، لیکن ان میں سے زیادہ تر ایک دو میچز یا ٹورنامنٹس تک محدود رہیں۔‘‘

حمیرا فرح نے 1968ء میں لاہور کے علاقے باغبان پورہ میں آنکھ کھولی۔ بہن اور بھائی ہم عمر تھے، اس لیے بھائی کے ساتھ بچپن میں خوب پتنگ بازی اور سائیکلنگ کی۔ کبھی کبھارگھر میں کرکٹ بھی کھیل لیتے۔ میٹرک کے بعد کالج میں داخلہ لیا تو وہاں کھیلوں کے وسیع میدان نظر آئے۔ سکول کے برعکس یہاں کلاس لینے پر کوئی پابندی بھی نہیں تھی۔

چنانچہ انہوں نے اس چھوٹ کا فائدہ اٹھایا اور مختلف کھیلوں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔  بتاتی ہیں، ’’ہمارا ایک پورا گروپ بنا ہوا تھا، ہم صبح اپنا بیگ کلاس میں ایک مخصوص جگہ پر رکھتے اور پھر سارا دن کھیلوں میں مصروف رہتے۔ والی بال، ٹیبل ٹینس، جو بھی کھیل  چل رہا ہوتا، اس میں شامل ہو جاتے۔ شام کو بیگ اٹھایا اور گھر واپسی۔ بتدریج میں  نے خود کو دو تین کھیلوں ہاکی، کرکٹ اور باسکٹ بال تک محدود کر لیا، تاہم مجھے ہاکی کھیلنے کا موقع زیادہ ملا۔

اس زمانے میں پاکستان ریلوے واحد ڈیپارٹمنٹ تھا جو خواتین کی ہاکی ٹیم بناتا، انہیں سکالر شپ اور ملازمتیں وغیرہ دیتا۔ میں ہاکی اچھا کھیلتی تھی، اس لیے میری سلیکشن ہوگئی اور تین سو روپے مہینے کا سکالرشپ لگا۔ مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ اتنی زیادہ رقم خرچ کیسے کی جائے۔ یہ 1983-84 کی بات ہے۔کالج کی طرف سے حیدرآباد میں ہونے والی ہاکی ٹورنامنٹ میں شرکت کی اور بہترین کھلاڑی کا اعزاز حاصل کیا۔ میں کالج کی سپورٹس سیکرٹری اور پھر صدر بھی رہی۔‘‘

کھیلوں میں سرگرم حمیرا فرح سالانہ امتحان سے ایک دو مہینے پہلے سب کچھ چھوڑ کر پڑھائی میں مگن ہو جاتیں اور اوسط نمبروں سے کامیابی حاصل کر لیتیں۔ اس ’احساس ذمہ داری‘ میں والدہ کی اس دھمکی کا بھی دخل تھا کہ جس دن فیل ہوئی تو اگلے دن سے کالج جانا بند ہو جائے گا۔ وہ اپنی کامیابیوں کی وجہ اپنی والدہ کو قرار دیتی ہیں جنہوں نے ان پر اعتماد کیا اور خاندان میں تنقید کی پروا کیے بغیر انہیں کھیلنے کی اجازت دی۔ والد کا بچپن میں انتقال ہو گیا تھا۔

وہ اپنے بڑے بھائی کا ذکر بھی محبت سے کرتی ہیں جنہوں نے ان کی بہت حوصلہ افزائی کی۔ وہ کہتی ہیں، ’’اب تو کھیل میں لڑکیوں کے لیے ماحول سازگار ہے، جس زمانے میں ہم کھیلتے تھے، ہم ٹریک سوٹ پہن کر کھیلنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔مجھے خوش قسمتی سے گھر والوں کی حوصلہ افزائی حاصل تھی، جو کسی بھی کھلاڑی کی کامیابی کے لیے ضروری ہوتی ہے۔‘‘

گریجویشن کے بعد وہ ایم اے انگریزی کرنا چاہتی تھیں، لیکن ٹیچر کے اصرار پر فزیکل ایجوکیشن میں داخلہ فارم جمع کرا دیا۔ فٹنس ٹیسٹ دینے گئیں تو داخلے کی خواہش مند طالبات کی تعداد دیکھ کر حیران رہ گئیں۔ تب انہیں اس ڈگری کی اہمیت کا کچھ احساس ہوا۔ماسٹرز کے بعد کالج میں سپورٹس انسٹرکٹر کی ملازمت مل گئی۔

اس دوران شادی ہو گئی ، جس کا تجربہ اچھا نہیں رہا۔ انہوں نے اس کو اپنے سر پر سوار کرنے کے بجائے اپنے بیٹے کی پرورش، اپنی ملازمت اور تعلیم پر توجہ مرکوز کر دی۔ وہ ہمہ وقت کچھ نیا سیکھنے کے لیے بے تاب رہتی ہیں۔ کسی بھی کھیل (اتھلیٹکس، ٹیبل ٹینس، والی بال، ہینڈ بال، ہاکی، کرکٹ وغیرہ) کے کوچنگ، امپائرنگ اور ریفرشر کورسز میں ضرور حصہ لیتی ہیں۔

1

اپنی 28 سالہ پیشہ ورانہ زندگی میں کوئی کورس نہیں چھوڑا۔ ان کے بقول، اس سے انہیں کھیل کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کا موقع ملتا ہے اور وہ زیادہ اچھے طریقے سے طلبہ کی تربیت کر سکتی ہیں۔  انہوں نے بی ایڈ بھی کیا اور اپنے شوق کی وجہ سے ایم اے انگریزی پارٹ ون کا امتحان بھی پاس کیا ہے۔ دوسرے حصے کا امتحان مصروفیات کی وجہ سے نہ دے سکیں۔ چند سال قبل لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی نے فزیکل ایجوکیشن میں ایم فل کلاسز کا آغاز کیا تو اس میں داخلہ لے لیا۔ اب اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ مکمل کر رہی ہیں۔

وہ اس تاثر کو غلط قرار دیتی ہیں کہ کھیلوں کی طرف آنے والی لڑکیاں پڑھی لکھی نہیں ہوتیں۔ ان کے بقول، ’’لڑکوں کی حد تک میں متفق ہوں کہ کھلاڑی لڑکے زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہوتے، لیکن آپ کسی بھی کھیل میں لڑکیاں دیکھ لیں: ٹینس، سکواش، بیڈمنٹن، کرکٹ، ٹیبل ٹینس، ہاکی، وغیرہ۔ لڑکیاں آپ کو کم از کم گریجویٹس اور ماسٹرز ملیں گی، تو کھیلوں میں لڑکیوں کی شرح تعلیم زیادہ ہے، شاید ہی کسی لڑکی کی تعلیم میٹرک تک ہو، ویسے میں نے کبھی سپورٹس میں ایسی لڑکی نہیں دیکھی جو صرف میٹرک تک پڑھی ہو۔‘‘  لاہور گریژن یونیورسٹی  کی کھیلوں میں کارکردگی کی بابت کہتی ہیں۔

’’ہائرایجوکیشن کمیشن کے تحت تقریباً 32 گیمز کرائی جاتی ہیں، جن میں ہماری یونیورسٹیوں کی رینکنگ ہوتی ہے، ہم ان میں 25  سے 27 کھیلوں میں حصہ لیتے ہیں اور ہمارا اچھا نتیجہ آتا ہے۔ یونیورسٹیوں میں سپورٹس ڈائریکٹر لڑکوں اور لڑکیوں کے الگ الگ ہوتے ہیں، میں شاید واحد ہوں جو لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کی کوچنگ کرتی ہوں۔ تین سال سے میری یونیورسٹی ایچ ای سی رینکنگ میں تقریباً چھٹے نمبر پر ہے جو ناقابل یقین بات ہے۔ نیت صاف اور اللہ تعالی پر یقین ہو تو کامیابی آپ کا مقدر بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے یہ بھی دعا کرتی ہوں کہ کبھی مغرور نہ بنوں، ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کی شکرگزار رہی ہوں۔‘‘

حمیرا فرح لڑکیوں اور لڑکوں کے انڈر سکسٹین، انڈر ٹوئنٹی ون اور دوسرے کرکٹ مقابلوں میں امپائرنگ کرتی ہیں۔ کہتی ہیں، لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کوکنٹرول کرنا آسان ہے، وہ عام طور پر قوانین کی پابندی کرتی ہیں، اس لیے ان پر جرمانہ بہت کم ہوتا ہے۔خواتین کے بین الاقوامی میچوں میں امپائرنگ کے سوال پر ان کا کہنا تھا: ’’متعلقہ بورڈز امپائرز کے نام آئی سی سی کو بھیجتے ہیں، جنہیں ان کے پینل کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔ جب پی سی بی خواتین امپائرز کے نام بھیجے گا تو آئی سی سی انہیں منتخب کر سکتا ہے۔ میں اتنا کہوں گی کہ ہمارے امپائرز کی صلاحیتیں، چاہے مرد امپائرز ہوں یا خواتین، کسی سے کم نہیں ہیں۔

جب بھی انہیں موقع ملا ہے انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو دنیا بھر میں ثابت کیا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی  ہو گا انشاء اللہ۔‘‘ آئی سی سی کی طرف سے پہلی پاکستانی خاتون امپائر بننے کا اعزاز حاصل کرنا ان کا خواب ہے۔ اس شعبے میں علیم ڈار کو اپنا آئیڈیل قرار دیتی ہیں۔

ان کا بیٹا کیمیکل انجینئر ہے، باسعادت بیٹے پر وہ اللہ کا شکر ادا کرتی ہیں۔وہ سمجھتی ہیں کہ بچوں کو ضرورت سے زیادہ آزادی نہیں دینی چاہیے۔ اس سے ان کے رویے خراب ہوتے ہیں۔ نوجوان کھلاڑیوں کو کہتی ہیں، ’’آپ کا اللہ پر یقین ہونا چاہیے، آپ کے حصے میں کوئی کامیابی ہے تو وہ آپ کو ملنی ہی ہے، بس آپ نے محنت اور صبر کرنا ہے۔ مستقل مزاجی سے کام لینا ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ایک ہفتہ یا مہینہ کیمپ میں شمولیت کے بعد ٹیم میں سلیکشن نہ ہو توآپ ہمت ہار دیں، کامیابی کے لیے کئی برسوں کی محنت درکار ہوتی ہے۔ محنت اور مستقل مزاجی کسی بھی کھلاڑی کے لیے بہت ضروری ہیں۔‘‘

یہ ’امپائرنگ‘ نہیں آساں۔۔۔

امپائرنگ واقعی بہت مشکل کام ہے، یہ صرف کہنے کی حد تک بات نہیں ہے۔ اگر ساڑھے نو بجے میچ شروع ہوتا ہے، ہمیں ڈیڑھ گھنٹہ پہلے رپورٹ کرنی ہوتی ہے۔ میچ سے ایک دن پہلے گراؤنڈ میں سہ پہر تین بجے سے پہلے تک رپورٹ کرنا پڑتا ہے۔ پچ کا معائنہ کرنا ہوتا ہے، سٹیڈیم کا سکور بورڈ، گراؤنڈ کے انتظامات وغیرہ کا جائزہ لینا ہوتا ہے۔ اگر پچ خراب ہے تو کیسے ٹھیک کرانا ہے اس کی ساری ہدایات ہم نے دینی ہیں اور یہ سب اپنی نگرانی میں کرانا ہے۔ پھر میچ والے دن ، ڈیڑھ گھنٹہ پہلے پہنچنا ہے۔ میچ ریفری نہیں ہے تو ہمیں دونوں کپتانوں کو قواعد کے بارے میں بریفنگ دینا ہوتی ہے کہ کس طرح کے قوانین لاگو ہوں گے، وقفہ کس ٹائم ہو گا وغیرہ۔

’پورے میچ کے دوران پریشر‘

امپائر پر پورے میچ کے دوران پریشر ہوتا ہے، مثال کے طورپر پہلا اوور ہے، پہلی دو گیندیں لیگ گارڈ پر لگی ہیں، امپائر ناٹ آؤٹ قرار دے دیتا ہے، بالر امپائر کو ایسی نظر سے دیکھتا ہے جیسے وہ کھا جائے گا۔ دونوں طرف کی ٹیموں کا فیصلے سے مفاد وابستہ ہوتا ہے۔ امپائر کو سکھایا جاتا ہے کہ اس نے سوچ سمجھ کے کوئی فیصلہ لینا ہے، جلدبازی نہیں کرنی۔ بسا اوقات ہمیں شک ہو جاتا ہے کہ ہمارا فیصلہ غلط تھا، اس صورت میں پریشانی اور دباؤ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔

درست فیصلہ دینے سے بھی زیادہ امپائر کا اصل امتحان یہ ہوتا ہے کہ اس کا کھلاڑیوں پر کنٹرول اور خود پر اعتماد کتنا تھا۔ اگر امپائر نے اعتماد سے فیصلہ دیا، اس نے کہیں بدحواسی کا مظاہرہ نہیں کیا اور کھلاڑیوں کو بھی خوش اسلوبی سے کنٹرول کیا تو کسی غلط فیصلے کے باوجود اس کی رپورٹ پر منفی تبصرہ نہیں کیا جائے گا، کیونکہ امپائر انسان ہے، اس سے بہرحال غلطی ہو سکتی ہے اور ہوتی ہے۔ لیکن جان بوجھ کر کوئی امپائر غلط فیصلہ نہیں دیتا۔

’ٹی وی امپائر پر زیادہ دباؤ‘

جب سے ریفر سسٹم آیا ہے، گراؤنڈ امپائر پر دباؤ کچھ کم ہوا ہے۔ اسے شک ہو تو وہ سافٹ سگنل دے کر ٹی وی امپائر سے رجوع کرتا ہے۔ اب سب سے زیادہ پریشر والا کام ٹی وی امپائر کا ہے۔ اس لیے ٹی وی پر بیٹھنے سے امپائرز گھبراتے ہیں،وہ چاہتے ہیں گراؤنڈ میں چلے جائیں اور وہاں اپنی طرف سے جو بھی صحیح یا غلط فیصلہ دے دیں۔ ٹی وی امپائر نے ہر پہلو کو دیکھنا ہے، اس کا کام زیادہ باریکی والا ہے۔

’ہر میچ، امپائر کا امتحان‘

فرسٹ کلاس، ڈومسیٹک، ہر سطح پر امپائرز کی کارکردگی کو پرکھا جاتا ہے۔ میچ ریفری ہماری کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا ہے، ہماری رپورٹ میچ کے ایک دن پہلے سے مرتب ہونا شروع ہو جاتی ہے کہ امپائر نے وقت پر رپورٹ کیا، اس کے کپڑے کیسے تھے اور اسے قواعد کا علم تھا یا نہیں؟ آپ کہہ لیں کہ ہر میچ میں ہمیں ایک امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔