سی آئی اے کا ’’آپریشن روبیکون‘‘

سید عاصم محمود  اتوار 1 مارچ 2020
امریکی اور جرمن خفیہ ایجنسیوں نے مل کر 48 برس تک کئی ممالک کی جاسوسی کی اور سرکاری راز چرائے ۔  فوٹو : فائل

امریکی اور جرمن خفیہ ایجنسیوں نے مل کر 48 برس تک کئی ممالک کی جاسوسی کی اور سرکاری راز چرائے ۔ فوٹو : فائل

گیارہ فروری کو ممتاز امریکی اخبار، واشنگٹن پوسٹ نے ایک انوکھا انکشاف کیا۔ یہ کہ 1970ء سے لے کر 2018ء تک سوئٹزر لینڈ کی ایک کمپنی، کرپٹو اے جی (Crypto AG)کی اصل مالک امریکا کی خفیہ ایجنسی، سی آئی اے تھی۔

کرپٹو اے جی پیغام رسانی خفیہ رکھنے والی جدید ترین مشینیں بناتی تھی۔اس کا شمار اپنی نوعیت کی سب سے بڑی کمپنیوں میں ہوتا تھا۔ دنیا کے ایک سو بیس ممالک کی حکومتیں کمپنی کی گاہک  تھیں۔ وہ مسلسل اڑتالیس سال تک کرپٹو اے جی سے سرکاری پیغام رسانی خفیہ رکھنے والی مشینیں خریدتی رہیں۔مگر ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اپنے جن  پیغامات کو وہ خفیہ اور محفوظ سمجھ رہی ہیں،حقیقتاً سبھی امریکی سی آئی اے کی دسترس میں ہیں۔

دراصل سی آئی اے کے ماہرین کرپٹو اے جی کی مشینوں میں ایسے ’’ٹروجن ہارس‘‘ رکھ دیتے تھے کہ بعدازاں ان کی مدد سے حکومتوں کی خفیہ پیغام رسانی تک رسائی حاصل ہوسکے۔اب اس فعل کو ہر کوئی اپنی عینک ہی سے دیکھے گا۔ عام امریکی تو کہہ رہے ہیں کہ سی آئی اے کے کارپردازان نے ذہانت و ہوشیاری کی اعلیٰ مثال قائم کردی۔ انہوں نے مخالفین کی جاسوسی کرنے کے لیے ایسا زبردست طریق کار دریافت کیا کہ جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔سی آئی اے ایک سو بیس ملکوں کی حکومتوں کو بے وقوف بناکر ان کے اہم راز امریکی حکومت تک پہنچاتی رہی۔

مسئلہ مگر یہ ہے کہ کرپٹو اے جی کی خراب شدہ مشینوں سے سی آئی اے دوست ممالک کی پیغام رسانی بھی پڑھتی، جانتی رہی۔ ان ملکوں میں پاکستان، وٹیکن سٹی، اٹلی، آئرلینڈ، ترکی، اسپین، مصر، اردن، کویت، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات حتیٰ کہ جاپان اور جنوبی کوریا تک شامل ہیں۔ ان ممالک نے تو کرپٹو اے جی کی مشینیں اسی لیے خریدیں کہ اپنی اہم نوعیت کی پیغام رسانی  خفیہ رکھ سکیں۔ شاید وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ یہ دراصل ایک فراڈ ہے… زبردست دھوکا جو سی آئی اے نے انہیں دیا۔

انسانی اقدار و روایات پامال

اس زاوئیے سے دیکھا جائے تو سی آئی اے اور اس کی شریک کار یورپی خفیہ ایجنسیاں مجرم قرار پاتی ہیں کیونکہ انہوں نے جانتے بوجھتے دوست ممالک کو ناقص مشینیں مہیا کیں اور چوری چھپے، غیر اخلاقی طور پر ان کی خفیہ پیغام رسانی کا معائنہ کرتی رہیں۔ اسی طرح امریکی حکمران طبقہ جھوٹا، فراڈیا اور دھوکے باز ثابت ہوگیا۔ البتہ بہت سے امریکی کہہ سکتے ہیں کہ قومی سلامتی اور اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے ان کی حکومت نے جائز اقدام کیا۔ دوسروں کی جاسوسی کرنے کے لیے امریکی حکومت پر جائز اور ناجائز اقدامات اختیار کرسکتی ہے۔ اسی نظریے کے باعث امریکی حکمران طبقہ پچھلے ایک سو برس سے کئی انسانی اقدار و روایات پامال کرتا چلا آرہا ہے۔ بہت سے مواقع پر اس نے قانون و اخلاقیات کو پیروں تلے روند ڈالا اور نام نہاد قوم پرستی کی وجہ سے اپنے ضمیر پر کوئی بوجھ محسوس نہیں کیا۔

ماضی ایک نظر میں

کرپٹو اے جی کی بنیاد 1920ء میں سویڈن کے شہر، اسٹاک ہوم میں سویڈش انجینئر ،ارود جیئرہارڈ  نے رکھی تھی۔ ارود جیئرہارڈ پیغام خفیہ رکھنے والی مشینیں بنانے کا ماہر تھا۔ اس کمپنی میں کارل ولیم ہیگلین نے بھی سرمایہ کاری کی۔ 1925ء میں کارل کا بیٹا، بورس ہیگلین کمپنی کا جنرل میجر بن گیا۔ 1927ء میں ارود جیئر ہارڈ چل بسا تو حصے داروں نے بورس کو کمپنی کا چیف ایگزٹیو آفیسر بنا دیا۔کاروبار پھیلانے کے لیے بورس نے امریکا کے کئی دورے کیے۔ وہ چاہتا تھا کہ امریکی افواج کمپنی کی مشنیں خرید لے۔ امریکا کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی، این ایس اے، سی آئی اے اور امریکی افواج کے کئی افسر اس کے دوست بن گئے۔ 1940ء میں دوسری جنگ عظیم چھڑگئی۔ اس جنگ کے دوران وہ امریکی افواج کو کمپنی کی ایک لاکھ چالیس ہزار مشینیں فروخت کرنے میں کامیاب رہا۔

1948ء میں بورس ہیگلین نے کمپنی کو سویڈن سے سوئٹزرلینڈ میں منتقل کردیا۔ تب اس کا نام بھی اے بی کرپٹو ٹیکنک سے بدل کر کرپٹو اے جی رکھ دیا گیا۔ بورس بھی میکینکل انجینئر تھا۔ اس نے بھی پیغام رسانی خفیہ رکھنے والی جدید مشینوں کی ایجاد میں حصہ لیا۔ خاص بات یہ کہ وہ امریکی خفیہ ایجنسیوں کے اشتراک سے اپنی مشینیں بیرون ممالک فروخت کرنے لگا۔ اگرچہ یہ اشتراک بہت خفیہ تھا اور کئی سال بعد اس وقت ہی افشا ہوا جب میڈیا اسے سامنے لانے میں کامیاب رہا۔ مزید براں یہ اشتراک صرف اس امر تک محدود تھا کہ کرپٹو اے جی کن ممالک کو مشینیں فروخت کرے اور کون سے ملکوں کو انکار کردے۔ بعض اوقات امریکی خفیہ ایجنسیوں کی ہدایت پر بعض ممالک کو کم جدید مشینیں بھی فروخت کی جاتی تھیں۔ ظاہر ہے، امریکی حکمران طبقہ نہیں چاہتا تھا کہ ان ممالک میں پیغام رسانی خفیہ رکھنے کا نظام مضبوط و موثر ہوسکے۔

1970ء میں بورس ہیگلین ریٹائر ہوگیا۔ اسی سال سی آئی اے نے جرمن خفیہ ایجنسی، بی این ڈی کے اشتراک سے کرپٹو اے جی خریدلی۔ یہ خریداری انتہائی خفیہ رکھی گئی۔ دونوں خفیہ ایجنسیوں نے اس ضمن میں ستاون لاکھ پچاس ہزار ڈالر ادا کیے۔ اب کمپنی میں دونوں خفیہ ایجنسیوں کے ماہرین کی نگرانی میں ایسی مشینیں بننے لگیں جن میں پوشیدہ طور پر کوڈورڈ رکھ دیئے جاتے۔ جب یہ مشینیں مختلف حکومتیں خریدتیں تو چھپائے گئے کوڈورڈز کے ذریعے سی آئی اے ان کی خفیہ پیغام رسانی افشا کرلیتی۔ یوں امریکا اور جرمنی کی خفیہ ایجنسیاں جان جاتیں کہ فلاں حکومت میں کسی قسم کی سرگرمیاں جاری ہیں۔

ایک سو بیس ممالک کی خفیہ پیغام رسانی پڑھنے و جاننے کے اس خفیہ امریکن و جرمن آپریشن کا پہلا نام ’’تھیسارس‘‘(Thesaurus) تھا۔ پھر اس انتہائی چالاکی سے بنائے گئے منصوبے کو ’’آپریشن روبیکون‘‘(Operation Rubicon) کا نام دیا گیا۔ واشنگٹن پوسٹ کا دعویٰ ہے کہ دونوں خفیہ ایجنسیوں کو ممالک کی پیغام رسانی پڑھنے سے جو معلومات حاصل ہوتیں، وہ چار پانچ دیگر ممالک سے شیئر کی جاتیں۔ ان میں برطانیہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور اسرائیل شامل ہوسکتے ہیں۔

بھٹو سے مشرف دور تک

پاکستانی حکومتیں بھی وقتاً فوقتاً کرپٹو اے جی کی تیار کردہ مشینیں خریدتی رہی ہیں۔ امریکی اخبارکی رپورٹ میں درج نہیں کہ پاکستانی حکومت کی خفیہ پیغام رسانی سے سی آئی اے کو کس قسم کا اور کتنا فائدہ پہنچا۔ لیکن یہ عیاں ہے کہ اپنی تخلیق کردہ رمزی مشینوں کی مدد سے امریکی خفیہ ایجنسی پاکستان کے کئی اہم قومی راز جاننے میں کامیاب رہی ہوگی… ایسے راز جو خاص طور پر پاکستانی ایٹمی پروگرام اور اسلام آباد میں جاری سیاسی چپقلشوں سے تعلق رکھتے ہوں گے۔

1970ء سے لے کر 2018ء تک پاکستان میں بعض اہم اور انقلاب انگیز واقعات جنم لے چکے۔ حیرتناک بات یہ کہ اکثر میں امریکا کا کردار واضح نظر آتا ہے۔ مثال کے طور ہمارے ہاں یہ تاثر عام ہے کہ 1975ء میں بھارتی ایٹمی دھماکے کے بعد وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کا ایٹمی منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ امریکا کو اس فیصلے کی خبر مل گئی۔ چناں چہ امریکیوں نے بھٹو صاحب پر زبردست دباؤ ڈالا کہ وہ ایٹمی منصوبہ شروع نہ کریں۔ بھٹو صاحب کے انکار پر انہیں راہ سے ہٹا دیا گیا۔ یہ ممکن ہے کہ پاکستانی وزیراعظم کے درج بالا فیصلے کی سن گن امریکیوں کو کرپٹو اے جی کی فراہم کردہ مشینوں سے ہوئی پیغام رسانی کے ذریعے بھی ملی ہو۔ان مشینوں کا ثبوت ناقابل تردید تھا۔

اسی طرح 1987ء میں امریکا اچانک افغانستان میں سویت فوج کے خلاف جاری افغانوں کے جہاد سے لاتعلق ہوگیا اور پاکستانی صدر، ضیاء الحق نے اپنے آپ کو یکا و تنہا پایا۔ اس زمانے کے پاکستانی سفارتکاروں کی یادداشتوں اور آپ بیتیوں میں لکھا ہے کہ صدر ضیاء الحق امریکی حکمران طبقے سے بہت ناراض تھے۔ حتیٰ کہ وہ محفلوں میں کہنے لگے ’’امریکی (حکمران)سمجھتے ہیں کہ پاکستانی ان کی مدد کے بغیر نہیں چل سکتے۔ امریکی حکومت یاد رکھے کہ پاکستان ایک مضبوط ملک ہے۔ اگر ہم سویت یونین کو شکست دے سکتے ہیں تو امریکا کا مقابلہ کرنا بھی ممکن ہے۔‘‘ امریکی حکمران طبقے کا مخالف بن جانے کے بعد جلد ہی پاکستانی صدر ہوائی جہاز کے پُراسرار حادثے میں شہید ہوگئے۔ یہ عین ممکن ہے کہ کرپٹو اے جی کی مشینوں کے ذریعے سی آئی اے کو اطلاعات مل رہی ہوں کہ صدر ضیاء الحق اب امریکی مفادات کے خلاف سرگرم ہوچکے۔ اسی لیے انہیں راہ سے ہٹا دیا گیا۔

ستمبر 2001ء میں پُراسرار ہائی جیکروں نے امریکا میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر جہاز ٹکرا کر گرا ڈالا۔ حیرت انگیز امر یہ کہ محض ایک گھنٹے بعد پورا امریکی میڈیا یہ اعلان کرنے لگا کہ ہائی جیکروں کو اسامہ بن لادن نے بھجوایا تھا۔ ممکن ہے کہ سعودی اور پاکستانی حکومتوں کی خفیہ پیغام رسانی کا جائزہ لینے کے بعد امریکی حکومت اس نتیجے پر پہنچی کہ یہ حملہ القاعدہ نے کرایا ہے۔ حملے کے فوراً بعد امریکی حکمرانوں نے ایک طرح سے پاکستانی حکومت پر چڑھائی کردی۔اس وقت پرویز مشرف پاکستانی صدر تھے۔ انہیں کہا گیا کہ وہ امریکا کی طرف داری کریں یا طالبان کے حمایتی بن کر اس کے دشمن کہلائیں۔ سفارتکاروں کی یادداشتوں سے عیاں ہے، امریکیوں نے پاکستانی حکومت کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں امریکا سے تعاون نہ کیا، تو پاکستان بھی امریکی جنگ کا نشانہ بن جائے گا۔یہ دوسری بات ہے کہ امریکا کا ساتھی بن کر بھی پاکستان اگلے سترہ اٹھارہ سال تک دہشت گردی کا شکار بنا رہا۔

غیر جانب دار ملک کا فائدہ

یہ عیاں ہے،پچھلے تیس چالیس سال کے دوران  پاکستانی حکمران طبقہ تعجب وحیرت سے سوچتا ہوگا کہ ان کی خفیہ باتیں امریکی حکومت کو کیسے پتا چل جاتی ہیں؟ اب یہ سچ سامنے آیا کہ یہ کرپٹو اے جی کی ناقص مشینیوں کا کمال تھا۔ یہ مشینیں بظاہر ایک غیر جانب دار ملک، سوئٹزر لینڈ کی ساختہ تھیں، مگر حقیقتاً سی آئی اے نے انہیں اپنا مشینی جاسوس بنا دیا تھا۔ یوں سوئٹزر لینڈ کی غیر جانبدارانہ حیثیت سے امریکی خفیہ ایجنسی نے فائدہ اٹھایا اور کئی ممالک کے اہم قومی راز چوری کرنے میں کامیاب رہی۔

امریکا میں میڈیا خاصی حد تک امریکی حکومت کے تابع ہوچکا۔ خاص طور پر وہ قومی سلامتی سے متعلق حساس موضوعات پر کچھ دینے سے قبل بڑی احتیاط برتتا ہے۔ حیرت ہے کہ واشنگٹن پوسٹ نے کیونکر امریکی حکمران طبقے کا یہ اہم راز افشا کردیا کہ سی آئی اے کرپٹو اے جی کی مشینوں کے ذریعے سینکڑوں ممالک کی جاسوسی کرتی رہی؟ اس انکشاف سے بہرحال امریکا کی جاسوس کمیونٹی کو نقصان پہنچا۔ اب ہر حکومت امریکا یا یورپی ممالک کی ایسی مشینیں خریدنے سے قبل ہزارہا بار سوچیں گی جو خفیہ پیغام رسانی اور قومی نوعیت کی پوشیدہ سرگرمیوں میں استعمال ہوتی ہیں۔

یہ انکشاف بہرحال یہ پہلو بھی رکھتا ہے کہ امریکی و جرمن خفیہ ایجنسیوں کے کار پرداز بڑے ذہین، چالاک اور سمجھدار ہیں۔ انہوں نے بڑی ذہانت سے کئی ممالک کو اپنی مشینیں بیچ کر انہیں چکمہ دیا اور ان کے اہم نوعیت والے راز حاصل کرتے رہے۔ ممکن ہے، سی آئی اے کی عظمت و رفعت ثابت کرنے کی خاطر امریکی حکومت نے فیصلہ کیا کہ کرپٹو اے جی کی اصلیت افشا کردی جائے۔ یہ کمپنی 2018ء میں کام بند کرچکی۔ لہٰذا اب یہ خطرہ بھی نہیں رہا تھا کہ اس کا کاروبار متاثر ہوگا۔

حکمران طبقے کی تبدیلی ِمعکوس

آج کل امریکا اور اس کے ہمنوا یورپی ممالک نے چین کی کمپنی، ہواوے کے خلاف زبردست مہم چلا رکھی ہے۔ چینی کمپنی مواصلات سے متعلق آلات، مشینیں اور 4 و 5ٹیکنالوجی بناتی ہے۔ امریکی حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ چینی کمپنی اپنی مشینوں میں ایسے رمزی کوڈ چھپاتی ہے جن کی مدد سے وہ بعدازاں پیغامات پڑھنے کے قابل ہوجاتی ہے۔ ہواوے کئی بار اعلان کرچکی کہ یہ محض الزام ہے۔ وہ اپنی مشینوں، آلات اور ٹیکنالوجی میں کسی قسم کے فراڈی سافٹ ویئر پوشیدہ نہیں رکھتی۔ دنیا بھر کے ماہرین حیران تھے کہ آخر امریکی حکمرانوںکو  چینی کمپنی پر شک کیوں ہے؟ اب یہ سچائی سامنے آئی ہے کہ امریکی حکمران ٹیلی کمیونیکیشن کی مشینوں اور آلات میں جاسوسی کے کوڈ ورڈز چھپاتے رہے ہیں۔ ان کے دل میں چور ہے، اسی لیے وہ دوسروں کو بھی دھوکے باز اور فراڈی سمجھتے ہیں۔

امریکا کے حکمران طبقے کی تبدیلی ِمعکوس حیران کن اور سبق آموز  ہے۔ اوائل میں یہ طبقہ بنجمن فرینکلن، جارج واشنگٹن، تھامس جیفرسن، جیمز میڈیسن، ابراہام لنکن جیسے مدبروں اور دانشوروں پر مشتمل تھا۔ یہ رہنما جمہوریت، انسانی حقوق اور عدل و انصاف پر یقین رکھتے تھے۔ لیکن بیسویں صدی میں امریکی حکمران طبقہ مادہ پرستی اور زر، زن، زمین کے چنگل میں پھنس گیا۔ تبھی سے وہ اپنا اقتدار اور طاقت برقرار رکھنے کی خاطر ہر قسم کی بدی اپنانے  سے بھی گریز نہیں کرتا۔آپریشن روبیکون اس سچائی کا بین ثبوت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔