تفریح کا اسلامی تصوّر

اعزاز احمد کیانی  جمعـء 31 جنوری 2020
اسلام ایسی کسی تفریحی سرگرمی سے قطعاً نہیں روکتا جو معاشرے کے لیے کسی بھی لحاظ سے مضر نہ ہو۔ فوٹو: انٹرنیٹ

اسلام ایسی کسی تفریحی سرگرمی سے قطعاً نہیں روکتا جو معاشرے کے لیے کسی بھی لحاظ سے مضر نہ ہو۔ فوٹو: انٹرنیٹ

انسان کی تخلیق ہی کچھ اس بنیاد پر کی گئی ہے کہ انسان مسلسل کام اور لگاتار ایک ہی عمل سے ناصرف تھک جاتا ہے بل کہ اکتا بھی جاتا ہے۔ چناں چہ راحت کے اوقات کی تلاش اور روزہ مرہ کے معمولات میں تبدیلی کی خواہش انسانی فطرت میں شامل ہے۔

فرصت کے اوقات اور مختلف تقریبات اور مواقع انسان کو جسمانی راحت اور ذہنی آسودگی فراہم کرتے ہیں اور ان سے انسان کو اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ بہترین وقت گزارنے کا موقع بھی میسر آتا ہے۔ مختلف تقریبات کو جس طرح فرد کی زندگی میں اہمیت حاصل ہے، اسی طرح ایسی تقریبات قوم کی مجموعی زندگی کے لیے بھی اہم اور ضروری ہیں۔

یہ تقریبات اور اجتماعات ہی ہیں جو معاشرے کے افراد کا باہم ربط و تعلق پیدا کرتے ہیں اور افراد کا باہم تعلق ہی معاشرے اور معاشرتی زندگی کی حقیقی بنیاد ہے۔ چناں چہ انہی بنیادوں پر تمام اقوام اور ممالک مختلف اوقات میں مختلف تقریبات، میلوں، نمائشوں اور تہواروں کا اہتمام کرتے ہیں۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی سرکاری اور مقامی سطح پر مختلف تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسلام کی اعجازی شان یہ ہے کہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے اور ہر شعبے کے متعلق تعلیمات موجود ہیں۔

قران مجید کسی ایک مخصوص مضمون کے ساتھ نازل نہیں ہوا بل کہ قران مجید کے مطابق اﷲ تعالی نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ کو آیات (دلائل و براہین) تزکیہ (زندگی سنوارنا) کتاب (احکامات) اور حکمت عطا کی جب کہ اس کے برعکس سابقہ آسمانی کتب مخصوص مضامین کے ساتھ نازل ہوئیں۔ اسلام کی دوسری اعجازی شان یہ ہے کہ قران مجید کا ہر ایک زیر و زبر اور رسول کریم ﷺ کا ہر قول و فعل پوری طرح محفوظ کرلیا گیا تو گویا یہ نفاذ اسلام کی آسمانی تدبیر ہے۔

جب کہ سابقہ کسی نبی یا رسول کے بچپن سے لے کر وصال تک کے حالات زندگی محفوظ ہیں اور نہ سابقہ کسی آسمانی کتاب کے بارے میں پوری سند سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ اسلام نے مسلمانوں کی تفریح اور باہمی میل جول کے لیے عیدین کی صورت میں سال بھر میں چھے دن مخصوص کیے جو چودہ سو سال سے پوری اسلامی دنیا میں مذہبی تہوار کے نام سے منائے جاتے ہیں اور منائے جاتے رہیں گے۔

اسلام میں عیدین کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے۔ اگرچہ معاشرے کا ہر فرد اپنی استطاعت کے مطابق مختلف تہوار مناتا ہے لیکن یہ اسلامی ضابطۂ حیات اور تصور معاشرت و اجتماعیت ہی کا خاصہ ہے کہ ایک طرف تو ان تہواروں کو منانے کے عمومی اصول طے کیے گے ہیں اور دوسری طرف اس بات کی بھی پرزور تاکید کی گئی ہے کہ معاشرے کے محروم افراد کو بھی خوشیوں میں شریک کیا جائے۔

اسلام ایسی کسی تفریحی سرگرمی سے قطعاً نہیں روکتا جو معاشرے کے لیے کسی بھی لحاظ سے مضر نہ ہو۔ شادی اپنی ہو یا اپنوں کی، شادی کے لمحات انسانی زندگی کے چند حسین، پُرمسرت اور یادگار لمحات ہوتے ہیں۔ اسلام اگرچہ شادی میں سادگی کا درس دیتا ہے لیکن سادگی سے قطعاً یہ مراد نہیں کہ خوشی کا بالکل اظہار نہ کیا جائے بل کہ اسلام صرف لغو رسومات، اسراف اور نمود و نمائش سے روکتا ہے۔ تحائف کا لین دین بھی معاشرتی زندگی کے لیے نہایت سُودمند ہے جو افراد میں باہمی الفت، محبت اور پیار بڑھاتا ہے اور انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے۔

اسلام ناصرف تحائف کے لین دین کی حوصلہ افزائی کرتا ہے بل کہ تحائف کو محبت کے فروغ کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔صحیح بخاری میں حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول ﷺ میری دو پڑوسن ہیں تو مجھے کس کے گھر ہدیہ بھیجنا چاہیے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جس کا دروازہ تم سے قریب ہو۔

تحائف کی طرح دعوت و طعام سے بھی معاشرے کے افراد میں باہمی میل جول کو فروغ ملتا ہے اور افراد ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں۔ اسلام میں ناصرف دعوت و طعام کے بے شمار فوائد بیان ہوئے ہیں، بل کہ ایک دوسرے کی دعوت کو قبول کرنے کی خصوصی تاکید بھی کی گئی ہے، چاہے وہ کس قدر چھوٹی ہی کیوں نہ ہو۔ اسلام قطعاً خشک دین نہیں ہے بل کہ اسلام میں تفریح کا تصور بہ درجہ اتم موجود ہے۔ ایسی کوئی بھی تقریب، اجتماع یا مخصوص دن جس کا مقصد عوام کے مختلف طبقات کے درمیان تعلق پیدا کرنا ہو یا عوام کی تربیت و اصلاح کرنا ہو، کسی طور بھی خلافِ اسلام نہیں ہیں بل کہ قومی تربیت و اصلاح اور راہ نمائی تو اسلام کے تصور اجتماع کا خاصہ ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اسلام کے مستقل اجتماعات یعنی عیدین، حج اور جمعے میں خطبات ایک لازمی جز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی کہ ہمارے اجتماعات اور تقریبات لغویات اور نمائش سے پاک ہوں اور زیادہ سے زیادہ سے بامقصد ہوں، جن میں افراد کے باہم میل جول اور اصلاح و تربیت کا پہلو غالب ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔