اچھا ’’بنگال ٹائیگرز‘‘اس لیے ڈر رہے تھے

سلیم خالق  اتوار 26 جنوری 2020
ہمارے لیے خوشی کی بات یہ ہے کہ ملک میں ایک اور سیریز کا انعقاد ہوا جس میں فتح اب یقینی ہو چکی۔ فوٹو: فائل

ہمارے لیے خوشی کی بات یہ ہے کہ ملک میں ایک اور سیریز کا انعقاد ہوا جس میں فتح اب یقینی ہو چکی۔ فوٹو: فائل

’’ہم نہیں آئیں گے، ٹیسٹ نہیں کھیلیں گے، صرف5روز کیلیے آئیں گے‘‘ بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کافی عرصے سے اسی قسم کے بیانات دے رہا تھا۔

حال ہی میں سری لنکا کی ٹیم پاکستان میں مکمل سیریز کھیل کرگئی، سب نے سیکیورٹی انتظامات کو سراہا، اس سے قبل بھی کافی انٹرنیشنل کرکٹ ہو چکی تھی، آئندہ ماہ پی ایس ایل میں شرکت کیلیے بھی بڑے بڑے کھلاڑی یہاں آنے کو تیار ہیں، اس کے باوجود ’’بنگال ٹائیگرز ‘‘ کیوں خوفزدہ تھے یہ کوئی سمجھ نہیں پا رہا تھا، مگر اب ابتدائی دونوں ٹی20میچز میں مہمان ٹیم کی کارکردگی دیکھ کر وجہ سب کو معلوم ہو چکی ہے، شاید شکست کا خوف ہی بنگلہ دیش کو دورے سے روک رہا تھا۔

ٹی20 میں یہ حال ہے تو ٹیسٹ میں کیا ہوگا،شائقین تو اب یہی سوچ رہے ہیں، بی سی بی سے زیادہ اپنی ٹیم کو کون جانتا ہے اسی لیے شاید وہ ٹیسٹ کھیلنے میں ہچکچاہٹ کا اظہار کرتا رہا تھا، ٹی20سیریز کے دونوں میچز دیکھ کر اندازہ ہوگیاکہ ورلڈ نمبرون اور نمبر9کا کوئی مقابلہ نہیں ہے، گوکہ پہلے میچ میں پاکستان نے ہدف تین بالز قبل ہی حاصل کیا لیکن اس میں حریف بولرز سے زیادہ اپنی غلطیوں کا قصور تھا۔

خیر ہمارے لیے خوشی کی بات یہ ہے کہ ملک میں ایک اور سیریز کا انعقاد ہوا جس میں فتح اب یقینی ہو چکی، پیر کو تیسرا میچ جیت لیا تو رینکنگ میں پہلی پوزیشن پر چھائے خطرات کے بادل چھٹ جائیں گے، اس سیریز کی فتح میں دونوں سینئرز شعیب ملک اور محمد حفیظ کا اہم کردار رہا۔

پہلے میچ کو شعیب نے ذمہ دارانہ انداز میں نصف سنچری بنا کر فنش کرایا، دوسرے میچ میں حفیظ  کی ففٹی نے بابر اعظم کا کام آسان کیا،  شعیب 38اور حفیظ39سال کے ہو چکے، دونوں رواں برس آسٹریلیا میں شیڈول ورلڈکپ کے بعد ریٹائرمنٹ کا عندیہ دے چکے ہیں،گوکہ شعیب کا ارادہ ڈانواں ڈول لگتا ہے مگر وہ جانتے ہیں کہ اب زیادہ وقت باقی نہیں رہا،انٹرنیشنل لیگز میں کارکردگی انھیں قومی ٹیم کیلیے بھی مفید کرکٹر ثابت کرتی ہے۔

دوسری جانب بولنگ پر پابندی کے سبب حفیظ اب آل راؤنڈر نہیں رہے، گوکہ انھوں نے دوسرے میچ میں اچھی بیٹنگ کی لیکن کیا بڑی ٹیموں کے خلاف بھی وہ یہ فارم برقرار رکھ سکیں گے اس پر سوالیہ نشان موجود ہے، پی سی بی اور مصباح الحق نوجوان کرکٹرز کو مواقع دینے کے نعرے لگاتے رہے مگر مسلسل تیسری سیریز گنوانے کے خوف نے انھیں دونوں سینئرز کو واپس لانے پر مجبورکیا، انھیں آسٹریلیا لے جاتے تو ایکسپوز ہونے کا خطرہ تھا اس لیے  باہر رکھاگیا۔

شاید آپ لوگوں کو یہ بات اچھی نہ لگے لیکن بنگلہ دیش کی اس کمزور ٹیم کیخلاف آپ اگر فخر زمان، امام الحق، احمد شہزاد یا کسی نئے کھلاڑی کو بھی موقع دے دیتے تو وہ بھی پرفارم کر جاتا، سینئرز کا اصل امتحان کسی مضبوط حریف سے مقابلے میں ہو گا، اس سے اچھی کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی کہ وہ ایسے میچز میں بھی بہترین پرفارم کریں بس ڈر یہی لگتا ہے کہ کہیں ون ڈے ورلڈکپ جیسی پرفارمنس ہی سامنے نہ آئے،  خیر اچھے کی امید رکھنی چاہیے،گوکہ جاری سیریز میں ٹرافی پر قبضہ یقینی ہو چکا البتہ اب بھی تیسرے میچ میں فتح نمبر ون پوزیشن بچانے کیلیے ضروری ہے۔

بولنگ اٹیک میں تجربے کی کمی ہے لیکن بنگلہ دیش کے پاس بڑے نام موجود نہیں، پاور ہٹرز کی بھی کمی محسوس ہو رہی ہے، اس لیے پاکستانی بولنگ کی ناتجربہ کاری نمایاں نہیں ہوئی، بڑی ٹیموں کیخلاف ہمیں سینئر بولرز کی ضرورت محسوس ہوگی، بیٹنگ میں نئے کھلاڑی احسان علی کو آزمایا گیا، پہلے میچ میں انھوں نے36رنز کی بہتر اننگز کھیلی البتہ دوسرے میں صفر پر وکٹ گنوا بیٹھے، انھیں انٹرنیشنل معیار پر نام بنانے کیلیے ابھی مزید محنت کی ضرورت ہے۔

ابتدائی ٹی ٹوئنٹی میں بابر اعظم نے صفر پر وکٹ گنوا دی تھی مگر دوسرے میں اپنی کلاس دکھاتے ہوئے نصف سنچری بنائی، ٹیم کو ان سے ایسی ہی اننگز درکار ہیں۔ سیریز کے اب تک دونوں میچز کا  عمدگی سے انعقاد ہوا، گوکہ چار بار تلاشی سے شائقین کو مشکلات کا سامنا ہے مگر وہ پھر بھی خندہ پیشانی سے اسے قبول کر رہے ہیں، ملک میں کرکٹ کی رونقیں برقرار رکھنے کیلیے ایسی ہی سیکیورٹی ضروری ہے، ہم کسی سہل پسندی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

پہلے میچ میں آدھے سے زیادہ اسٹیڈیم خالی تھا البتہ دوسرے میں کراؤڈ کی بڑی تعداد آئی، ہم نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ کرکٹ سے محبت کرنے والی قوم ہیں، پی سی بی نے اس بار بھی شائقین کو سہولتیں فراہم کرنے کیلیے خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے، لاہور سے عباس رضا بتا رہے تھے کہ ٹکٹ کاؤنٹر نہ ہونے کی وجہ سے سیکڑوں افراد کو مایوس لوٹنا پڑا، مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ کو زیادہ اسپانسرز بھی نہیں مل سکے جس نے اس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، سیریز کی تصدیق تاخیر سے ہوئی لیکن انعقاد تو ہونا ہی تھا، بات چیت کا سلسلہ تو جاری رکھنا چاہیے تھا۔

مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ نے سری لنکا سے سیریز کی بھی کوئی ہائپ نہیں بنائی تھی، ہر ماہ بھاری تنخواہیں لینے والے آفیشلز آخر کر کیا رہے ہیں، ڈومیسٹک ٹیموں کیلیے بھی کوئی اسپانسر نہیں مل سکا، چیئرمین کو اس ڈپارٹمنٹ پر خاص نظر رکھنی چاہیے، بنگلہ دیش سے سیریز پر ڈیل ہوئی یا نہیں اس کا اندازہ تو آئندہ چند ماہ میں ایشیا کپ کی میزبانی کے حتمی فیصلے سے ہو جائے گا لیکن سی ای او وسیم خان نے ایک جذباتی  بیان ضرور دے دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’اگر بھارتی ٹیم ایشیا کپ کھیلنے پاکستان نہیں آئی تو گرین شرٹس ورلڈکپ کیلیے بھارت نہیں جائیں گے‘‘، یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ وہ اپنی بات پر کتنا قائم رہتے ہیں کیونکہ ایک فیصد بھی امکان نہیں کہ بلو شرٹس یہاں آئیں، خیر ہمیں اپنے  میدان آباد رکھنے ہیں جو آنے کو تیار ہے اسے سر آنکھوں پر بٹھائیں جس کے نخرے ہیں اسے گھر پر ہی رہنے دیں،اس سے زیادہ سیکیورٹی ہم کسی کو فراہم نہیں کر سکتے،امید  ہے اب تیسرے ٹی20کے بعد پی ایس ایل کا انعقاد بھی بہترین انداز میں ہوگا، ہنستے مسکراتے شائقین کو میچز سے لطف اندوز ہوتے دیکھنے سے اچھی کوئی اور بات ہو ہی نہیں سکتی، انشا اﷲ یہ سلسلہ برقرار رہے گا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔