شدید سردی کی سائنس

سید عاصم محمود  اتوار 26 جنوری 2020
حالیہ موسم میں قطبی جیٹ ہوائیں کمزور پڑگئیں۔ فوٹو: فائل

حالیہ موسم میں قطبی جیٹ ہوائیں کمزور پڑگئیں۔ فوٹو: فائل

پچھلے چند ہفتوں کے دوران یونان سے لے کر چین تک کئی ممالک شدید سردی کی لپیٹ میں رہے۔

مصر میں ایک صدی بعد برف باری ہوئی جبکہ پاکستان سمیت دیگر ملکوں میں شدید سردی کے بہت سے کئی ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر میں زبردست برف باری کی وجہ سے کئی گھر ڈھے گئے۔

ان کی زد میں آ کر ایک سو سے زائد افراد چل بسے۔ نیز شدید سردی نے بھی کمزور مدافعتی نظام رکھنے والے لوگوں کی جان لے لی۔غرض ٹھنڈ کی شدید لہر کے باعث اہل پاکستان کو کافی جانی ومالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔پاکستان ہی نہیں کئی ملکوں کے کروڑوں باشندے حیران پریشان ہیں کہ اتنی شدید سردی کہاں سے ٹپک پڑی جس نے رگ و پے میں سنسنی پھیلا دی۔ کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ ایسا سخت موسم سرما جنم لینے کی اہم وجہ انسانی سرگرمیاں بھی بن رہی ہیں۔زمین پر قطب شمالی اور قطب جنوبی ایسے علاقے ہیں، جہاں سارا سال برف جمی رہتی تھی۔

ان دونوں قطبین میں ہوا بھی بہت سرد ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مگر یہ بندوبست فرما دیا کہ دونوں قطبین کی ہوا اسی علاقے میں چکر لگاتی رہتی ہے۔ اس چکر کھانے والی ہوا کے مختلف نام ہیں جیسے ’’پولر وورٹیکس‘‘ (polar vortex) یا قطبی گرد باد، کم دباؤ والا علاقہ اور سائیکلون۔ دونوں قطبین ایک ایک ایسا ہوائی علاقہ رکھتے ہیں۔

یہ ہوا سطح زمین سے 20 میل اوپر چکر کھاتی ہے اور اس کا قطر ایک ہزار کلو میٹر (620 میل) تک پھیلا ہوتا ہے۔ ہوا کے اس علاقے میں زبردست سردی ہوتی ہے اور اکثر درجہ حرارت منفی 130 درجے سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا  ہے۔ ہوا کا چکر کھاتا یہ گرد باد یا سائیکلون بنی نوع انسان کے لیے خدائی تحفہ ہے۔یہ وورٹیکس دونوں جگہ چلتی زبردست ٹھنڈی ہوائیں اسی علاقے تک محدود رکھتے ہیں۔

سرد قطبی ہواؤں کو محدود کرنے کی خاطر قدرت الہی نے ایک اور بندوبست فرمایا۔ہواؤں کی ایک اور قسم ’’قطبی جیٹ ہوا‘‘ (Jet stream)بھی پولر وورٹیکس کو اپنی جگہ مستحکم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ قطبی جیٹ ہوائیں قطب شمالی اور قطب جنوبی، دونوں جگہ پائی جاتی ہیں۔ یہ خط استوا کی گرمی اور قطبین کی سردی کے ردعمل اور زمین کی گردش کے نتیجے میں جنم لیتی ہیں۔زمین سے نو تا بارہ کلو میٹر کی بلندی پر دنیا کے گرد چکر لگاتی ہیں۔

قطبی جیٹ ہوائیں پولر ووٹیکس کو قطبین سے باہر نہیں آنے دیتیں۔ لیکن عالمی گرماؤ نے ان ہواؤں کی قدرتی ذمے داری میں بھی بگاڑ پیدا کر ڈالا ۔مسئلہ یہ ہے کہ پچھلے ڈیڑھ سو برس میں رکازی ایندھن (پٹرول، کوئلہ، گیس) بے حساب جلنے سے زمین کی فضا میں سبزمکانی گیسیں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں اور ان کی بڑھوتری کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ یہ گیسیں سورج کی شعاعیں جذب کرکے انہیں زمین کی فضا میں قید کردیتی ہیں۔ زمینی فضا میں انہی شمسی شعاعوں کی کثرت کے باعث کرۂ ارض کا درجہ حرارت بڑھتا جارہا ہے۔ اس تبدیلی نے قطب جنوبی کی نسبت قطب شمالی پر زیادہ انقلابی  اثرات مرتب کیے ہیں اور انہی نے پولر وورٹیکس اور قطبی جیٹ ہواؤں کا قدرتی عمل بھی متاثر کر دیا۔

کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافے یعنی گلوبل وارمنگ یا عالمی گرماؤ نے قطب شمالی پر پہلا بُرا اثر یہ ڈالا کہ وہاں صدیوں سے جمی برف پگھلنے لگی۔ اب یہ حال ہے کہ موسم گرما میں قطب شمالی کی بیشتر برف پگھل جاتی ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ عالمی گرماؤ میں اضافہ جاری رہا، تو 2030ء تک قطب شمالی میں موسم گرما کے دوران کوئی برف نظر نہیں آئے گی۔ یہ ایک بہت بڑا المّیہ ہوگا کیونکہ قطب شمالی میں بہت سے حیوانوں مثلاً ریچھ کی بقا کا دارومدار برف پر ہے۔ برف کی عدم موجودگی سے ان کے معدوم ہونے کا خطرہ جنم لے چکا۔

قطب شمالی سے برف پگھلنے کا عمل ایک اور بڑا نقصان رکھتا ہے۔ دراصل برف شمسی شعاعیں جذب نہیں کرتی بلکہ انہیں منعکس کرکے دوبارہ خلا میں بھیج دیتی ہے۔ یوں وہ زمین کا درجہ حرارت اعتدال پر رکھتی ہے۔ جبکہ سمندر شمسی شعاعیں جذب کرلیتے ہیں۔ اس طرح وہ کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ گویا قطبین اور پہاڑوں پر جمی برف پگھلنے سے زمین پر عالمی گرماؤ کا عمل تیز ہوجائے گا جو ایک خطرناک بات ہے۔

قطب شمالی میں برف پگھلنے اور درجہ حرارت بڑھنے کے اعجوبے ہی نے اپنے پولر وورٹیکس اور قطبی جیٹ ہواؤں  پر بھی منفی اثرات مرتب کر ڈالے۔ہوتا یہ ہے کہ جب  پولر وورٹیکس  اور قطبی جیٹ ہواؤں کے مابین قدرتی درجہ حرارت نہ رہے تو پولر وورٹیکس کبھی موسم سرما اور کبھی موسم گرما میں کمزور پڑجاتا ہے۔ یعنی اس کا قطر مختلف مقامات پر کئی گنا پھیل جاتا ہے۔ چناں چہ پولر وورٹیکس  پھیل کر جن ممالک تک پہنچے، وہاں قطب شمالی کی ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگتی ہیں۔ یہ عجوبہ پھر ان ملکوں میں ایسی زبردست سردی پیدا کر ڈالتا ہے جو وہاں کے باشندوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوتی۔

عالمی گرماؤ کے بطن سے جنم لینے والے ایک اور اعجوبے نے قطب شمالی میں پولر وورٹیکس پھیلنے کے غیر قدرتی عمل کا اثر دو آتشہ بنا ڈالا۔ وہ اعجوبہ یہ ہے کہ بڑھتے درجہ حرارت کی وجہ سے اب فضا میں نمی بھی بڑھ رہی ہے۔ جب پولر وورٹیکس پھیل کر افغانستان، پاکستان، مصر، چین وغیرہ تک پہنچے تو وہاں وہ ان ملکوں کی فضا میں موجود نمی منجمند کر ڈالتا ہے۔ یہ نمی پھر برف بن کر نیچے گرتی ہے۔ جن ملک کی فضا میں جتنی زیادہ نمی ہوگی، وہاں اتنی ہی زیادہ برف باری بھی ہوگی۔ اس عجوبے کی بدولت سمجھا جاسکتا ہے کہ حالیہ موسم سرما میں پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور بلوچستان میں معمول سے زیادہ برف باری کیوں ہوئی ۔

یہ عیاں ہے کہ حالیہ موسم میں قطبی جیٹ ہوائیں کمزور پڑگئیں۔ ممکن ہے کہ خط استوا پر گرمی کی شدت کم ہو لہٰذا اس کمی نے انہیں کمزور کر ڈالا۔ چناں چہ قطب شمالی کے پولر وورٹیکس نے پھیل کر مصر سے لے کر چین تک وسیع علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ چونکہ مصر کی فضا میں خاصی نمی موجود تھی لہٰذا وہاں کئی عشروں بعد برف باری کے عجوبے نے جنم لیا۔ یہ پولر وورٹیکس متحدہ عرب امارات تک پہنچتے پہنچتے زیادہ سرد نہیں رہا تھا۔ مگر اس نے وہاں کی نمی کو بادلوں میں ضرور بدل ڈالا۔ اسی لیے دبئی اور امارات کے دیگر علاقوں میں ریکارڈ توڑ بارشیں ہوئیں اور پانی نے سارا علاقہ جل تھل ایک کردیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ قطبین میں درجہ حرارت دگنی رفتار سے بڑھ رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ درجہ حرارت کا جو توازن پولر وورٹیکس اور قطبی جیٹ ہواؤں کو مستحکم اور اپنی اپنی جگہ رکھتا ہے، وہ بتدریج ختم ہورہا ہے۔ یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس حقیقت سے عیاں ہے کہ آنے والے برسوں میں پاکستان سمیت کئی ایشیائی علاقوں میں موسم سرما کے آغاز پر پولر وورٹیکس کے حملے سے زبردست سردی جنم لے سکتی ہے۔

یہ شدید سردی کئی انسانی سرگرمیوں میں انقلابی تبدیلیاں لے آئے گی۔ مثال کے طور پر فصلوں کی بیجائی اور پرادخت موسم دیکھ کر کی جاتی ہے۔ اگر دسمبر اور جنوری کے مہینوں میں صوبہ پنجاب میں شدید سردی پڑنے لگی تو فصلوں اور پھلوں کی بیجائی و دیکھ بھال کا نظام متاثر ہوسکتا ہے۔ پھر ان مہینوں میں تعلیمی اداروں کی چھٹیاں بھی بڑھانی پڑیں گی تاکہ خصوصاً چھوٹے بچے شدید سردی کے مضر اثرات سے محفوظ رہیں۔

یہ عیاں ہے کہ بڑھتے درجہ حرارت، پھیلتی آلودگی اور درختوںکی مسلسل کٹائی سے آب و ہوا (climate) ہی نہیں موسم (weather) بھی بہ سرعت بدل رہے ہیں۔ اسی لیے پوری دنیا میں شدید موسمی اثرات پیدا ہونے لگے ہیں۔ کہیں طوفانی بارشیں نظام زندگی درہم برہم کردیتی ہیں تو کہیں شدید قحط کسی ذی حس کو زندہ نہیں چھوڑتے۔ مثال کے طور پر آسٹریلیا اور امریکا کے کئی خطے گزشتہ پانچ چھ برس سے قحط کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ اگر انسان نے اپنا غیر فطری چلن برقرار رکھا، تو مستقبل میں موسموں کی شدت ہی نہیں تباہ کاریاں بھی بڑھ سکتی ہیں۔

سیانے کہہ گئے ہیں کہ زمین ہر انسان کی ضروریات پوری کرسکتی ہے لیکن وہ لالچی کی خواہشات پوری نہیںکرپاتی۔ انسان کو لالچ و خود غرضانہ تمناؤں سے چھٹکارا پانا ہوگا۔ ایک ریڈانڈین کہاوت ہے ’’زمین ہمیں اپنے پرکھوں سے وراثت میں نہیں ملتی، اسے ہم اپنے بچوں سے بطور قرض لیتے ہیں۔‘‘ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی اولاد خوشگوار اور پاک صاف ماحول میں زندگی گزارے، تو آج ہی فطرت کو اپنا دوست بنالیجیے۔

دس سال میں زمین بچالیں ورنہ…

اقوام متحدہ کے ادارے، یو این کونشن آن بائیولوجیکل ڈائیورسٹی (UN Convention on Biological Diversity) نے کرۂ ارض پر آباد سبھی انسانوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ ہوش میں آجائیں۔ غیر فطری طرز زندگی کو خیرباد کہہ کر دوبارہ فطرت کی آغوش اختیار کرلیں ورنہ دوسری صورت میں بنی نوع انسان کی بقاء خطرے میں پڑ جائے گی۔دراصل پچھلے ڈھائی سو برس کے دوران جنگلات کی بے دریغ کٹائی، درجہ حرارت میں مسلسل اضافے، بے حساب آلودگی بڑھنے اور انسانی آبادی بہت بڑھ جانے کے باعث زمین کا نقشہ بدل گیا ہے۔ ان جنم لیتی وجوہ کی بنا پر جانوروں اور پودوں کی کئی اقسام مٹ چکی جبکہ خدشہ ہے کہ حیوانیات اور نباتیات کی آٹھ لاکھ اقسام میں سے ایک تا دو لاکھ اگلے دس برس میں ناپید ہوجائیں گی۔

عام انسان کو اندازہ نہیں کہ اس کی بقا نباتات اور حیوانیات کی بقا سے ہی جڑی ہے۔ خصوصاً رنگ برنگ پودے، درخت اور جڑی بوٹیاں دنیا سے ختم ہوگئیں تو بڑھتی آلودگی سانس لینا دوبھر کردے گی۔ یہ نباتات ہی آکسیجن پیدا کرتے ہیں۔ ابھی سے ہمارے بڑے شہروں مثلاً کراچی، لاہور، راولپنڈی وغیرہ میں یہ عالم ہوچکا کہ تروتازہ ہوا باغات میں بھی میّسر نہیں۔ باغ میں بھی کچرے یا دھوئیں کی بدبو آکسیجن میں مل کر اسے گندا کر ڈالتی ہے۔یہ شہر حقیقتاً آلودگی کے مرکز بن چکے۔وہاں آباد کروڑوں انسان فضائی آلودگی کے باعث رفتہ رفتہ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ان میں سے بعض امراض جان لیوا بھی ثابت ہوتے ہیں۔

یو این کونشن آن بائیولوجیکل ڈائیورسٹی کی بنیاد 1992ء میں پڑی تھی۔ یہ ادارہ رکن ممالک کی مدد سے ایسے اقدامات کرتا ہے جن کے ذریعے کرۂ ارض پر زندگی کی تمام اقسام کو تحفظ مل سکے۔ تاہم اس کی بھرپور سعی کے باوجود وہ عوامل ختم نہیں ہوسکے جن کے باعث کرۂ ارض کا قدرتی ماحول مسلسل تباہ ہورہا ہے۔ماضی میں زلزلے، آتش فشاں پھٹنے، قحط اور دیگر قدرتی آفات ارضی زندگی پر زبردست حملے کرتی رہی ہیں۔ بعض اوقات تو زندگی معدوم ہونے کے قریب پہنچ گئی۔ مگر پھر وہ جی اٹھی اور کرۂ ارض پر زندگی کی متفرق اشکال پھیل گئیں۔ مگر اب انسانی سرگرمیاں ارضی زندگی کی دشمن بن چکیں اور یہ دماغ چکر دینے والی سچائی ہے کیونکہ انسان اپنے ہاتھوں سے اپنی قبر کھود رہا ہے۔

بڑھتی آبادی پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں ایک بڑا مسئلہ بن چکی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وسائل آبادی کے لحاظ سے نہیں بڑھ رہے۔ مثلاً آٹے ہی کو لیجیے، ہر سال کروڑوں منہ پیدا ہوجاتے ہیں مگر گندم کی فصل میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوسکا۔ یہی وجہ ہے، پاکستان اور دیگر ممالک میں آٹے، پیاز، ٹماٹر وغیرہ کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ خوراک کی مانگ زیادہ ہے جبکہ پیداوار کم۔ یہ عمل خود بخود مانگ والی اشیا کی قیمتیں بڑھا دیتا ہے۔غرض بڑھتی آبادی خصوصاً شعبہ زراعت کے لیے خطرہ بن چکی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ آبادی آنے والے عشروں میں بھی بڑھنے گی۔ فی الوقت کرۂ ارض پر 7 ارب 60 کروڑ افراد آباد ہیں۔ 2030ء میں انسانی آبادی 8 ارب 60 کروڑ ہوگی جبکہ 2050ء میں دنیا میں 9 ارب 80 کروڑ انسان موجود ہوں گے۔ اب سوچ لیجیے کہ تمام وسائل بشمول خوراک، انفراسٹرکچر اور زمینی استعمال پر کتنا زبردست بوجھ پڑ جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔