خواجہ خورشید انور

عبد الوحید مزاج  اتوار 26 جنوری 2020
برصغیر کے عظیم اور نام ور موسیقار۔ فوٹو: فائل

برصغیر کے عظیم اور نام ور موسیقار۔ فوٹو: فائل

میانوالی: کمال دین اور جما ل دین تجارت کی غرض سے کشمیر سے ہجرت کرکے لاہور آئے تو اس خاندان میں خواجہ فیروزالدین جیسے انسان نے بھی جنم لیا جو بعدازاں پیشے کے اعتبار سے بیرسٹر اور مسلم لیگ ک رکن ہونے کے علاوہ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے۔

وہ موسیقی کے  قدردان بھی تھے تاہم ان کے بیٹے خواجہ خورشید انور کا شمار دنیا کے عظیم و نامور موسیقاروں میں ہوتا ہے جو 21 مارچ 1912بروز جمعرات شعر و نغمہ کی سرزمین میانوالی کے محلہ بلوخیل میں پیدا ہوئے والد خواجہ فیزوزالدین اس وقت میانوالی میں وکالت کرتے تھے۔

دادا خواجہ رحیم بخش ڈپٹی کمشنر تھے جب کہ نانا شیخ عطا محمد میانوالی میں سرجن تعینات تھے جو قومی شاعر سر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ کے سسر (کریم بی بی کے والد) تھے۔ اس طرح علامہ محمد اقبال ؒ خواجہ خورشید انور کے خالو تھے۔ خواجہ خورشید انور نے 1928میں سینٹرل ماڈل اسکول لاہور سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور 1929میں گورنمنٹ کالج کے شعبہ سائنس میں داخلہ لیا۔ تھرڈ ایئر میں پہنچے تو ان کی ملاقات فیض احمد فیض سے ہوگئی جو اس زمانے میں مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کرکے کالج میں داخل ہو ئے تھے۔

دونوں آرٹس کے شعبے میں تھے ان دنوں ہندوستان میں سیاسی ہیجان کا عالم تھا ملکی سیاست میں تشدد داخل ہوچکا تھا۔ جلیاں والا باغ کے قتل عام اور خلافت تحریک کے بعد بھگت سنگھ کی تحریک زوروں پر تھی اور نوجوان اس طرف مائل ہو رہے تھے۔

خواجہ خورشید انور بھی اس تحریک کا حصہ ہو گئے اور اس طرح آگے بڑھے کہ کالج کی لیبارٹری میں دیسی ساخت کے بم بناتے ہوئے دیکھ لیے گئے اور انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ تاہم والدین کے تعلقات اور خاندانی اثرورسوخ کی وجہ سے اگرچہ جلد رہا کردیے گئے مگر اس واقعے کے بعد ان کا دل اچاٹ ہو گیا اور والد خواجہ فیروز الدین کی بیٹھک میں انڈین کلاسیکل اور نیم کلاسیکل موسیقی کے ریکارڈ سے اپنے ذوق کو تسکین پہچانے لگے۔ جہاں اس بیٹھک میں استاد توکل حسین خان ، استاد عبد الوحید خان، استاد عاشق علی خان اور چھوٹے استاد غلام علی خان آتے تھے میزبانی کے فرائض خواجہ خورشید انور اور فیض احمد فیض سرانجام دیتے۔

والد نے خواجہ خورشید انور کو استاد توکل حسین خان کی شاگردی میں دے دیا تو موسیقی سیکھنے کے ساتھ انہوں نے پڑھائی بھی جاری رکھی اور 1935میں پنجاب یونی ورسٹی میں ایم اے فلسفہ کے امتحان میں ٹاپ کیا اور گولڈ میڈل کے مستحق قرار پائے۔ اس موقع پر پنجاب یونی ورسٹی کا سالانہ جلسہ تقسیم اسناد تھا انہیں طلائی تمغہ دیا جانا تھا۔ انگریز چانسلر اس وقت مہمان خصوصی تھے اور حیرت کی بات ہے کہ عین اسی وقت خواجہ صاحب لاہور میں ایک محفل موسیقی میں شرکت کر رہے تھے جس میں ہندوستان بھر کے ممتاز موسیقار اور کلاکار حصہ لے رہے تھے۔ کمپیئر نے جب طلائی تمغے کے لیے خواجہ صاحب کو بلایا تو وہ تو وہاں موجود نہ تھے۔ اس موقع پر انگریز چانسلر نے کہا کہ جس نے بھی یہ پوزیشن لی ہے وہ صحیح معنوں میں فلسفی ہے۔ دراصل انہیں کسی اور چیز سے زیادہ موسیقی سے شغف تھا اس کے باوجود انہوں نے ایم اے فلاسفی میں ہندوستان میں اول اور آئی سی ایس میں نمایاں ترین پوزیشن حاصل کی۔

خواجہ خورشید انور خان صاحب خواجہ توکل حسین خان سے موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل کرنے کے بعد 1939میں آل انڈیا ریڈیو دہلی سے منسلک ہو گئے اور وہاں پر میوزک پروڈیوسر کے طور پر انجام دہی کرنے لگے۔ 1940میں اے آر کاردار ممبئی میں پنجابی فلم کڑھائی بنا رہے تھے تو ان کی نگاہ خواجہ صاحب پر پڑی، ان کو دعوت دی اور یہ پیش کش خواجہ صاحب نے قبول کرکے آل انڈیا ریڈیو کی ملازمت کو خیرباد کہہ دیا۔ حالاںکہ اس وقت مشہور زمانہ موسیقار آرسی بورال ماسٹر غلام حیدر، شیام سندر، برمن، نوشاد اور فیروز نظامی کا طوطی بول رہا تھا، لیکن خواجہ صاحب کی انفرادیت اور فن پر عبور نے جلد ہی انہیں ایک اہم مقام پر پہنچا دیا “کڑھائی” میں کام یابی کے بعد خواجہ صاحب نے اشارہ ، پرکھ، یتیم، پروانہ، پگڈنڈی، آج اور کل، نگار، نشانہ اور نیلم پری کی موسیقی ترتیب دے کر اپنی آمد کا باقاعدہ اعلان کردیا۔ پھر 1946اور 1949میں سال کے بہترین موسیقار کا اعزاز حاصل کرکے دنیائے موسیقی میں ہلچل مچا دی۔

انہوں نے ان موسیقاروں کی تربیت بھی کی جنہوں نے بعدازاں خوب نام کمایا۔ ان میں کوسی رام چندرروشن، اوپی نیر اور مختیار قریشی نمایاں ہیں۔ 1950میں جب خواجہ صاحب پاکستان تشریف لائے تو یہاں ماسٹر غلام حیدر، بابا چشتی، فیروزنظامی اور رشید عطرے کا موسیقی میں ڈنکا بج رہا تھا، لیکن پانچ سال بعد فلم “انتظار” میں کہانی اور موسیقی ترتیب دے کر سب کو پیچھے چھوڑ دیا، کیوںکہ 1956میں یہ فلم ریلیز ہوئی تو اس نے باکس آفس پر کام یابی کے نئے ریکارڈ قائم کردییے اور تینوں شعبوں میں سال کے بہترین فلم ، بہترین کہانی اور موسیقی کے صدارتی ایوارڈ بھی”انتظار” ہی نے حاصل کیے اور ان کے گانوں نے بھی پاک و ہند میں مقبولیت حاصل کی جن میں

“جس دن سے پیادل لے گئے”

“او جانے والے رے”

“آ بھی جا ”

وغیرہ شامل تھے اور پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور جھومر، ہیررانجھا، گھونگھٹ ، چنگاری، شیریں فرہاد، زہر عشق، ایاز، مرزا جٹ، حویلی، کوئل اور نیلم پری جیسی فلموں میں اتنی اچھی اور معیاری موسیقی ترتیب دی کہ اپنے 40 سالہ فلمی کیریئر میں انہوں نے صرف 31 فلموں کی موسیقی ترتیب دے کر 10فلموں میں انہوں نے سال کے بہترین موسیقار ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا فلم ہیر رانجھا کا نغمہ

ـ” سن ونجلی دی مٹھڑی تان وے”

بلاشبہہ خواجہ خورشید انور اور ملکہ ترنم نور جہاں کے گیتوں میں شاہکار کا درجہ حاصل کر گیا اسی طرح

” مجھ کو آواز دے کہاں ہے چاند ہنسے دنیا بسے روئے میرا دل رم جھم پڑے پھوار، او جانے والے رے ٹھہروذرا رک جاؤ” جیسے گیتوں نے بھی مقبولیت حاصل کی۔

ماچس کی ڈبیا پر دھنیں تخلیق کرنے والے خواجہ خورشید انور کی فلم انتظار کو پاکستانی صدر سکندر مرزا ایران کے دورے پر ساتھ لے گئے تو وہاں شہنشاہ ایران نے ان کی موسیقی کی تعریف کی اور انہیں “کنگ آف میلوڈی” کا خطاب دیا۔ انڈیا کے دورے میں بھارتی صدر ڈاکٹر رادھا کشن نے بھی اس فلم کو بے حد پسند کیا۔ اسی فلم سے میڈم نورجہان کو ملکہ ترنم کا خطاب ملا۔ اس فلم کو تین ایوارڈ ملے۔

1958میں معرکۃ الآرا فلم زہر عشق ریلیز ہوئی تو خواجہ خورشید انور نے میانوالی سے تعلق رکھنے والے نام ور میوزک ڈائریکٹر ریڈیوپاکستان کے اسٹیشن ڈائریکٹر سجاد سرور نیازی کی بیٹی ناہید نیازی کو بطور گلوکارہ متعارف کرایا جن کی جادو بھری آواز نے شائقین کے دلوں کو مسخر کرلیا۔

” چلی رے چلی رے بڑی آس لگا کے چلی رے” اپنے دور کا مشہور گانا ثابت ہوا۔ عظیم موسیقار خواجہ خورشیدانور کو برصغیر کے چوٹی کے موسیقاروں میں شمار کیا جاتا ہے وہ ایک صاحب طرز موسیقار تھے جنہوں نے عام ڈگر سے ہٹ کر فلمی گانے کمپوز کیے جس کی واضح مثال یہ ہے کہ فلم “جھومر” میں ناہید نیازی کے گائے ہوئے گیت” مو ہے پیا ملن کو جانے دے بیر نیا” کے بارے میں موسیقار اعظم نوشاد نے کہا تھا کہ خورشید انور یہ گانا میرے نام کر دیں تو میں اپنے نغمات ان کے نام کرنے کو تیار ہوں۔

خواجہ خورشید انور نے ایک نئے انداز سے موسیقی ترتیب دی اور متعارف کرائی جس میں ردھم کی روانی اور استائی اور انترہ کے مابین سازوں کی خوبصورت مگر مختصر کمپوزیشن یعنی” پیس” بنانے کی شروعات کیں اس طرح ایک نئے رجحان کا آغاز ہوا اور اس نئی روایت کے پیش نظر محمد رفیع، لتا منگیشکر، طلعت محمود، آشا بھوسلے، وغیرہ کے لیے راستہ ہموار کیا جس کا سبب یہ ہوا کہ برصغیر کے فلمی موسیقی کا سنہرا دور ثابت ہوا اور خواجہ خورشید انور ہی کی موسیقی کی وجہ سے وہ گیت تیار ہوئے کہ جنہیں صدیوں تک سنا جاتا رہے گا۔ خواجہ صاحب علم موسیقی کے بے کراں سمندر تھے وہ نہ صرف موسیقی کے مختلف پہلوؤں کا عمیق جائزہ لیتے بلکہ گانے والے کی آواز کی کوالٹی بھی ہر طرح سے پرکھتے۔ خواجہ خورشید انور نے لاتعداد انعامات اور ایوارڈز بھی حاصل کیے۔

1946ء، 1949ء، 1956ء، 1958ء، 1962ء، 1964ء، 1967ء، 1970ء، 1978اور 1982میں انہوں نے پروانہ، سنگھار، انتظار، زہرعشق، گھونگھٹ، ہمراز، چنگاری، ہیر رانجھا، حیدر علی اور مرزاجٹ پر سال کے بہترین موسیقار ہونے کا اعزاز حاصل کیا جب کہ 1980میں انہیں حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا۔ فلمی موسیقی ترتیب دینے کے علاوہ انہوں نے آہنگ خسروی کے عنوان سے تیس لانگ پلے پر مشتمل البم تیار کی جواب کیسٹس اور سی ڈیز میں دست یاب ہے۔

ریڈیو پاکستان کی سگنیچر ٹیون اور راگ مالا تخلیق کرنے والے خواجہ خورشید انور کو 1982میں انڈین فلم انڈسٹری کی جانب سے ” فانی انسان لا فانی گیت ایوارڈ” سے نوازا گیا۔ خواجہ صاحب کو اس کے باوجود اپنی جنم بھومی سے بے حد پیار تھا۔ انہیں جب بھی فرصت ملتی تو میانوالی ضرور تشریف لاتے۔ بابائے تھل فاروق روکھڑی ( ہم تم ہوں گے بادل ہوگا۔۔۔کے شاعر) سے ان کے بہت اچھے مراسم تھے۔ ان کے کئی گیتوں کی دھنیں بھی خواجہ خورشید انور نے بنائیں۔ وہ جب بھی میانوالی آتے تو ان کے گھر کندیاں میں ضرور قیام کرتے۔

تنہائی پسند کم گو خوش گفتار، خوش مزاج، باوقار شخصیت کے مالک خواجہ خورشید انور نے 40 سالہ طویل فلمی سفر میں 14 سال انڈیامیں گزارے اور 11 فلموں کی موسیقی دی، 26 سال پاکستان میں کیریر جاری رکھا اور20 فلموں کو اپنی موسیقی سے سجایا، یوں انہوں نے کُل 31 فلموں میں موسیقی دینے کے علاوہ 250گیتوں کی لازوال دھنیں تخلیق کیں۔

برصغیر میں موسیقی کے بے تاج بادشاہ خواجہ خورشید انور طویل علالت کے بعد 30اکتوبر 1984بروز منگل بوقت دو پہر 2 بجے اس جہان فانی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کوچ کرگئے۔ انہیں لاہورکے میانی قبرستان میں دفن کیا گیا۔

موسیقی کی تاریخ جب بھی مرتب کی جائے گی یا تخلیق کی جائے گی برصغیر کے عظیم و نامور موسیقار خواجہ خورشید انور کے نام کے ساتھ میانوالی میں پیدا ہونے کی وجہ سے میانوالی کا نام بھی سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔