دنیا کو دہلا دینے والا ’’تاج‘‘ کورونا وائرس، ہزاروں جانیں نگل گیا

کورونا وائرس کن جانوروں سے پھیلا اس کی اصل کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا

کورونا وائرس کن جانوروں سے پھیلا اس کی اصل کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا

ہم کوروناوائرس کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کوئی شخص جو کورونا وائرس میں مبتلا ہے اسے صرف ایک سادہ کھانسی یا چھینک سے پھیلا سکتا ہے۔وائرس میں مبتلا3400 سے زیادہ افرادکے اب مرنے کی تصدیق ہوچکی ہے اورایک لاکھ سے زیادہ افراد اس وائرس کا شکار ہیں ۔کورونا وائرس، وائرس کی ایک ایسی قسم ہے جو جانوروں اور لوگوں میں بیماری کا سبب بن سکتی ہے۔

وائرس جسم کے اندر موجود خلیوں میں ٹوٹ جاتے ہیں اور اس کے کاموں میں خلل ڈالتے ہیں۔ کوروناوائرس کا نام لاطینی زبان کے لفظ ’’کورونا‘‘کے نام پر رکھا گیا ہے جس کا مطلب ہے’’ تاج ‘‘ اس لیے ہم اسے ’’ تاج وائرس بھی کہہ سکتے ہیں، چین کے شہر ووہان سے کورونا وائرس جس طرح پھیلا اس پہلے کبھی نہیں دیکھاگیا تھا کہ کوئی وائرس اس طرح پھیلا ہو۔ بین الاقوامی کمیٹی برائے وائرس نے اسے SARS-COV-2 کا نام دیاہے۔

اس نام کا مطلب ہے شدید سانس لینے والا سنڈروم۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وبا سارس بیماری کی ایک ’’بہن‘‘ ہے ، جو2002 میں چین میں پھیلی تھی ، لہٰذا اس کا نام اس کے نام پر رکھا گیا ہے۔وائرس کی وجہ سے اس بیماری کا نامCOVID-19 رکھا گیا ہے جس کا مطلب ہے کورونا وائرس،کورونا وائرس، وائرسوں کا ایک خاندان ہے جو انسانوں ، مویشیوں ، سوروں ، مرغیوں ، کتوں ، بلیوں اور جنگلی جانوروںکو متاثر کرتا ہے۔ اس وائرس سے قبل انسانوں کو متاثر کرنے کے لیے صرف چھ مختلف کورونا وائرس معلوم تھے۔

ان میں سے4 ہلکی سی سردی کی طرح کی معمولی بیماری کا سبب بنتے ہیں ، لیکن2002 کے بعد سے دونئے کوروناوائرس سامنے آئے ہیں جو انسانوں کو متاثرکرسکتے ہیں اور اس سے زیادہ شدید بیماری پیدا ہوسکتی ہے، نیا کورونا وائرس کن جانوروں سے پھیلا اس کی اصل کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا ہے۔ کورونا وائرس کا پہلا کیس چینی شہر ووہان سے رپورٹ کیا گیا ، جہاں تقریباً11 ملین افراد رہتے ہیں جب طبی ماہرین نے 31 دسمبرکو انفیکشن کی اطلاع دینا شروع کی ۔ سائنسدانوں کے مطابق  وائرس تقریباً یقینی طور پر چمگادڑوں سے آیا تھا عام طور پر کورونا وائرس جانوروںسے شروع ہوتے ہیں ایسا ہی سارس اور میرس وائرس ابتدا میں سییوٹ بلیوں اور اونٹوں میں پیدا ہوا۔

COVID-19 کا پہلا کیس ووہان کی جانوروں کی منڈی میںآنے یاکام کرنے والے لوگوں سے سامنے آیا جس کے بعد اسے تحقیقات کے لیے بند کردیا گیا ۔اگرچہ یہ مارکیٹ سرکاری طور پر سمندری غذا کی منڈی ہے لیکن دوسرے مردہ اور زندہ جانور بھی وہاں فروخت کیے جارہے تھے، جن میں بھیڑیا، مچھلیاں ، سلامینڈرز ، سانپ ، مور ، سور اور اونٹ کا گوشت بھی شامل ہے۔ ووہان انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی کی ایک تحقیق جو سائنسی جریدے نیچر میں فروری2020 میں شائع ہوئی تھی ،کی رپورٹ کے مطابق چین میں مریضوں میں پائے جانے والے جینیاتی میک اپ وائرس کے نمونے بلے میں پائے جانے والے کورونا وائرس سے96 فیصد مطابقت رکھتے ہیں تاہم مارکیٹ میں بہت زیادہ چمگادڑ نہیں تھے۔

لہٰذا سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ شاید ایسا کوئی جانور موجود تھا جس نے درمیان کاکام کیا ابھی تک اس کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے کہ یہ کس قسم کا جانور تھا ۔ امپیریل کالج لندن کے ایک ماہرڈاکٹرمائیکل سکنرکی اس تحقیق میں شامل نہیںتھی لیکن ان کاکہنا ہے کہ اس دریافت نے چین میں چمگادڑوں میں این سی اووی کی ابتدا یقینی طور پر دیکھی ہے۔کورونا وائرس انسانوں کے پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے۔

یہ سارس سے کم مہلک ہے جس سے ہر10میں سے ایک فردکی موت واقع ہوئی جبکہCOVID-19 میں ہر50 پر ایک ہے، زیادہ ترموسمی فلو وائرس میں ایک ہزار افراد میں سے ایک کی موت کی شرح ہوتی ہے یہ ایک انتہائی متعدی بیماری ہے کسی علامات سے پہلے ہی یہ پھیل سکتی ہے خیال کیا جاتا ہے کہ یہ تھوک میں اور یہاں تک کہ آنکھوں میں پانی کے ذریعے سفرکرتا ہے ، لہٰذا قریبی رابطے ، بوسہ لینا ، اور کٹلری یا برتن شیئر کرنا سبھی پرخطر ہیں ۔ایک بار جب کسیکو کوویڈ۔19 وائرس نے پکڑ لیا ہے تو اس میں کوئی علامت ظاہر ہونے میں دو سے14 دن یا اس سے بھی زیادہ وقت لگ سکتا ہے لیکن وہ اس وقت کے دوران بھی متعدی بیماری کا شکار ہوسکتا ہے ۔

جب وہ بیمار ہوجاتے ہیں تو  عام علامات میں ناک بہنا ، کھانسی ، گلے کی سوزش اور بخار (تیز درجہ حرارت) شامل ہیں ۔ مریضوں کے ایک چھوٹے سے گروہ میں جو بظاہر بزرگ لگتے ہیں یا طویل مدتی بیماریوں میں مبتلا ہیں اس سے نمونیا ہوسکتا ہے۔ نمونیا ایک ایسا انفیکشن ہے جس میں پھیپھڑوں کی اندرونی چیزیں پھول جاتی ہیں اور سیال سے بھر جاتی ہیں، اس سے سانس لینا تیزی سے مشکل ہوتا ہے اور اگر علاج نہ کیا گیا تو مہلک اور لوگوں کا دم گھٹ سکتا ہے۔

اعداد و شمار یہ ظاہر کررہے ہیں کہ کمسن بچے خاص طور پر وائرس سے بری طرح متاثر نہیں ہوئے ہیں جس کے بارے میں ان کاکہنا ہے کہ ان کے فلو کے امکان کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ عجیب و غریب ہے لیکن یہ واضح نہیں ہے کیا؟۔اس وائرس کی شرح اموات تقریباً دو فیصد ہے۔COVID-19 وائرس کا علاج نہیں کیا جاسکتا ہے اور اس پر قابو پانا مشکل ثابت ہورہا ہے۔ اینٹی بائیوٹکس وائرس کے خلاف کام نہیں کرتے ہیں۔کورونا وائرس کے لیے ابھی تک کوئی ویکسین موجود نہیں ہے اورجلد اس کا امکان بھی نہیں ہے ۔

۔۔۔

ایک انتہائی خطرناک وائرس کورونا جو چین کے شہر ووہان سے پھیلانا شروع ہوادنیا کے بھر کے90 کے قریب ممالک کو اس وقت اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، ابھی تک اس وائرس سے نجات کے لیے کوئی دوا یا ویکسن تیار نہیں کی جاسکی ہے جس باعث اب تک ساڑھے تین ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں، پاکستان میں اب تک اس وائرس کے6 مریض سامنے آئے جن میں سے ایک مریض صحت یاب ہوچکا ہے دوسرا تیزی سے صحت یابی کی طرف گامزن ہے۔ ایکسریس فورم میں قارئین کے لیے وائرس کے حوالے سے معلومات اور طبی ماہرین سے لی گئی آرا پیش خدمت ہے۔

ڈاکٹر سیمی جمالی
ایگزیکٹو ڈائریکٹرجناح اسپتال کراچی

دسمبرسے کورونا وائرس نے دنیاکے بیشترممالک کواپنی لپیٹ میں لے لیاہے اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اس وائرس کی وجہ سے عوام پرخوف طاری ہے، کسی بھی وائرس سے محفوظ رہنے کیلیے احتیاط ضروری ہوتی ہے۔ کورونا وائرس کاابھی تک کوئی علاج سامنے نہیں آیا تاہم اس سے محفوظ رہنے کیلیے ہجوم والے مقامات پر جانے سے گریزکرنا چاہیے جس میں تفریحی مقامات، شاپنگ سینٹرز، ہوٹل وغیرشامل ہیں ۔ وائرس میں مبتلا افراد کے کھانسنے ، چھینکنے سے اس کی رطوبت سانس کے ذریعے دوسرے افراد میں منتقل ہوجاتی ہیں ۔کرونا وائرس کی ابتدائی علامات بھی فلوکی طرح ہوتی ہیں فلوعام طورپر سے جسم میں وٹامن سی کی کمی، غیرصحت مندانہ خوراک کھانے اورسافٹ ڈرنکس سے بھی لاحق ہوتا ہے کمزورقوت مدافعت والے افراد اوربچوں میں فلو عام طورپرہوجاتا ہے۔گھروں میں ماسک اور دستانے رکھیں،باروچی خانے میں کام کرنے والی خواتین کو بھی دستانے پہن کرگوشت کی صفائی کا کام کرنا چاہیے۔

گوشت اور دودھ کو اچھی طرح پکائیں جبکہ انڈوںکو بھی اچھی طرح(فل کک)کرکے استعمال کریں ۔ کچا انڈا ،کچا پکاگوشت بہت نقصان دہ ہوسکتا ہے۔عوام کو بہت زیادہ خوف زدہ ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے بنیادی طور پر یہ وائرس پاکستان میں رپورٹ نہیں ہوا۔ فلووائرس عام طورپر جسم میں وٹامن سی اور قوت مدافعت کم ہونے کی کمی سے بھی لاحق ہوتا ہے لہٰذا موجود موسم میں وٹامن سی قدرتی فروٹ سے بھی حاصل کیاجاسکتا ہے تاہم فروٹ دوپہرکے وقت کھائیں رات میںکھانے سے گریزکیا جائے۔

ایک بات جواہم ہے وہ یہ ہے کہ رات کودیر سے سونے اور صبح دیرتک سونے سے بھی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے۔ رات کو جلدی سونے سے جسم میں موجود Cortisone ریلیز ہوتے رہتے ہیں جو انسان کو اگلے دن کیلیے توانائی دیتے ہیں لیکن عام طورپر سے رات کو دیر تک جگانے کے رجحان میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، دیر تک جگانے سے کی وجہ سے اکثر بچے اور بڑے بھی بیمارہوتے رہتے ہیں ہمیں اپنا طرزندگی کو تبدیل کرنا ہوگا، صحت مندانہ خوراک کا استعمال لازمی ہے۔ دیکھاگیا ہے کہ ایک مریض دوسرے مریض کوآسانی سے اپنی اینٹی بائیٹک دوائیں نہ صرف بتاتے ہیں بلکہ اس پر عمل بھی کروانے پر بضد رہتے ہیں جبکہ ہرانسان کی باڈی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔

بغیر ڈاکٹر کی ہدایت دواؤں کے استعمال سے انسانی جسم پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ ادویات کے ری ایکشن سامنے آتے ہیں لہٰذاکوئی بھی دوا  ایک دوسرے کو نہیں کھلانی یا بتانی چاہیے۔ آج کل کرونا وائرس کے حوالے سے سوشل میڈیا پر علاج اور بچاؤکے حوالے مختلف دیسی ٹوٹکے سامنے آرہے ہیں جو غیر سائنسی اورطبی اعتبار سے غلط ہیں ۔ نیم حکیم خطرہ جان والے افراد غیرسائنسی اورغیرمستند علاج ایک دوسرے کو میسج کے ذریعے بھیجتے ہیں جو بغیرتصدیق کے آہستہ آہستہ پھیل جاتا ہے جس سے براہ راست انسانی جانوںکونقصان کا سامناکرنا پڑسکتا ہے۔

ڈاکٹر عرفان طاہر
ڈائریکٹر سینٹرل ہیلتھ اسٹیبلشمنٹ،منسٹری آف نیشنل ہیلتھ سروسز،اسلام آباد

چین سے پھیلنے والی کورونا وائرس کی وبا کو44 دن ہوچکے ہیں تاہم عوام کوگھبرانے کی ضرورت نہیں ہے پاکستان میں فضائی، زمینی اور بحری راستوں سے داخل ہونے والے ہر مسافر کو طبی لحاظ سے چیک کیا جارہا ہے اور تمام داخلی راستوں پر تربیت یافتہ عملہ چیکنگ کے لیے تھرموگن اور تھرمواسکینر استعمال کررہا ہے۔ اس وقت پاکستان میں داخل ہونے کے19 راستے ہیں جن میں سے10 ایئرپورٹ، 6 زمینی اور3 بندرگاہوںکے راستے شامل ہیں ۔ ایئرپورٹس میںکراچی، اسلام آباد، لاہور، پشاور ، ملتان ،کوئٹہ، فیصل آباد اور دیگر شامل ہیں جبکہ زمینی راستوں میں واہگہ باڈر ،کھوکھراپار ، چمن، تفتان اورشمالی علاقے جبکہ کراچی سمیت3بندرگاہیں  شامل ہیں۔  بیرون ممالک سے اب تک پاکستان میں آنے والے8لاکھ مسافروںکی اسکریننگ کے عمل سے گزر چکے ہیں۔یہ تاثربالکل غلط اور بے بنیاد ہے کہ بیرون ملک سے آنے والے مسافروںکوایئرپورٹس پرتنگ کیاجارہا ہے۔

وزیراعظم پاکستان کی ہدایت پر داخلی راستوں پر انتہائی سخت ہیلتھ سیکیورٹی اقدامات کیے گئے ہیں جہاں24گھنٹے تربیت یافتہ عملہ تعینات ہے۔ جمعہ تک6 لاکھ افرادکی ایئرپورٹس  جبکہ زمینی اور بحری راستے سے پاکستان آنے والے2 مسافروںکی محفوظ طریقے سے اسکریننگ کی جاچکی ہے۔  بیرون ممالک سے طیاروں میں آنے والے مسافروں کو طیارے میں ہی سی اے اے اور ایئرلائنز کے تعاون سے ہیلتھ ڈیکلریشن فارم دیاجاتا ہے جس میں مسافروںکی سفری ہسٹری بھی شامل ہوتی ہے۔  اگر کسی کو بخار یا فلو ہو تواسے ایئرپورٹس پر چیک کیاجاتا ہے۔ ایئرپورٹس یا زمینی راستوں سے آنیوالے تمام مسافروںکی2 طریقے سے اسکریننگ کی جاتی ہے جس میں تھرموگن اور تھرمواسکینر شامل ہیں۔

تھرموگن اور تھرمل اسکینر سے یہ معلوم کیاجاتا ہے کہ آنے والا مسافربخار میں مبتلا ہے یا نہیں۔ تھرموگن اور تھرمو اسکینر سے 100ڈگری بخارکو پکڑاجاسکتا ہے۔23 فروری سے قبل چین، ساؤتھ افریقہ اوراٹلی سے آنے والے مسافروںکوچیک کیاجارہا تھا اورہماری پوری توجہ چین سمیت تینوں ممالک سے آنے والے مسافروں پر تھی لیکن چین سے کوئی بھی کورونا سے متاثرہ مسافرپاکستان میں داخل نہیں ہوا۔ 23 فروری کو ایران میںکورونا وائرس رپورٹ ہونے کے بعد وفاقی ہیلتھ ڈویثرن نے ایران کوبھی اپنی کورونا ممالک سے متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں شامل کرلیا۔

بدقسمتی سے23 فروری سے قبل ایران سے کراچی آنے والے مسافرمیں کوروناوائرس رپورٹ ہوا۔ اب ہیلتھ فارم پر نظرثانی کرکے اسے یونیورسل ہیلتھ فارم میں تبدیل کررہے ہیں جس میں مسافروں سے معلوم کیاجائیگا کہ  انھوںکس کس ممالک میں سفرکیاہے ۔ وزیر اعظم کے معاون برائے صحت ڈاکٹر ظفرمرزاکی ہدایت پر مسافروںکی اسکریننگ کے لیے ایس اوپی مرتب کی گئی ہیں ۔

مسافروں کی اسکریننگ کے لیے تمام عملے کوماسک سمیت دیگر حفاظتی اقدامات سے محفوظ بنایاگیا اگر کوئی کورونا سے مشتبہ مسافرسامنے آتا ہے تواس کے پروٹوکول کے مطابق علیحدہ رکھاجاتا ہے۔کورونا وائرس کا شکار کوئی مریض ابھی تک چین سے پاکستان میں داخل نہیں ہوا تاہم بدقسمتی سے6مریض ایران سے پاکستان میں آئے ہیں ۔ یہ افراد اسکریننگ شروع ہونے سے قبل آئے تھے کیونکہ جب ہم لوگ اسکریننگ کررہے تھے اس وقت ہمارے پروٹوکول میں ایران شامل نہیں تھاکیونکہ اس وقت ایران میں کورونا وائرس ڈیکلر نہیں تھا۔اب  ایران بھی ہماری فہرست میں شامل ہے۔

ہماری وزارت اب4 ممالک کو باریک بینی سے دیکھ رہی ہے،ہمارا عملہ تربیت یافتہ ہے2ماہ قبل عملے کو خصوصی تربیت بھی دی گئی  اتنی سخت اسکریننگ پر عوام کوگھبرانے کی ضرورت نہیں ۔ وزارت صحت نے اسکریننگ کو مزید بہتربنانے کی ہدایت دی ہے ہماری کارکردگی درست سمت میں ہے۔  پاکستان کے داخلی راستوں سے کوئی بھی کورونا کا مسافر داخل نہیں ہوسکتا مزید5بڑے اسیکینر5بڑے ایئرپورٹس پر بھی نصب کردیے ہیں جس میںکراچی، لاہور، اسلام آباد، ملتان پشاور شامل ہیں۔  اسکینر کی مدد سے مسافروں کی مزید تشخیص بہتر ہوجائے گی، ہماری پوری کوشش ہے کہ پاکستان میں کسی بھی ملک سے کورونا کا کوئی بھی مسافر نہ آئے۔ عوام کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنا چاہیے خصوصاً ہاتھوں کو اچھی طرح دھونا ضروری ہے۔

ڈاکٹر عبید علی
ماہر علم الادویات،سابق ڈپٹی ڈائریکٹر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی

سردست ایک آفت آئی ہوئی ہے جس کا نام کورونا وائرس ہے اور ابھی اس سے بچاؤکی کوئی دوا بھی دستیاب نہیں ہے۔ دنیا نے اس وائرس کو کنٹرول کرنے کے لیے اپنا وقت کھودیا ہے اسی لیے یہ وبا دنیا بھر میں پھیلتی جارہی ہے جو بہت تشویش ناک بات ہے البتہ اللہ تعالی کا کرم ہے کہ پاکستان میں ابھی ایسی کوئی صورت حال پیدا نہیں ہوئی مگر جو خطرے کی بات ہے وہ یہ کہ ہم عام لوگوں کو کورونا وائرس سے متعلق درست آگاہی فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔ حکومتی اداروں اور اسپتالوں کو وبا سے بچاؤ کے لیے جس طرح کی تیاری اور جارحانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے تھا وہ نہیں کیا گیا۔ اگر اب بھی ہم نے فوری اور سخت اقدامات نہ کیے تو کورونا وائرس ہمارے لیے ایک تھریٹ بن جائے گا۔ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اٹلی، جنوبی کوریا، ایران ، امریکا اوردیگر ممالک میں وائرس کتنی تیزی سے پھیلتا جارہا ہے البتہ چین نے اس وائرس کو روکنے کے لیے بہت کام کیا اور کافی حد تک اس پر کنٹرول کرلیا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی شرح اتنی زیادہ نہیں ہے۔ اس وائرس کی دواقسام کا ابھی تک معلوم ہوسکا ہے جس میں ایک ایس فارم جبکہ دوسری ایل فارم ہے۔مرنے والوں کی زیادہ تعداد ایس فارم کا شکار ہوئی ہے ایل فارم میں یہ تعداد بہت کم ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کورونا وائرس کا شکار80 فیصد لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا ہے کہ وہ وبا کا شکار ہوچکے ہیں جبکہ جن کے بارے میں معلوم ہوجاتا ہے ان کی شرح ایک سے چار فیصد کے درمیان ہے۔زیادہ تر وائرس ہاتھوں سے پھیلتا ہے اس لیے بہت ضروری ہے کہ ہاتھوں کو ہر وقت صاف رکھا جائے، انھیں منہ سے نہ لگایا جائے اور اگر آپ بیمار ہیں تو سب سے بہتر بات یہ ہوگی کہ آپ گھر سے نہ نکلیں یا کوئی بیمار ہے تو اس کی عیادت سے گریز کریں ۔ ایک اور انتہائی اہم چیز یہ گھر میں داخل اور باہر نکلنے کے راستے کو صاف رکھا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔