کورونا وائرس: بچے اور خواتین کم متاثر و ہلاک کیوں؟

عارف محمود کسانہ  ہفتہ 18 اپريل 2020
کیا وجہ ہے کہ خواتین اور بچے، کورونا وائرس سے کم متاثر و ہلاک ہورہے ہیں؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کیا وجہ ہے کہ خواتین اور بچے، کورونا وائرس سے کم متاثر و ہلاک ہورہے ہیں؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کورونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور ہزاروں لوگ ہر روز اس کا شکار ہو کر دنیا سے رخصت ہورہے ہیں۔ اس وائرس کے حوالے سے دو دلچسپ حقائق سامنے آئے ہیں: ایک یہ کہ اس کی وجہ سے موت کے منہ میں جانے والوں کی اکثریت مردوں کی ہے اور دوسرا یہ کہ بچوں پر یہ بہت کم اثر کرتا ہے۔ قارئین کےلیے ان دونوں کی وجوہ جاننا بہت دلچسپی کا حامل ہوگا۔

چین، جہاں سے اس مہلک وائرس کی ابتدا ہوئی تھی، وہاں کے اعداد و شمار کے مطابق صرف تین فی صد بچے اس وائرس میں مبتلا ہوئے اور ان میں سے بھی صرف دو فیصد میں اس وائرس کی واضح علامات تھیں جبکہ باقی 98 فیصد میں بہت معمولی سا اثر دیکھا گیا۔ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی کچھ ایسا ہی دیکھا گیا ہے کہ بچے بہت کم متاثر ہورہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سویڈن میں یونیورسٹیاں اور کالج تو بند ہیں لیکن اسکول اور ڈے کیئر سینٹرز مسلسل کھلے ہیں۔ کچھ اور ممالک بھی اپنے اسکول پھر سے کھول رہے ہیں۔

بچوں کے اس وائرس سے متاثر نہ ہونے یا کم متاثر ہونے کی دو وجوہ ہیں: پہلی یہ کہ بچوں میں اکثر نزلہ، زکام وغیرہ ہوتا رہتا ہے جس وجہ سے ان کا مدافعتی نظام متحرک اور مستعد ہوتا ہے۔ جونہی کوئی بھی جراثیم یا وائرس ان پر حملہ آور ہوتا ہے، ان کا جسم فوری جوابی حملہ کرکے اسے ناکام بنا دیتا ہے۔ دوسری وجہ بچوں کے جسم اور نظام تنفس میں وہ جگہیں ہیں جنہیں طبی زبان میں ’’ریسیپٹر‘‘ کہتے ہیں، وہ ابھی بڑی تعداد میں نہیں بنے ہوتے اور وہ وائرس کو اپنے خلیوں میں داخل نہیں ہونے دیتے۔ جب کورونا وائرس بچوں کے جسم میں خلیوں کے اندر جانا چاہتا ہے تو اسے وہ راستہ نہیں ملتا اور وہ ناکام چور کی طرح چوری کے بغیر ہی رہ جاتا ہے۔ یہ ہیں وہ دو بڑی وجوہ جن کے باعث بچے اس سے متاثر نہیں ہورہے۔

اب دوسری دلچسپ حقیقت یہ کہ اس وائرس سے ہلاک ہونے والوں میں مردوں کا تناسب، عورتوں سے کہیں زیادہ ہے۔ چین میں اس وائرس سے موت کے منہ میں جانے والے مردوں کی تعداد عورتوں سے دوگنا ہے۔ سویڈن میں بھی ساٹھ فیصد مرد اس وائرس سے ہلاک ہوئے ہیں جبکہ خواتین کی تعداد چالیس فیصد ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی تقریباً یہی تناسب ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کی تفصیل سے قارئین کو آگاہ کرتے ہیں۔

مردوں اور عورتوں میں پہلا بنیادی فرق جینیات یا جنیٹکس کا ہے۔ مردوں اور عورتوں میں کروموسوم کے بائیس جوڑے تو ایک جیسے ہوتے ہیں لیکن 23 واں جوڑا مخلتف ہوتا ہے۔ عورتوں میں یہ جوڑا XX کی صورت میں ہوتا ہے جبکہ مردوں میں یہ XY کی صورت میں ہوتا ہے۔ مردوں کے Y کروموسوم پر کم جینیاتی معلومات ہوتی ہیں جبکہ اس کے مقابلہ میں عورتوں کو ملنے والے دوسرے X کروموسوم میں زیادہ جینز ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق عورتوں میں ساڑھے چھ ہزار جینز مردوں کی نسبت مختلف اور مؤثر انداز میں کام کرتے ہیں۔ یہ جینیاتی فرق عورتوں کو مرد کی نسبت خودکار مدافعتی بیماریوں (autoimmune diseases) سے قدرے تحفظ دیتا ہے۔ پارکنسن اور دیگر کئی ایک بیماریاں ہیں جو مردوں میں عورتوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہیں۔ عورتوں اور مردوں کے ڈی این اے میں بھی فرق ہوتا ہے اور جینیاتی شعبے میں ابھی مزید تحقیق جاری ہے جس سے مستقبل میں کئی انکشافات سامنے آسکتے ہیں۔

دنیا بھر میں پیدائش کے اعتبار سے لڑکے 52 فیصد پیدا ہوتے ہیں جبکہ لڑکیاں 48 فیصد پیدا ہوتی ہیں لیکن اوسط عمر خواتین میں مردوں کی نسبت زیادہ ہے۔ دنیا بھر میں عورتوں کی اوسط عمر 76 سال جبکہ مردوں کی 71 سال ہے۔ پاکستان میں یہ اوسط عورتوں میں 69 سال اور مردوں میں 67 سال ہے جبکہ سویڈن میں بالترتیب 85 اور 82 سال ہے۔ کورونا وائرس سے خواتین کی کم اموات کی ایک اور بڑی وجہ خواتین کا ہارمون کا نظام ہے۔ مردوں کے ہارمون ٹیسٹوسٹیرون کے مقابلے میں خواتین میں ایسٹروجن اور پروجیسٹرون ہارمون ہوتے ہیں۔ خواتین کے یہ ہارمون، خصوصاً ایسٹروجن انہیں بیماریوں اور جراثیمی حملوں سے بچانے میں مددگار ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کورونا وائرس سے ان کی اموات کم ہوتی ہیں؛ ایسٹروجن، خواتین کا محافظ بن جاتا ہے۔

عورتوں کے کورونا وائرس سے کم ہلاک ہونے کی دیگر وجوہ میں مردوں میں امراض قلب، دوران خون اور تنفس کی زیادہ بیماریاں ہونا ہے۔ اسی طرح ایک اور بڑی وجہ سگریٹ نوشی ہے جو عورتوں میں مردوں کی نسبت کم ہے۔ مردوں میں سگریٹ نوشی انہیں موت کے منہ میں لے جاتی ہے۔ سگریٹ نوشی کرنے والوں میں کورونا وائرس کی وجہ سے عام لوگوں کی نسبت مرنے کی امکانات چودہ گنا زیادہ ہوجاتے ہیں۔ دیگر ممکنہ وجوہ میں عورتوں کی حسیات، سماجی رویّے اور انداز زندگی بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ مستقبل میں جب اس بارے میں تحقیق ہوگی تو مزید تفصیلات سامنے آئیں گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

عارف محمود کسانہ

عارف محمود کسانہ

بلاگر، کالم نگار ہیں اور سویڈن کی فارن پریس ایسوسی ایشن کے رکن بھی ہیں۔ سویڈن ایک یونیورسٹی کے شعبہ تحقیق سے وابستہ ہیں اور اسٹاک ہوم اسٹڈی سرکل کے بھی منتظم ہیں۔ فیس بُک پر ان سے Arifkisana کی آئی ڈی پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔