’’اچھا کھانا کھائیں یا بچوں کو پڑھائیں؟‘‘

سید عاصم محمود  اتوار 1 مارچ 2020
پڑوس میں  بڑھتی مہنگائی نے نچلے ومتوسط طبقوں کے والدین کو عجب مصیبت میں ڈال دیا

پڑوس میں  بڑھتی مہنگائی نے نچلے ومتوسط طبقوں کے والدین کو عجب مصیبت میں ڈال دیا

بھارتی شہر،ممبئی کی باسی تیس سالہ ترپتی کملا پچھلے چھ ماہ سے بہت پریشان ہے۔ وہ ہر دم اس گومگو میں رہتی ہے کہ آخر کس راستے کا انتخاب کرے؟ اپنے چاند سے بیٹے کو اچھی تعلیم دلوائے یا پھر اس کو اچھا کھانا کھلائے؟

ہمارے پڑوس بھارت میں صرف ترپتی ہی نہیں لاکھوں والدین اس مخمصے کا شکار ہیں۔ وجہ یہ کہ پچھلے نو دس ماہ سے بھارت میں خصوصاً اشیائے خورونوش بہت مہنگی ہوچکیں۔وطن عزیز میں ہر طرف یہ شور برپا ہے کہ مہنگائی آسمانوں پر پہنچ چکی اور اس بات میں صداقت بھی ہے ۔مگر ہم وطنوں کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ مہنگائی کا عجوبہ صرف پاکستان تک محدود نہیں ،اس نے بھارت اور ہمارے دیگر پڑوسیوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ لہٰذا اپنے حکمران طبقے کو سارا الزام دینے سے قبل اردگرد بھی نظر ڈال لیجیے تاکہ تصویر کا دوسرا رخ آپ دیکھ سکیں۔

اب بیچاری ترپتی کملا ہی کو لیجیے۔ وہ ایک گھر میں ملازم ہے۔ دن بھر کام کاج کرکے بارہ ہزار کماتی ہے۔ اس کا شوہر ایک نجی کمپنی سے بطور کلرک وابستہ ہے۔ وہ دس ہزار روپے کمالیتا ہے۔ دونوں میاں بیوی مل جل کر گھریلو اخراجات چلاتے ہیں۔ ان کا ایک چھ سالہ پیارا سا بیٹا ہے۔ دس ماہ قبل تک ترپتی اپنی آدھی تنخواہ بچالیتی تھی۔ اس نے سوچ رکھا ہے کہ وہ بیٹے کو اچھے سکول کالج میں پڑھائے گی تاکہ وہ ان سے زیادہ خوشحال اور پرآسائش زندگی گزارسکے۔ لیکن بڑھتی مہنگائی نے نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والی بھارتی خاتون کے سارے سہانے سپنے آئینے کی طرح چکنا چور کردیئے۔

اس سال کملا نے طے کررکھا تھا کہ وہ منے کو ممبئی کے ایک بڑے انگریزی میڈیم سکول میں داخل کرائے گی۔ اس نے محنت کی کمائی سے پیسے بچا بچا کر بھاری ایڈمیشن فیس جمع کرلی تھی۔ مگر جب اسے علم ہوا کہ سکول کی ماہانہ فیس آٹھ ہزار روپے ہے تو وہ مرجھا کر رہ گئی۔ چھ ہزار روپے تو وہ کسی نہ کسی طرح بچالیتی تھی مگر آٹھ ہزار؟ دو ہزار کہاں سے لائے؟ وہ اپنی سوچوں میں گم تھی کہ خوراک کی بڑھتی قیمتیں کوڑا بن کر اس پر برسنے لگیں اور کملا کو ہکا بکا کرگئیں۔

بھارت میں پچھلے ماہ اشیائے خورونوش کی قیمتیں چھ سال کے دوران سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئیں۔ اس زیادتی نے مگر بھارت کے لاکھوں غریب گھرانوں کو نئی مصیبت میں گرفتار کرا دیا۔ وجہ یہ کہ ان گھرانوں میں بیشتر آمدن کھانے پینے کے معاملات پر ہی خرچ ہوتی ہے۔ جب کھانا پینا ہی مہنگا ہوجائے، تو پھر محدود آمدن رکھنے والوں کے پاس دیگر اخراجات کی خاطر پیسہ نہیں بچتا۔ قدرتاً یہ امر انہیں پریشانی میں مبتلا کر ڈالتا ہے۔

کچھ عرصہ قبل بھارت میں پیاز دو سو روپے بک رہا تھا۔ اب بھی ستر، اسّی روپے میں دستیاب ہے۔ دیگر سبزیاں بھی دگنی تگنی مہنگی ہوچکیں۔ دالوں، مسالوں اور پھلوں کے ریٹ بھی بڑھ چکے۔ ایک سال قبل کملا میں دو دن مچھلی پکالیتی تھی۔ مگر یہ مچھلی اب سو کے بجائے دو سو روپے کلو ہوچکی ہے۔کملا کہتی ہے ’’میرا منا نشوونما پارہا ہے۔ ہم میاں بیوی اسے اچھی خوراک کھلانا چاہتے ہیں تاکہ وہ ایک صحت مند نوجوان بن سکے۔‘‘ لیکن دونوں اسی الجھن کا شکار ہیں کہ وہ منے کو اچھا کھانا کھلائیں یا اچھی تعلیم دلوائیں؟ ان کی آمدن اتنی نہیں کہ وہ منے کو یہ دونوں سہولتیں فراہم کرسکیں۔

دہلی کی رہائشی چالیس سالہ سویتا کو بھی یہی مسئلہ درپیش ہے۔ وہ ایک بس اڈے میں اخبارات و رسائل فروخت کرنے کا چھوٹا سا سٹال چلاتی ہے۔ اس کے دو بچے ہیں۔ لڑکا کالج میں فرسٹ ایئر کا طالب علم ہے۔ بیٹی فیشن ڈیزائننگ کا کورس کررہی ہے۔ سویتا کہتی ہے:’’ہم میاں بیوی اپنے بچوں کی تعلیم داؤ پر نہیں لگاسکتے۔ اسی لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ بے شک دیگر اخراجات پورے نہ ہوں، اپنے بچوں کی تعلیم پر خرچ ضرور کرنا ہے۔ اب ہم مچھلی و چکن نہیں کھاتے۔ نئے کپڑے نہیں خریدتے۔ جوتی ٹوٹ جائے تو مرمت کراکے کام چلاتے ہیں۔ اپنے بچوں کے سنہرے مستقبل کی خاطر ہم کوئی بھی قربانی دینے کو تیار ہیں۔‘‘

سویتا کا شوہر بسوں، چوکوں اور ریلوں میں موزے، رومال اور دیگر چھوٹی موٹی اشیا گھوم پھر کر بیچتا ہے۔ روزانہ دو تین سو روپے کمالیتا ہے۔ زندگی کی پرمشقت گاڑی چلاتے ہوئے پہلے میاں بیوی ہر ماہ تین ہزار بچالیتے تھے۔ سوچتے تھے کہ پس انداز رقم برے وقت میں کام آئے گی۔ مگر بڑھتی مہنگائی کا جن ان کی یہ بچت بھی نگل گیا۔

بھارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اشیائے خورونوش بعض وجوہ کی بنا پر مہنگی ہوئیں۔ پہلی وجہ یہ کہ پچھلے ایک سال کے دوران بارشوں کا سلسلہ غیر معمولی رہا۔ کبھی زیادہ بارشوں نے فصلیں خراب کردیں، کبھی بے موسمی بارشوں کے باعث بوائی نہیں ہوسکی۔ اس لیے سبزیاں وقت پر نہ بوئی جاسکیں اور ان کی قلت نے جنم لیا۔ چونکہ مانگ تو وہی رہی لہٰذا سبزیوں کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ پٹرول کی قیمت میں اضافے نے بھی مجموعی مہنگائی بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا۔

اشیائے خورونوش مہنگی ہونے سے بھارت میں سبزی و پھل کے دکانداروں اور ریڑھی والوں کا کاروبار کافی متاثر ہوا۔ راہول مشرا ممبئی میں اپنے چھکڑے پر سبزی و پھل بیچتا ہے۔ کہتا ہے ’’آج کل میرے گاہک بہت کم سبزی خریدتے ہیں۔ جو پہلے ایک دو کلو سبزی خریدتا تھا اب وہ ایک پاؤ خریدنے پر اکتفا کرتا ہے۔ بعض گاہکوں نے تو لہسن، پیاز، ٹماٹر خریدنا ہی چھوڑ دیا۔‘‘

رنجیت سونکر پھلوں کی دکان کا مالک ہے۔ وہ بتاتا ہے ’’پچھلے چھ ماہ سے پھلوں کی بکری بہت کم ہے۔ دراصل عام لوگ اسی وقت پھل خریدتے ہیں جب آٹا، چینی اور سبزی خریدنے کے بعد چار پیسے بچ جائیں۔ اب کھانے پینے کی عام اشیاء کافی مہنگی ہوچکیں اور کئی لوگ پیسے نہیں بچا پاتے۔ اس لیے لوگ پھل کم ہی خریدتے ہیں۔‘‘

57 سالہ اتم کمبلے نئی دہلی  موچی کا کام کرتا ہے۔ پھل اس کے لیے لگژری کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ ہر ماہ آٹھ دس ہزار روپے کماتا ہے۔ گھر میں بیوی، بیوہ بیٹی اور اس کے تین بچوں کا وہی اکلوتا سہارا ہے۔ وہ افسردگی سے کہتا ہے ’’جوتیاں مرمت کرنے کے پیشے میں زیادہ پیسا نہیں۔ مگر مجھے کوئی اور کام بھی تو نہیں آتا۔ پھر حکومت بھی کوئی مدد نہیں کرتی۔ وہ یہی چاہتی ہے کہ میں ساری زندگی موچی بنے گزار دوں۔‘‘

اشیائے خورونوش کی مہنگائی اتم کمبلے پر بم بن کر گری۔ وہ بتاتا ہے ’’اب ہم سبزی بہت کم کھاتے ہیں۔ سبزی میں پیاز نہیں ڈالتے اور نہ ہی ٹماٹر و لہسن۔ مسالے بھی مہنگے ہوچکے لہٰذا ان کا استعمال بھی کم کردیا ہے۔ عام طور پر ابلی چیز کھا کر پیٹ بھر لیتے ہیں۔ اب ہمارے کھانے میں کوئی ذائقہ نہیں رہا۔ مگر خالی جیب لیے ہم کیا کرسکتے ہیں؟‘‘

کشمیر میں زمینیں برائے فروخت

اپنی عسکری و معاشی قوت کے زعم و تکبر میں مبتلا مودی حکومت نے پہلے ریاست جموں و کشمیر پر زبردستی قبضہ کیا۔ اب وہ اپنے حقیقی عزائم بتدریج سامنے لارہی ہے۔ اس کا اصل منصوبہ یہ ہے کہ خصوصاً وادی کشمیر میں لاکھوں ہندو بسا دیئے جائیں تاکہ وہاں مسلم اکثریت ختم ہوسکے۔ یوں سنگھ پریوار مستقبل میں اس خطرے کا خاتمہ چاہتا ہے کہ کہیں وادی کشمیر پاکستان میں شامل نہ ہوجائے۔مودی حکومت نے ماہ مارچ میں سری نگر میں ’’جموں و کشمیر گلوبل انویسٹرز سمٹ 2020ء ‘‘ کرانے کا اعلان کیا ہے۔

اس موقع پر ریاست کی ’’چھ ہزار ایکڑ‘‘ زمین فروخت کے لیے پیش ہوگی۔ کانفرنس میں دنیا بھر سے سرمایہ کار شرکت کریں گے۔ زمین خرید کر کوئی بھی وہاں ہر قسم کا کاروبار شروع کرسکتا ہے۔ یہ وادی کشمیر پر مستقبل قبضے کا پہلا قدم ہے۔آنے والے دنوں میں وادی کی مذید زمینیں بھارتی سرمایہ کاروں کو فروخت کی جائیں گی تاکہ وہاں وسیع وعریض ہاوئسنگ کالونیاں بن سکیں۔جیسے اسرائیلی مغربی کنارے پر یہودی بستیاں بسا کر اسرائیل آہستہ آہستہ قبضہ کر رہا ہے،بعینہٖ اسی طرح بھارت بھی وادی کشمیر میں ہندو بستیاں بنا کر اس پہ قابض ہونا چاہے گا۔

مودی حکومت کا جنگی جنون

پچھلے دنوں مودی حکومت نے رواں سال کا دفاعی بجٹ پیش کیا۔ اس کی کل مالیت 4.71 لاکھ کروڑ روپے ہے جو امریکی کرنسی میں 73.65 ارب ڈالر بنتے ہیں۔ پاکستانی کرنسی کے حساب سے یہ رقم گیارہ ہزار تین سو ارب روپے سے زائد بنتی ہے۔ بھارتی دفاعی بجٹ کی وسعت کا اندازہ یوں لگائیے کہ پاکستان کا کل قومی بجٹ ساڑھے چھ ہزار ارب روپے ہے۔بھارت کے دفاعی بجٹ میں 1.13 لاکھ کروڑ سابق فوجیوں کے پنشن کے لیے مخصوص ہیں۔ حاضر فوجیں کی تنخواہوں کے لیے 1.1 لاکھ کروڑ روپے مختص کیے گئے۔

واضح رہے، پاکستان کا کل دفاعی بجٹ تقریباً ایک لاکھ کروڑ بھارتی روپے کے برابر ہے۔ بھارتی دفاعی بجٹ میں بقیہ رقم جاری اخراجات اور نیا اسلحہ خریدنے کے لیے رکھی گئی ہے۔اب یہ خوفناک تضاد ملاحظہ فرمائیے کہ ایک طرف تو بھارت میں لاکھوں ترپتی کملا، سویتا اور اتم کمبلے پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھاسکتے اور دوسری سمت بھارتی حکمران گیارہ ہزار تین سو ارب روپے اپنے مفادات کی تکمیل اور جھوٹی انا کی تسکین کے لیے خرچ کر ڈالتے ہیں۔

نریندر مودی کی زیر قیادت سنگھ پریوار کا طبقہ بھارت کو بین الاقوامی طاقت بنانا چاہتا ہے۔ اسی لیے وہ جدید ترین اسلحہ خریدنے پر اربوں ڈالر خرچ کررہا ہے تاکہ جنوبی ایشیا میں اپنی آمریت قائم کرسکے۔بھارت میں متوسط و نچلے طبقوں سے تعلق رکھنے والے کروڑوں بھارتی عوام سالانہ کئی ہزار ارب روپے کے ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکس اپنی حکومت کو ادا کرتے ہیں۔ حق و انصاف کی بات یہ ہے کہ یہ رقم بھارتی شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال ہونی چاہیے۔ مثلاً حکومت ترپتی کملا کی مالی مدد کرے تاکہ وہ اپنے چہیتے منے کو اچھی تعلیم دلواسکے۔ سویتا اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کے لیے فکر مند نہ رہے۔ کمبلے بھی سبزی اور اچھا کھانا کھاسکے۔ لیکن مودی حکومت ان غریبوں کو تو کیڑے مکوڑے سمجھتی جبکہ اپنے دیوی دیوتاؤں کو وہ دنیا میں سپرپاور بناچاہتی ہے۔ یہ انتہا پسند ہندو لیڈروں کا کھلا تضاد ہے۔

مودی حکومت آنے والے برسوں میں ’’130 ارب ڈالر‘‘ کا جدید اسلحہ خریدنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے، روس و امریکا سمیت دیگر مغربی ممالک بھارتی حکومت کے سامنے بچھے چلے جارہے ہیں تاکہ اسے رام کر سکیں اور وہ ان سے اسلحہ خرید لے۔ مالی مفاد کی خاطر ہی مغربی حکمرانوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر ہوتے بھارتی حکومت کے ظلم و جبر سے آنکھیں پھیر لیں۔ ملائشیا کے وزیراعظم، مہاتیر محمد کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ دور جدید کے بین الاقوامی معاملات میں انصاف و سچائی کا کوئی وجود نہیں،صرف اپنے مفادات دیکھے جاتے ہیں۔

بھارت کا حکمران طبقہ علاقے کی مہا طاقت بننے کے جنون میں مبتلا ہے۔ اسی پاگل پن نے جنوبی ایشیا میں اسلحے کی دوڑ کا آغاز کردیا۔ حکومت پاکستان کو بھی اربوں روپے دفاعی اخراجات کے لیے مختص کرنا پڑتے ہیں تاکہ اپنا دفاع مضبوط اور ناقابل تسخیر بناسکے۔ یہ حقیقت ہے، جب تک بھارت میں امن و محبت کا متلاشی حکمران طبقہ برسراقتدار نہیں آتا، جنوبی اشیا میں جنگ کے خوفناک سائے منڈلاتے رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔