ایران امریکا تنازعہ: پاکستان کےلیے دوراہا اور تصویر کا دوسرا رُخ

حسیب اصغر  پير 6 جنوری 2020
ایران امریکا تنازعہ پہلی نظر میں جتنا سادہ دکھائی دیتا ہے، اصل میں اتنا ہی پیچیدہ اور مشکل ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ایران امریکا تنازعہ پہلی نظر میں جتنا سادہ دکھائی دیتا ہے، اصل میں اتنا ہی پیچیدہ اور مشکل ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ایرانی پاسدران انقلاب کی ذیلی تنظیم قدس فورس کے کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی کی عراق میں امریکی حملے میں شہادت نے جہاں خطے کو شدید خطرات میں دھکیل دیا ہے وہیں باہم برادر اسلامی ممالک، بالخصوص پاکستان کےلیے بھی بڑی پریشانیاں پیدا ہوگئی ہیں کیونکہ پاکستان کا سعودی عرب کے حوالے سے ایک خاص مقام ہے اور یہ مقام وہاں موجود مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات کے باعث ہے۔

سعودی عرب کے ایران کے ساتھ اختلافات کے بارے میں ہر خاص و عام بخوبی واقف ہے۔ امریکا نے عراقی ایئرپورٹ پر جنرل قاسم سلیمانی کو شہید کرنے کے بعد سب سے پہلے جس ملک سے رابطہ کیا وہ سعودی عرب ہی تھا۔ گویا امریکا اس فارمولے پر عمل کررہا ہے کہ دشمن کا دشمن، بہترین دوست ثابت ہوسکتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے 4 جنوری 2020 کے روز اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ انہوں نے آج سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ٹیلی فون پر گفتگو کی اور امریکی کارروائی اور خطے میں ایرانی حکومت کی فوجی اشتعال انگیزی کے حوالے سے مشترکہ تحفظات پر بات چیت کی۔ ان کے بقول ’’صدر ٹرمپ نے خطے میں امریکیوں کے تحفظ کےلیے فیصلہ کن دفاعی کارروائی کا دلیرانہ فیصلہ کیا۔‘‘

یہ بلاگ بھی پڑھیے: ایران پر امریکی حملہ: اصل ہدف پاکستان؟

سعودی ولی عہد کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے جس اہم شخصیت سے بات کی وہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تھے۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں انہوں نے لکھا کہ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے بعد پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ٹیلی فون پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا گیا کہ ایران کے اقدامات پورے خطے کو غیر مستحکم کررہے ہیں، لہذا امریکا اپنے لوگوں اور مفادات کا تحفظ کرے گا۔ قاسم سلیمانی کو نشانہ بنانے کا فیصلہ بھی امریکیوں کے تحفظ کےلیے کیا۔

مشرق وسطیٰ کے علاوہ جنوبی ایشیا بھی انتہائی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوگیا ہے گو کہ ذہین دماغوں کا کہنا ہے کہ امریکا، ایران سے براہ راست جنگ نہیں کرے گا لیکن اگر امریکا ایران کے خلاف محدود پیمانے پر کارروائی کرتا ہے تو اس صورتحال میں اسے پاکستان کی اشد ضررت پڑے گی۔ یعنی یہ کہ امریکا کی جانب سے پاکستان پر دباؤ ڈالا جائے گا کہ وہ اپنے علاقے ایران کے خلاف کارروائی کےلیے استعمال کرنے کی ’’سہولت‘‘ دے۔ ظاہر ہے کہ پاکستان کی بلوچستان سے سرحد ایران کے ساتھ ملتی ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر پاکستان ایران کے خلاف اپنے فوجی اڈے امریکا کے حوالے کرتا ہے تو پاکستان میں ہونے والی خانہ جنگی سے پاکستان کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچاسکتی۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: بھارتی چوہے اوراسرائیلی کیڑے

اور اگر پاکستان فوجی اڈے نہیں دیتا تو ایسی صورتحال میں سعودی عرب کا کیا کردار ہوسکتا ہے؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملائیشا میں ہونے والے سمٹ میں پاکستان کی عدم شرکت سعودی دباؤ ہی کا نتیجہ تھی جس کے حوالے سے ترک صدر نے جو انکشافات کیے وہ پاکستان کی ناقص خارجہ پالیسی کا واضح ثبوت ہیں۔ یعنی سعودی عرب یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ پاکستان ایران کے خلاف اپنے فوجی اڈے دینے سے انکار کرے اور یوں پاکستان ایک ایسی صورتحال میں ہے کہ اس وقت معمولی سی غلطی بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گی۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: پاکستان؛ ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کی راہ میں بڑی رکاوٹ

یہاں سابق ڈی جی آئی آیس آئی اور جنوبی ایشیا میں ماہر عسکریات سمجھے جانے والے مرحوم جنرل ریٹائرڈ حمید گل کی ایک بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ امریکا ایران پر کبھی بھی حملہ نہیں کرے گا۔ مرحوم حمید گل کے اس بیان کو حالیہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے بیان سے مزید تقویت ملتی ہے کہ جب امریکا نے ایران پر حملوں کی دھمکی دی اور ایران سے درپیش ممکنہ خطرے سے نمٹنے کےلیے اپنے لڑاکا طیارے اور طیارہ بردار بحری بیڑے کو مشرقِ وسطی میں بھیجتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف تند و تیز بیانات جاری کیے تو یوں محسوس ہورہا تھا جیسے اب جنگ ہوئی کہ تب جنگ ہوئی۔

تاہم ان سب دھمکیوں کے باوجود ایرانی سپریم لیڈرنے قوم سے خطاب کرتے ہوئے امریکی دھمکیوں پر معمولی سا مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ اطمینان رکھیے، جنگ نہیں ہوگی۔ اس مسکراہٹ میں اتنا اطمینان تھا جسے کوئی خاص نام نہیں دیا جاسکتا۔ صورتحال اب بھی ویسی ہی ہے بلکہ اس سے بھی خطرناک ہے، جب امریکا نے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے بعد ایران کے سب سے ہردلعزیز شخص کو فضائی حملے میں شہید کیا۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: ’گریٹر اسرائیل‘ کی قیمت: امریکی تباہی اور عالمی بربادی

البتہ امریکی دانشور اور سیاسی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ ایران کے ساتھ جنگ امریکا کی بقا کےلیے انتہائی خطرناک ثابت ہوگی۔ اگر یہ تمام زمینی حقائق درست ہیں تو گہری بات یہ ہے کہ امریکا اتنی بڑی حماقت کیوں کررہا ہے؟ اس کے درپردہ کیا مقاصد ہیں؟ اسے سمجھنے کےلیے ہمیں تصویر کا دوسرا رخ دیکھنا ضروری ہے۔

امریکا اگر ایران کے خلاف ہے تو اس کے مقاصد کیا ہیں؟ امریکا کو ایران سے کوئی خطرہ نہیں تو پھر یہ سب کیوں کیا جارہا ہے کہ امریکی وزیرخارجہ کہتے ہیں کہ امریکا نے جنرل قاسم سلیمانی کو امریکیوں کی حفاظت کےلیے شہید کیا۔ کیا ایران امریکا کو واقعی نقصان دے سکتا ہے؟ یہ انتہائی فضول سی بات ہے۔

اب توجہ چاہوں گا تصویر کے دوسرے رخ کی جانب؛ یوں میں اپنی بات کو بہتر انداز میں سمجھانے کی کوشش کروں گا۔

ہر ملک کی خارجہ پالیسیاں بعض اندرونی، قومی اور بین الاقوامی عوامل کے تابع ہوتی ہیں جن کے مجموعی اثرات اور عمل و ردِعمل کا حاصل ’’خارجہ سیاست‘‘ (فارن پولیٹکس) کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ امریکا کی خارجہ سیاست بھی کئی عوامل کے تابع ہے اور مذکورہ بالا تین سطحوں پر موجود مختلف مؤثر قوتوں کے عمل اور ردعمل کا نتیجہ ہے۔ انٹرنیشنل ریلیشنز (بین الاقوامی تعلقات) کے علم میں پائے جانے والے نظریات کے مطابق امریکی خارجہ سیاست کا مطالعہ کرنے میں ایک اہم سطح اس ملک کی اندرونی سطح ہے۔ اندرونی سطح پر امریکی خارجہ سیاست پر اثرانداز ہونے والے مختلف قسم کے عوامل اور قوتیں پائی جاتی ہیں جن میں دو بڑی امریکی سیاسی جماعتیں ری پبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی، معروف سیاست دان اور لیڈرز، کانگریس، رائے عامہ، بڑے بڑے کارخانوں کے مالکان، تھنک ٹینکس اور پریشر گروپس کے نام قابل ذکر ہیں۔ لیکن جب مشرق وسطی میں امریکی خارجہ پالیسیوں کا ذکر آتا ہے تو اس زمرے میں سب سے زیادہ اثرانداز ہونے والی اندرونی قوتیں یہودی لابیز ہیں جو دوسرے عوامل سے زیادہ واضح دکھائی دیتی ہیں۔

اسرائیل کے پاس امریکی پالیسیوں پر اثرانداز ہونے کے کئی ذرائع موجود ہیں جن میں سے سب سے اہم اور طاقتور ذریعہ امریکا میں موجود یہودی لابیز ہیں۔ یہ صہیونی لابیز دو طرح کی ہیں: ایک رسمی اور دوسری غیررسمی۔ رسمی لابیز کی مثال وہ منظم یہودی اور صہیونی تنظیمیں ہیں جو امریکی پارلیمنٹ کے فیصلوں اور امریکی حکام پر براہ راست دباؤ ڈال کر ان پر براہِ راست اثرانداز ہوتی ہیں جن میں سے سب سے اہم دو تنظیمیں یعنی AIPAC (امریکا اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی ) اور AJ Congress (امریکن جیو:ش کانگریس) ہیں۔ غیر رسمی یہودی لابیز ان یہودی ووٹرز یا اہم حکومتی مناصب پر موجود اعلی سطحی یہودی عہدیداروں پر مشتمل ہے جو امریکی سیاست میں اہم کردار کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔

یہاں میں امریکا کی اہم ذمہ دار شخصیت کا حوالہ دینا چاہوں گا جو اس صورتحال کو مزید کھول کر بیان کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ فلپ جیرالڈی جو امریکا کی انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے ) اور انسداد دہشت گرد ی کے سابق اعلیٰ افسر ہیں اور حالیہ کونسل برائے قومی مفاد کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بھی ہیں جبکہ وہ مختلف اخبارات و جرائد میں کالم بھی لکھتے ہیں۔

فلپ جیرالڈی نے ’’نیشنل سمٹ‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے انتہائی ذمہ داری سے کہا کہ مستقبل قریب میں ’’اگر امریکا ایران سے جنگ کرتا ہے تواس کی وجہ یہ نہیں ہوگی کہ تہران امریکا کےلیے حقیقتاً کوئی خطرہ ہے، بلکہ اس کی وجہ اسرائیل ہوگا اور اسرائیل کی امریکا میں موجود طاقتور وہ لابی ہوگی جو مصنوعی تاثر پر مبنی وہ جواز بنانے اور اس پر قائل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہوگی جس سے جنگ ہوسکے۔‘‘ اس اہم تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’’اسرائیل نہ صرف امریکا کا اتحادی نہیں بلکہ درحقیقت یہ امریکا کا دوست بھی نہیں۔ یہ امریکا کو تباہ کررہا ہے۔ اس مقصد کےلیے اسرائیل امریکی کانگریس اور میڈیا کی بے محابہ طاقت و رسائی کو ایسی پالیسیوں کی تشکیل کےلیے استعمال کررہا ہے جو امریکا کےلیے تباہ کن ہیں۔‘‘ صورتحال کا گہرائی سے جائزہ لیں تو بخوبی اندازہ ہوگا کہ شیطانی صہیونی دماغ، بدمست امریکی ہاتھی کو اپنے مذموم مقاصد کےلیے استعمال کر رہا ہے۔ امریکی کانگریس نے حال ہی میں امریکا اسرائیل اسٹریٹیجک شراکت داری ایکٹ منظور کیا ہے، جس میں اسرائیل کو ویزا استثنیٰ بھی دیا گیا ہے۔

اسرائیلی آزادانہ طور پر امریکا آجاسکیں گے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت کسی بھی امریکی شہری کو ویزا دینے سے انکار کرنے کی مجاز ہوگی۔ یہ وہ استحقاق ہے جو کسی اور ملک کو نہیں دیا گیا۔

یہودی لابیز کے ذریعے کیے جانے والے اقدامات پر اب امریکا میں بھی بے چینی دیکھنے میں آرہی اور اعلی ترین امریکی دانشوروں میں یہ احساس زبان پا رہا ہے کہ اسرائیل نے امریکا کو دوستی کی شراب پلا کر دراصل دشمنی کی ہے اور ساری دنیا میں اپنے مفادات کےلیے چارے کے طورپر استعمال کیا ہے؛ اور یہ سلسلہ اب رکنا چاہیے کیونکہ اس کے نتیجے میں پوری دنیا میں امریکا کےلیے سنگین ترین مسائل پیدا ہوچکے ہیں۔

اب واپس آتے ہیں دوبارہ ایران اور امریکی دھمکیوں کی جانب۔ جب امریکا نے ایران کے خلاف اپنے بحری بیڑے کو مشرق وسطیٰ کے سمندروں میں اتارا تو پورے مشرق وسطیٰ میں بے چینی پھیل گئی۔ تاہم ایران کے سپریم لیڈر نے اس امریکی دھمکی کی دھجیاں ایک مسکراہٹ میں بکھیرتے ہوئے کہا کہ مطمئن رہیے، جنگ نہیں ہوگی کیونکہ امریکا اس کے انجام سے بخوبی واقف ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر یہ سب کیا ہے اور کیوں ہے؟

اس بارے میں سنجیدہ سوچ بچار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

حسیب اصغر

حسیب اصغر

بلاگر میڈیا ریسرچر، رائٹر اور ڈاکیومنٹری میکر ہیں جبکہ عالمی تعلقات اور سیاست میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔