پیراگراف 66 اور ریسلنگ

محمد فیصل سلہریا  ہفتہ 28 دسمبر 2019
متحارب فریق جب آپس میں برسر پیکار ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کو چت کرنے کےلیے ہر حربہ آزماتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

متحارب فریق جب آپس میں برسر پیکار ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کو چت کرنے کےلیے ہر حربہ آزماتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان تو ایک حقیقت ہے اور بزرگوں کے اس کے متعلق اقوال اور پیش گوئیاں مدنظر رکھیں تو مملکت خداداد ہے۔ بلکہ ابو انیس محمد برکت علی لدھیانویؒ کی معروف پیش گوئی ’’اس ملک کی ہاں اور نہ میں اقوام عالم کے فیصلے ہوا کریں گے‘‘ ان خرافات کو برداشت کرنے کا حوصلہ بھی دیتی ہے جو آئے روز اس ملک میں وقوع پذیر ہوتی رہتی ہیں۔

سچ پوچھیے، یہ ملک تو نہیں اس ملک کے رہنے والے طرفہ تماشا ہیں۔ اب سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس ہی کو لیجئے۔ تین نومبر 2007 کے اقدام پر سزائے موت کے فیصلے کے بعد کیا یہ مطلب اخذ کیا جاسکتا ہے کہ 12 نومبر 1998 کا اقدام جائز تھا؟ ویسے تو یہ مطلب 24 جون 2013 ہی کو اخذ کرلینا چاہیے تھا، جب اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ سابق آرمی چیف پرویز مشرف کے 3 نومبر 2007 کے اقدامات غیر آئینی تھے، اس لیے حکومت سابق صدر کے خلاف غداری کا مقدمہ چلائے گی۔ گویا 12 نومبر 1998 کے اقدامات ’’آئینی‘‘ تھے، جس سے براہ راست سب سے زیادہ متاثر ہونے والی شخصیت پاکستان میں اگر تھی تو وہ نواز شریف خود تھے۔ ایمرجنسی کے دنوں میں وہ سعودی شاہی خاندان کی مہمانی سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ انہیں اپنی موجودگی میں حکومت کا تختہ الٹنے سے زیادہ اپنی غیر موجودگی میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا قلق تھا۔ ہے ناں طرفہ تماشا:
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

کیا کسی کا وردی میں حکومت کرنا کسی ایمرجنسی سے کم ہے؟ کیا 1998 سے لے کر نومبر 2007 تک اس ملک میں مثالی جمہوریت تھی کہ ایمرجنسی کا اقدام کلنک کا ٹیکہ بن گیا۔ اتنا غصہ۔ الامان والحفیظ۔

بھارت میں پارلیمانی جمہوریت کے نتیجے میں منتخب ہونے والی وزیراعظم اندرا گاندھی نے بھی 18 ماہ کےلیے ایمرجنسی نافذ کی تھی۔ ان پر تو غداری کا مقدمہ چلانے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔ اس لیے کہ بھارتی آئین کا آرٹیکل 352 انہیں یہ راستہ مہیا کرتا تھا جو انہوں نے اختیار کیا۔ بالکل اسی طرح جیسے پاکستانی آئین کا آرٹیکل 232 صدر کو یہ اختیار دیتا ہے۔ پرویز مشرف نے تو اس اختیار کا براہ راست استعمال کیا۔ اندرا گاندھی کو تو مذکورہ آرٹیکل جگانے کےلیے صدر جمہوریہ فخرالدین علی احمد کا سہارا لینا پڑا۔

ہمارے ہاں تو ایمرجنسی اتنی مختصر اور بے ضرر سی تھی کہ لوگوں کو کچھ تشنگی سی محسوس ہوئی۔ اکثر یہ کہتے ہوئے پائے گئے، بھئی یہ موئی ایمرجنسی کیا ہوتی ہے؟ پوچھنے تک بھی معاملہ میڈیائی چرچے کے باعث پہنچا۔ اور میڈیا تک کیوں نہ پہنچتا، جج صاحبان جو محصور ہوگئے تھے۔ سوا ماہ نافذ رہنے والی اس ایمرجنسی میں 3500 افراد گرفتار ہوئے۔ جن میں زیادہ تر عدلیہ بحالی تحریک کے کارکن شامل تھے، جنہیں جلد رہا بھی کردیا گیا۔ یہ بالکل اسی طرح کی کارروائی تھی جو حکومت مخالف تحریک کو دبانے کےلیے کی جاتی ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ یہاں تحریک کی قیادت جج صاحبان کے پاس تھی۔ اس لیے ان سے نمٹنے کےلیے ایمرجنسی کی چھتری تلے کارروائی کی گئی۔

یہ دنیا کا عام چلن ہے، دو متحارب فریق جب آپس میں برسر پیکار ہوتے ہیں تو جو ایک کے بس میں آئے وہ دوسرے کو چت کرنے کےلیے آزماتا ہے۔ کہنا یہ مقصود ہے کہ قبل از ایمرجنسی اور مابعد ایمرجنسی عام پاکستانی کے معمولات زندگی میں کوئی تغیر نہیں آیا۔ آتا بھی کیسے، وہ متحارب فریق نہیں تھے۔ وہ تو ہمیشہ کی طرح ناظر تھے۔ اور اس بار تو ناظرین نے یہ دنگل پرویز مشرف دور میں پر پرزے نکالنے والے برقی میڈیا کی بدولت لمحہ بہ لمحہ گھر بیٹھے ٹی وی اسکرینوں پر ہی دیکھا۔ ایک ناظر کی حیثیت سے جان کی امان پاکر یہ کہنے کی جسارت چاہتے ہیں کہ ایک فریق کو جب موقع ملا تو اس نے علامتی طور پر ہی سہی لاش کو لٹکا کر اپنی شرح صدر کرلی۔

ویسے آپس کی بات ہے کہ ٹرپل ون بریگیڈ حرکت میں آکر آئین کے آرٹیکل 6 کو بھی متحرک تو کردیتی ہے مگر غداری کا پھندا کس کے گلے میں ڈالیں گے، یہ بھی نظری بحث کی طرح علامتی معاملہ ہی سمجھیں۔ عملی صورت حال یہ ہے کہ 12اکتوبر 1998 کو امین بازار سرگودھا میں بٹنے والی مٹھائی کھاکر ہمیں معلوم ہوا تھا کہ جنرل پرویز مشرف مسند اقتدار پر فائز ہوچکے ہیں۔ مٹھائی کھلانے اور کھانے والے بھی غداری میں شریک ہوئے؟ کیا سیاستدان اس پھندے کی گرفت میں نہیں آئیں گے جو ٹرپل ون بریگیڈ سے حرکت میں آنے کی التجائیں کرتے ہیں۔ کوئی ماہر آئین ہمیں بتائے گا کتنی شقیں تاحال حرکت میں نہیں آئیں؟ محض آئینی کتاب کے اندر مدفون ہیں۔ ان کے دم گھٹنے کا ذمے دار کون قرار پائے گا؟

اس ملک میں قرآن و سنت کا نفاذ ہونا تھا، ہر شہری کی تعلیم و صحت ریاست کے ذمے تھی، آئین کے نفاذ کے دس سال بعد اردو کو اس ملک کی دفتری زبان کا درجہ ملنا تھا۔ خیر چھوڑیئے! گردنیں زیادہ ہیں، پھندے کےلیے رسی کم پڑجائے گی۔ فی الحال جوڈیشل کونسل سے ریسلنگ دیکھنے پر پابندی کی درخواست کیجئے تاکہ ہمارے عدالتی فیصلے پیراگراف 66 سے محفوظ رہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد فیصل سلہریا

محمد فیصل سلہریا

بلاگر روزنامہ ایکسپریس لاہور سے بطور سینئر سب ایڈیٹر وابستہ ہیں۔ حلقہ ارباب ذوق لاہور اور ادبی کمیٹی لاہور پریس کلب کے رکن بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔