خاتون کا نہیں، بھارت کا چہرہ بے نقاب ہوگیا

ایک وزیر اعلیٰ کو یہ اختیار کس نے دیا کہ وہ کسی خاتون کی شناخت کو سرِ عام نشانہ بنائے


مصطفےٰ صفدر بیگ December 18, 2025

بھارت آج جس موڑ پر آن پہنچا ہے، وہاں تاریخ سانس روکے کھڑی ہے اور جمہوریت اپنے ہی سائے سے خوف زدہ دکھائی دیتی ہے۔ ایک طرف دستور کی روشن سطریں ہیں، جو برابری، آزادی اور رواداری کا وعدہ کرتی ہیں تو دوسری طرف ہندوتوا کا وہ تند و تیز بیانیہ ہے جو اکثریت کے غرور کو ریاستی طاقت کا عصا تھما کر اقلیتوں کے دروازے پر دستک نہیں دیتا بلکہ انہیں دھکیل کر کھولتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے بھارت کی روح کسی خاموش عدالت میں کھڑی ہو، جہاں فیصلے دلیل سے نہیں، شناخت سے سنائے جا رہے ہوں۔

ہندوتوا کو محض مذہبی عقیدہ سمجھنا ایک سادہ لوحی ہے۔ یہ دراصل سیاست کی وہ تیز دھار تلوار ہے جسے مذہب کی نیام میں چھپا کر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس تلوار کی کاٹ قانون میں بھی ہے، نصاب میں بھی، میڈیا کے شور میں بھی اور ریاستی اداروں کی خاموشی میں بھی۔ گزشتہ ایک دہائی میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس نظریے کو اس مہارت سے ریاستی پالیسی کا حصہ بنایا ہے کہ تعصب اب ہجوم کی نفسیات نہیں رہا بلکہ نظام کا مزاج بن چکا ہے۔ مسلمان، عیسائی، سکھ اور دلت اس بدلتے ہوئے موسم میں ایسے مسافر ہیں جن سے ہر موڑ پر شناختی کاغذات مانگے جا رہے ہیں اور ہر سوال کا جواب پہلے سے طے شدہ ہے۔

اس منظرنامے میں گائے کے نام پر بہتا ہوا خون، عبادت گاہوں پر اٹھتے ہوئے ہتھوڑے، شہریت کے قوانین میں چھپی ہوئی لکیریں اور مذہبی لباس پر لگائی جانے والی قدغنیں محض واقعات نہیں بلکہ جبر کا ایک تسلسل ہیں۔ یہ تسلسل اس سوچ کا آئینہ ہے جو اقلیت کو برابر کا شہری نہیں بلکہ ناقابل برداشت بوجھ سمجھتی ہے۔ ایسا بوجھ جسے وقتاً فوقتاً یاد دلایا جائے کہ اس کی حیثیت کیا ہے اور حد کہاں تک ہے۔

اسی تسلسل کی ایک کڑی بہار کی وہ تقریب بن گئی جہاں اقتدار کی کرسی پر بیٹھے شخص کے ہاتھ سے شائستگی کا دامن پھسل گیا اور طاقت کا غرور ننگا ہو کر سامنے آ گیا۔ ایک مسلمان خاتون ڈاکٹر، جو علم اور محنت کی سند ہاتھ میں لیے ریاست کی خدمت کے خواب کے ساتھ وہاں موجود تھیں، اچانک اپنی ذات کے سب سے نازک حصے پر حملے کا نشانہ بن گئیں۔ ان کا نقاب نوچا گیا۔ وہ نقاب جو محض کپڑے کا ٹکڑا نہیں بلکہ یقین، اختیار اور شخصی آزادی کی علامت تھا۔ یہ عمل کسی لمحاتی لغزش کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اس ذہنیت کا اظہار تھا جو اقلیت کے وجود کو قابل تصرف شے سمجھتی ہے۔

یہ سوال اپنی جگہ پوری شدت کے ساتھ موجود ہے کہ ایک وزیر اعلیٰ کو یہ اختیار کس نے دیا کہ وہ کسی خاتون کی شناخت کو سرِ عام نشانہ بنائے۔ وہ خاتون نہ احتجاج کر رہی تھیں، نہ قانون توڑ رہی تھیں اور نہ ہی کسی بحث کا حصہ تھیں۔ وہ تو ایک سرکاری تقریب میں ایک باوقار شہری کی حیثیت سے موجود تھیں۔ مگر ان کا مسلمان ہونا ہی ان کا جرم ٹھہرا۔ نقاب ہٹانا دراصل صرف چہرہ عیاں کرنا نہیں تھا بلکہ یہ ایک نفسیاتی پیغام تھا کہ یہاں طاقت کے سامنے کوئی پردہ معتبر نہیں۔

اس واقعے کے بعد اس خاتون ڈاکٹر کا ذہنی دباؤ کا شکار ہونا اور سرکاری ملازمت جوائن نہ کرنے کا فیصلہ محض ایک ذاتی المیہ نہیں بلکہ یہ پورے نظام کے ماتھے پر زہر آلود لکیر ہے۔ جس ریاست میں اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان عورت خود کو غیر محفوظ سمجھے، وہاں ترقی کے سارے دعوے کھوکھلے محسوس ہوتے ہیں۔ یہ خوف صرف ایک فرد کا نہیں بلکہ یہ اس معاشرے کا خوف ہے جہاں مسلمان ہونا آہستہ آہستہ ایک بوجھ بنتا جا رہا ہے۔

نتیش کمار کا نام اگرچہ براہ راست بی جے پی کی فہرست میں نہیں، مگر وہ اسی سیاسی قافلے کا حصہ ہیں جس کی منزل ہندوتوا کے بیانیے سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ واقعہ اس حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ یہ نظریہ اب کسی ایک جماعت کی میراث نہیں رہا بلکہ اس کے اتحادی بھی اسی رنگ میں رنگے جا چکے ہیں۔ جب اقتدار کے ایوانوں سے اس عمل پر کوئی فوری اور دوٹوک معذرت سامنے نہ آئے تو خاموشی خود ایک اعلان بن جاتی ہے۔ ایک ایسا اعلان جو اقلیتوں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ ان کے زخموں کی کوئی قیمت نہیں۔

سماج وادی پارٹی کی راہنما سمیعہ رانا کی جانب سے اس مقدمے کے اندراج کیلئے آگے آنا اندھیرے میں جلتا ہوا دیا ضرور ہے، مگر اس کی لو کتنی دیر تک روشن رہے گی؟ یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے۔ بھارتی عدالتی نظام پہلے ہی اقلیتوں کے معاملات میں سوالوں کی زد میں ہے۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ ایسے مقدمات یا تو فائلوں کی گرد میں دفن ہو جاتے ہیں یا انصاف کی راہ میں اتنے موڑ آجاتے ہیں کہ سائل تھک کر بیٹھ جاتا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کا ردعمل اس حقیقت کی تصدیق ہے کہ یہ محض ایک ریاستی یا مقامی واقعہ نہیں بلکہ انسانی حقوق کا عالمی مسئلہ ہے۔ کسی عورت کا حجاب یا نقاب زبردستی ہٹانا اس کی آزادی، اس کی شناخت اور اس کے وقار پر صریحا حملہ ہے۔ یہی خوف اور یہی عدم تحفظ دراصل ہندوتوا سیاست کا سب سے مؤثر ہتھیار ہے۔ خوف کے ذریعے خاموشی پھیلائی جاتی ہے اور خاموشی کے ذریعے بیانیہ مضبوط کیا جاتا ہے۔

بی جے پی کے دور میں نفرت انگیز تقاریر، ہجوم کے ہاتھوں قتل، مساجد کے سروے اور تعلیمی اداروں میں امتیاز کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں۔ یہ ایک سوچا سمجھا عمل ہے جس کا مقصد مسلمانوں کو سماجی حاشیے پر دھکیلنا ہے تاکہ وہ سیاسی طور پر بے اثر ہو جائیں۔ بہار کا واقعہ اسی زنجیر کی ایک کڑی ہے، جہاں ایک مسلمان خاتون کو اس کی پیشہ ورانہ قابلیت کے باوجود اس کی مذہبی شناخت کی سزا دی گئی۔

بھارتی میڈیا کا رویہ اس سارے منظرنامے میں ایک اور تلخ باب ہے۔ اکثریتی میڈیا یا تو خاموش رہا یا اس واقعے کو معمولی بنا کر پیش کیا گیا۔ یہی میڈیا جب کسی مسلمان پر معمولی سا الزام لگتا ہے تو اسے بریکنگ نیوز بنا کر اچھالتا ہے۔ یہ دوہرا معیار ہندوتوا کے بیانیے کو آکسیجن فراہم کرتا ہے اور اقلیتوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کرتا ہے۔

آج بھارت میں مسلمان والدین اپنی بیٹیوں کی تعلیم کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے دس بار سوچنے پر مجبور ہیں۔ وہ یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا تعلیم تحفظ کی ضمانت ہے یا نمایاں ہونے کا ایک نیا خطرہ؟ بہار کی خاتون ڈاکٹر کا واقعہ اسی سوال کا مجسم جواب ہے۔ یہ ایک فرد کا سانحہ نہیں بلکہ ایک پوری نسل کی تشویش کا اظہار ہے۔

اگر ہندوتوا کا یہ سفر یونہی جاری رہا تو بھارت کی سیکولر شناخت محض آئینی دستاویزات تک محدود ہو کر رہ جائے گی۔ اقلیتوں کو دیوار سے لگانے کی پالیسی نہ اخلاقیات سے ہم آہنگ ہے، نہ ریاستی استحکام کے لیے محفوظ۔ تاریخ بار بار یہ سبق دہراتی ہے کہ جب ریاستیں اپنے شہریوں کو مذہب کی بنیاد پر بانٹنا شروع کردیتی ہیں تو انجام ہمیشہ تلخ ہوتا ہے۔ نفرت کے بیج وقتی فائدہ دے سکتے ہیں، مگر فصل ہمیشہ آگ کی ہوتی ہے۔

بہار کے اس واقعے نے ایک بار پھر یہ بنیادی سوال اٹھا دیا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کا مستقبل کیا ہے؟ کیا وہ صرف ووٹ بینک ہیں یا واقعی برابر کے شہری بھی ہیں؟ جب تک اس سوال کا جواب عملی اقدامات میں نہیں ملتا، ہندوتوا کا سایہ اقلیتوں کے سروں پر منڈلاتا رہے گا۔ نتیش کمار کا عمل ایک آئینہ ہے اور اس آئینے میں آج کا بھارت اپنی اصل صورت دیکھ سکتا ہے۔ اب فیصلہ بھارت کو کرنا ہے کہ وہ اس عکس سے آنکھ چرائے گا یا سچ کا سامنا کرنے کا حوصلہ پیدا کرے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

 

تحریر کردہ
مصطفےٰ صفدر بیگ
مصنف کی آراء اور قارئین کے تبصرے ضروری نہیں کہ ایکسپریس ٹریبیون کے خیالات اور پالیسیوں کی نمائندگی کریں۔

مقبول خبریں