سوشل میڈیا قوانین، آئیڈیاز قید کرنے کا منصوبہ؟

 جمعرات 13 فروری 2020
سوشل میڈیا کی طاقت پر حکومت میں آنے والی پی ٹی آئی اب خود اسی سوشل میڈیا سے خوفزدہ ہے۔ (فوٹو: فائل)

سوشل میڈیا کی طاقت پر حکومت میں آنے والی پی ٹی آئی اب خود اسی سوشل میڈیا سے خوفزدہ ہے۔ (فوٹو: فائل)

ایک دور تھا جب اخباروں کی ہیڈ لائنز پر حکومتیں ہل جایا کرتی تھیں۔ انقلابی شاعروں کے اشعار پر سیکیورٹی ادارے حرکت میں آجاتے تھے۔ تعلیمی اداروں میں نعرہ بلند ہوتا تو تحریک بن جاتی۔ لیڈروں کی تقریروں میں دم خم ہوتا تھا۔ لیڈر لڑنے مرنے کی بات کرتا تو پورا مجمع یک زبان ہوکر لبیک کہتا۔ پھر بندوق کا دور آیا۔ علم کو زوال اور کرپشن نے عروج پایا۔ نوجوانوں کے ہاتھوں سے قلم اور کتاب لے کر بندوق تھما دی گئی۔ دلیل کی جگہ گالی نے لے لی۔ ذہن مفلوج ہوتے گئے۔ میڈیا کا جمعہ بازار تو ہے لیکن کہے گئے الفاظ میں وزن نہیں۔ آج عالم یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی اچھا ذہن، بڑا تخلیق کار نہیں۔ اگر کوئی لکھنا جانتا ہے تو اس کے الفاظ پر کوئی اور قابض ہے۔ ایسا کوئی لیڈر نہیں جس کی ایک کال پر پوری قوم یک زبان ہوجائے۔ ایسا کوئی عالم نہیں جس پر سب مسالک متفق ہوں۔ جب بھی ملک پر کڑا وقت آتا ہے، کوئی بحران آتا ہے تو پوری قوم ’’پنڈی‘‘ کی طرف دیکھتی ہے۔

ایسے میں ایک امید تھی سوشل میڈیا۔ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس پر جو چاہے اپنے آئیڈیاز شیئر کرسکتا ہے۔ اپنے مسائل بیان کرسکتا ہے۔ سوشل میڈیا شاید اس نیت سے تخلیق کیا گیا کہ بلا رنگ و نسل و مذہب و ملت، کرۂ ارض کو اصلی گلوبل ولیج بنادے گا۔ ہم اپنے دکھ سکھ ریئل ٹائم میں بانٹنے کے قابل ہوجائیں گے بلکہ ان گنت مشترکہ مسائل کے درجنوں حل بھی ڈھونڈھ سکیں گے۔ شاید پہیے کی ایجاد کے بعد سب سے اہم ایجاد انٹرنیٹ ہے۔ سوشل میڈیا نے لوگوں کی زباں بندی کو ہمیشہ ہمیشہ کےلیے کالعدم کردیا ہے۔ اب خبر پر خبر کے ٹھیکیداروں کی اجارہ داری ختم ہوچکی ہے۔ کوئی میرا مضمون چھاپنے سے انکار کرے گا تو میں اسے فیس بک پر ڈال دوں گا۔ جن ریاستوں میں سوشل میڈیا کو سائبر زنجیر پہنانے کی کوشش کی گئی، وہیں کے دس پندرہ سال کے بچوں نے ان زنجیروں کو توڑ کر رکھ دیا۔ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس پر کوئی بھی اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کرسکتا ہے۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس کے منفی استعمال بھی سامنے آئے ہیں۔ جعلی اکاؤنٹس کی بھرمار سے مسائل نے جنم لیا۔ کئی خواتین مردوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوکر زندگیاں گنوا بیٹھیں۔ حال ہی میں سابق ڈی آئی جی گلگت بلتستان کے خلاف ایف آئی اے نے مقدمہ درج کیا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے سابقہ بیوی کی تصاویر فیس بک پر ڈالی ہیں۔ اسی طرح متعدد واقعات ہیں جو معاشرے کےلیے ناسور بنے۔ ایف آئی اے کی رپورٹس کے مطابق سائبر کرائم سیل میں سب سے زیادہ شکایات جنسی ہراسانی کی موصول ہوئی ہیں۔ رواں سال اس ادارے کو 2,295 شکایات موصول ہوئیں، 255 مقدمات درج کیے گئے اور 209 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ توہین مذہب اور نفرت انگیز مواد پھیلانے پر سزائیں بھی سنائی گئیں۔ رواں سال سائبر کرائم کی شرح ماضی سے زیادہ ہے۔

دنیا بھر میں حکومتوں کے اقدامات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سب سے بڑا خطرہ سوشل میڈیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے اسے بین کر رکھا ہے تو امریکا میں مڈٹرم الیکشن کے دوران فیس بک کے 30 اور انسٹاگرام کے 85 اکاؤنٹس بندکردیئے گئے۔ ان اکاؤنٹس پر الزام یہ عائد کیا گیا کہ یہ انتخابی نتائج پر اثر انداز ہورہے تھے جبکہ یہ روسی اور فرانسیسی زبانوں میں تھے۔

حال ہی میں پاکستان میں چلنے والی احتجاجی لہر کے پیچھے بھی سوشل کا ہاتھ بتایا جاتا ہے۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے مطابق اشتعال انگیزی پھیلانے والے زیادہ اکاؤنٹس بھارت اور افغانستان سے آپریٹ ہوتے رہے ہیں۔ کسی حد تک حکومت کا الزام بھی درست ہے۔ کیونکہ ٹی وی چینلز اور اخبارات تو حکومت کے کنٹرول میں تھے جنہوں نے اس آسیہ مسیح کیس کی سماعت سے فیصلہ آنے تک سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کوئی خبر نہیں دی۔ سوشل میڈیا پر زیادہ شور تب مچا جب وزیراعظم نے خود ٹی وی پر اپنے خطاب میں دھمکی آمیز لہجے میں مظاہرین کو چھوٹا طبقہ کہا۔ انہوں نے مظاہرین کی طرف سے کی گئی تقاریر کو بھی اپنے الفاظ میں بیان کردیا، وگرنہ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ کس نے کیا کہا۔ اس سے پہلے ایک ریاستی ادارے کی جانب سے ٹوئٹر اکاؤنٹس کی فہرست جاری کی گئی تھی جنہیں مختلف حوالوں سے تنقید کرنے پر واچ لسٹ میں رکھا گیا ہے۔

یہ امید بھی اب پاکستان کے عوام سے چھیننے کا منصوبہ سامنے آیا ہے۔ حکومت نے خفیہ طور پر قانون بنایا ہے جس کے تحت سوشل میڈیا پر موجود کروڑوں ذہنوں کو قید کیا جائے گا۔ اب صارفین وہی بول سکیں گے جو ریاست کو اچھا لگے گا، حکومت کےلیے ناگوار نہیں ہوگا، بے لگام گھوڑا کھونٹے سے باندھا جائے گا۔ کابینہ نے جو ریگولیشن کا قانون منظور کیا ہے اسے پارلیمنٹ میں بھی پیش نہیں کیا جائے گا۔ حکومت نے اسے خفیہ رکھنے کی وجہ بتائی ہے کہ وفاقی کابینہ میں منظور کیے گئے قوانین کے مطابق سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی 3 ماہ میں پاکستان میں رجسٹریشن لازمی قرار دے دی گئی ہے۔ یوٹیوب، فیس بک، ٹویٹر سمیت تمام کمپنیاں رجسٹریشن کرانے کی پابند اور کمپنیوں کےلیے 3 ماہ میں وفاقی دارالحکومت میں دفتر قائم کرنا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور کمپنیوں کو ایک سال میں ڈیٹا سرور بنانا ہوں گے، جب کہ سوشل میڈیا کمپنیوں پر پاکستان میں رابطہ افسر تعینات کرنے کی شرط بھی عائد کی گئی ہے۔

اداروں اور ملکی سلامتی کے حوالے سے بات کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوسکے گی۔ سوشل میڈیا کمپنیوں کو ریگولیٹ کرنے کےلیے نیشنل کوآرڈینیشن اتھارٹی بنائی جائے گی۔ ملکی اداروں کو نشانہ بنانے، ممنوعہ مواد اور ہراسگی کی شکایت پر اکاؤنٹ بند کرسکے گی۔ اتھارٹی سوشل میڈیا کمپنیوں کے خلاف ویڈیوز نہ ہٹانے پر ایکشن لے گی اور اگر کمپنیوں کی جانب سے تعاون نہ کیا تو ان کی سروسز معطل کردی جائیں گی۔ یہ قانون کتنا موثر ہے؟ اس کا تو وقت بتائے گا۔

یہ خبر بھی پڑھیے: سوشل میڈیا پر لوگوں کی عزت تار تار ہورہی ہےاسی لیے ریگولیٹ کیا، فواد چوہدری

لیکن سوشل میڈیا کی طاقت پر حکومت میں آنے والی پی ٹی آئی اب خود اسی سوشل میڈیا سے خوفزدہ ہے۔ یہ اس بے لگام گھوڑے کو’’ریگولیشن‘‘ کے کھونٹے سے باندھ رہی ہے۔ یہ کھونٹا اس کا اپنا ہے یا کسی اور کا دیا ہوا ہے، اس بحث میں نہیں پڑتے۔ یہ چاہتی ہے کہ اس کے ہر سیاہ و سفید کو ’’سب اچھا ہے‘‘ کے پیرائے میں دیکھا جائے۔ ظلمت کو ضیاء، صرصر کو صبا، پتھر کو گہر، دیوار کو دَر، کرگس کو ہُما دکھایا جائے۔ بے حال عوام کو خوشحال لکھا جائے۔ ویران گلیوں، سنسان راستوں، اجڑے چمن میں ہریالی ہی ہریالی پیش کی جائے۔

یہی کام بھارت کا مودی کرتا ہے تو ہم اسے فسطائی کہتے ہیں۔ یہی کام امریکی صدر ٹرمپ کرتا ہے اسے ہم گالیاں دیتے ہیں۔ ہمیں اپنا سچ سچ کیوں لگتا ہے؟ کسی دوسرے کا سچ سننے کا بھی دل گردہ ہونا چاہئے۔ چھوٹی سی درخواست ہے کہ آزادی کا چھوٹا فورم تھا اسے آزاد ہی رہنے دیجئے، وگرنہ آزادی اور غلامی میں کیا فرق رہ جائے گا؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔