ستم تو ہے

شہلا اعجاز  بدھ 18 دسمبر 2019

بھارت میں خواتین کے ساتھ ستم ظریفی عروج پر پہنچ چکی ہے، گزرتے ہر پانچ منٹ کے وقفے کے بعد وہاں ایک ریپ کی واردات ہو رہی ہے، دنیا بھر میں اس قبیح جرم میں بھارت کا نمبر تیسرا آ گیا ہے۔ جہاں خواتین غیر محفوظ ہیں، وہاں خواتین کے برابری کے حقوق اور ترقی کی باتوں کے جھنڈے لگائے جا رہے ہیں۔

بیٹی پڑھاؤ، بیٹی بچاؤ ایک اچھا سلوگن ہے لیکن اس پر کس حد تک عمل ہو رہا ہے۔ اس حالیہ کیس میں جہاں حیدرآباد میں ایک اٹھائیس سالہ جانوروں کی ڈاکٹر اس جرم کی نذر ہوئی اور پولیس محض تھانوں کی حدود کے چکر میں اس کی جان بچانے میں نا کام رہی۔ مظلوم لڑکی کے گھر والے ایک سے دوسرے تھانے کے چکر لگاتے رہے اور مجرموں کو اس اثنا میں اتنا وقت آرام سے مل گیا کہ انھوں نے اس کی لاش کو آگ کی نذر کر دیا۔

اس کیس پر دہائیاں دی جا رہی تھیں تب ہی ایک اور کیس کی صدا بلند ہوئی۔ سچ تو یہ ہے کہ وہاں خواتین اس حد تک غیر محفوظ ہیں کہ بقول ایک بھارتی ٹی وی اداکارہ کے یہاں خاص کر مغربی ممالک سے آئی خواتین فنکارائیں کام کرتے ہی دوڑ جاتی ہیں، وہ یہاں (بھارت) میں قیام کرنے کو خوفناک قرار دیتی ہیں۔ یہ معاملہ تو شوبز کا ہے جب کہ کھیل کے میدان میں بھی کچھ اسی طرح کا ہوا جب سوئٹزر لینڈ سے خواتین کھلاڑیوں کے ایک وفد نے بھارت آنے سے انکار کر دیا اور وجہ بھارت میں خواتین کا غیر محفوظ ہونا قرار پایا جس کی خبریں دنیا بھر میں گونج رہی ہیں۔

سننے میں آیا تھا کہ حیدرآباد میں نوجوان ڈاکٹر کے کیس کے بعد شاید بھارتی حکومت سنجیدگی سے اس معاملے کو قانون کی نظر سے دیکھتے ہوئے ایسا اقدام ضرور کرے گی کہ جس سے مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے افراد کو اس جرم سے دور رکھا جا سکے گا لیکن ایک نئی کہانی نے جنم لیا اور آخرکار فلمی انداز میں پولیس نے خود ہی ان چاروں مجرموں کو انکاؤنٹر میں ٹھکانے لگا دیا۔

پولیس جو کسی حد تک اسی تماشائی پارٹی کا چہرہ ہے برداشت نہ کر سکی کیونکہ بھارت میں ایسا ہوتا ہی آیا ہے کہ اس طرح کے مجرم برسوں بعد بھی گلے میں ہار پہن کر سزا بھگت کر لوٹ آتے ہیں۔ پولیس کی اس کارروائی کو پورے ملک میں اس طرح سے سراہا گیا کہ خواتین اور اسکول کالج کی لڑکیوں اور بچیوں نے انھیں مٹھائیاں کھلائیں اور بھائی بندی کے رشتے میں باندھا۔ اب جو عدالتی کارروائی کا کردار ہے وہ سالوں ایک سسٹم کے تحت چلتا رہے گا۔

راہول گاندھی نے اسی سسٹم کے تحت مودی سرکار کو لتاڑ پلائی تو ایک سیاسی محاذ آرائی کا نیا پہلو انھیں مل گیا۔ مودی کا نعرہ میک اِن انڈیا کو راہول گاندھی کے ریپ اِن انڈیا کہنے پر جو یلغار اٹھی ہے اس سے یہی لگ رہا ہے کہ مودی سرکار اس سلسلے میں قانون سازی کرنے سے کترا رہی ہے۔ گو برسوں پہلے بس میں اجتماعی زیادتی کے کیس میں نربھایا نام کی تئیس سالہ طالبہ کے مجرموں کو بھارتی اعلیٰ عدالت کی جانب سے سزائے موت سنا دی گئی ہے۔ نئی دہلی کے اس مقدمے کے فیصلے پر جہاں خواتین و لڑکیوں میں سکون و اطمینان پایا جاتا وہیں یقینا مجرمانہ ذہنیت کے لوگوں کو اپنی گردنوں پر پھانسی کی رسی محسوس ہو رہی ہے۔

پاکستان میں بھی خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی صورت حال تشویشناک ہے۔ لاہور کے کاشانہ ہوا اسکینڈل میں پانچ سال میں پچیس بچیوں کی جبری شادیوں کا انکشاف، ڈیفنس سے اغوا ہونے والی دعا منگی کی ڈرامائی واپسی، جعلی پیر نے خرچوں سے بچنے کے لیے دو سوتیلے بچوں کا قتل کر دیا اور اسی طرح کی خبریں آئے دن اخبارات کی خبریں اور نیوز چینلز کی بریکنگ نیوز بنتی رہتی ہیں۔ یہ ہماری روزمرہ کی زندگی میں اس طرح سے شامل ہو رہا ہے کہ ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ کیا یہ درست ہے؟ ظاہر ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہے ایک اسلامی ریاست میں اس طرح کے مجرمانہ فعل کی کوئی گنجائش ہی نہیں لیکن پھر بھی سلو پوائزن کی مانند ایسا ہوتا جا رہا ہے۔

دنیا بھر میں خواتین کے ساتھ ہراسانی اور مجرمانہ فعل کے واقعات بتدریج بڑھتے جا رہے ہیں، کاشانہ ہوم اسکینڈل میں بچیوں کی شادیوں سے متعلق سنا، یقینا چونکا دینے والا انکشاف تھا لیکن شادی کا لفظ جو اپنے اندر ایک روح رکھتا ہے کچھ اسی طرح کا ہے جو ایک جعلی پیر نے اپنی بیوی کے بچوں کے ساتھ کیا۔

معاملات مختلف نوعیت کے ضرور ہیں لیکن استحصال عورت کا ہی ہوا جس میں قتل جیسا جرم انتہائی سنگین نظر آ رہا ہے۔ آج سے برسوں پہلے رات کو ہونے والی ایک گھناؤنی مجرمانہ کارروائی جس میں تین جانیں گئیں، ایک بوڑھا باپ جو اپنی دو جواں سال بیٹیوں کے ہمراہ کسی شادی کی تقریب سے لوٹ رہا تھا، ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے باعث تینوں کراچی کے ایک آبادی کی جانب بڑھتے نسبتاً سنسان علاقے کی سڑک پر رواں دواں تھے۔

بیٹیاں پر سکون تھیں کہ ان کے ہمراہ ان کا باپ موجود ہے، اسی مسافت میں ایک گاڑی رکتی ہے اور انھیں لفٹ کی پیش کش کرتی ہے باپ اپنی بیٹیوں کے ہمراہ غالباً یہ سوچ کر ان کی لفٹ کو قبول کرتے ہیں کہ نجانے اس سنسان علاقے میں کوئی حادثہ نہ ہو جائے کیونکہ آج بھی اس علاقے میں کتوں کی بہتات ہے لیکن انھیں خبر نہ تھی کہ آوارہ کتوں سے زیادہ خوفناک وہ آوارہ اوباش انسان تھے جنھوں نے انھیں اخبارات میں سرخیاں بنا کر ایک دکھی داستان رقم کر دی۔ کچھ دور جا کر ہی باپ کو تو چلتی تیز گاڑی سے دھکا دے کر گرا دیا گیا اور حوا کی بیٹیاں۔۔۔۔۔۔نجانے کیوں قلم خود بخود رک جاتا ہے۔ انسانیت کی تذلیل کا یہ پہلو اس قدر دل گرفتہ ہے کہ جسے سوچ کر بھی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔

وقت گزر ہی جاتا ہے اوراق مٹی تلے دب جاتے ہیں لیکن یادیں کسی نہ کسی طرح دستک دیتی رہتی ہیں، دعا منگی کے لیے پورے ملک سے کس قدر دعائیں کی گئی ہونگی کہ کہانیوں کو دہراتے اذیت ہوتی ہے اور جب اس کے لوٹنے کی خبر سنی تو شکر رب العزت کا ۔۔۔۔ نجانے کتنے دلوں سے ابھرا ہو گا۔

ابھی معصوم زینب کا غم مندمل نہ ہوا تھا کہ پھر کسی اور بچی کی صدائیں سنی گئیں پھر نمرتا کا مسکراتا چہرہ ابھر کر آیا ، ایک کے بعد ایک حادثات دل میں چٹکی لیتے ہیں اور تو اور بچیوں کے ساتھ بچے بھی غیر محفوظ ہوتے جا رہے ہیں ، کیا یہ ہم سب کے لیے المیہ نہیں ہے؟ شاید سخت قانون کے علاوہ تربیت کی بھی بہت ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔