یہ بے بسی کا عالم

عثمان دموہی  اتوار 7 جون 2020
usmandamohi@yahoo.com

[email protected]

اس وقت لداخ میں چینی فوجوں کے کئی میل اندر داخل ہونے کی وجہ سے پورے بھارت میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ بھارتی فوج چینی فوج کا مقابلہ کرنے سے پہلے ہی شکست تسلیم کرچکی ہے۔ خود مودی سرکار کی پوری کابینہ نے چین کے آگے ہاتھ کھڑے کردیے ہیں۔

سرکاری طور پر اعلان کیا گیا ہے کہ بھارت چین سے لڑائی کرنا نہیں چاہتا وہ اس مسئلے کو سفارتی سطح پر حل کرے گا مگر یہ بیان اس وقت دیا گیا جب امریکا نے چینی حملے کے سلسلے میں بھارت کی کسی بھی قسم کی مدد کرنے سے صاف انکار کردیا تھا اور حتیٰ کہ کوئی بیان تک جاری کرنے سے منع کردیا گیا۔

ٹرمپ نے دونوں ممالک کے درمیان صرف ثالثی کی پیشکش کرنے پر ہی اکتفا کیا جسے بھارت نے مایوس ہوکر رد کردیا مگر چین نے تو ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کو کوئی گھاس ہی نہیں ڈالی۔ امریکا سے مایوس ہوکر مودی نے اپنے یورپی دوست ممالک سے رابطہ کیا مگر وہاں بھی بات نہیں بن سکی۔ آخر میں روسی حکومت سے درخواست کرنا پڑی کہ وہی اس مشکل کی گھڑی میں بھارت کے لیے کچھ کرے مگر روس بھلا چین کے خلاف کیونکر کوئی بیان دے سکتا ہے کیا وہ بھارت کی موقع پرستی سے واقف نہیں ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ بھارت کی خارجہ پالیسی قطعی ناکام و نامراد ہوچکی ہے۔

مودی پاکستان کو تنہا کرتے کرتے خود تنہائی کا شکار ہو چکا ہے۔ اس وقت کوئی پڑوسی ملک بھی اس کی داد رسی کے لیے آگے نہیں آرہا ہے بنگلہ دیش جو ہمیشہ ہی بھارت کا دم بھرتا تھا اب بالکل خاموش ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے ناپاک توسیع پسندانہ عزائم کی وجہ سے اس کے تمام ہی پڑوسی اس سے محتاط ہیں۔

نیپال جو ایک زمانے سے بھارت کے رحم و کرم پر تھا اب کھل کر بھارت کے خلاف بیانات دے رہا ہے جس کی وجہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی پرانی حیثیت کو تبدیل کرنے کے سلسلے میں نئے متنازعہ نقشے کا اجرا ہے جس میں کئی نیپالی علاقوں کو بھارتی علاقے ظاہر کیا گیا ہے اس متنازعہ اور غیر قانونی نقشے کی وجہ سے بھارت کے نیپال سے تعلقات اتنے بگڑ چکے ہیں کہ نیپال نے اپنے ایک علاقے کالاپانی سے فوراً بھارتی قبضے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

مقبوضہ کشمیر کے نئے متنازعہ نقشے میں اکسائی چین کے علاقے کو بھی بھارتی علاقہ ظاہر کیا گیا ہے جس سے چین سے بھارت کے تعلقات پہلے سے کہیں زیادہ خراب ہو گئے ہیں۔ دراصل مودی مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرکے مصیبت میں پھنس گیا ہے۔ اس کے اس بے وقوفانہ اقدام سے نہ تو کشمیر سے آزادی کی تحریک ختم ہوسکی ہے اور نہ ہی اسے عالمی برادری کی اس سلسلے میں حمایت حاصل ہو سکی ہے۔ چین کے حملے نے مودی کی بولتی بند کردی ہے۔

مودی امریکا اور دوسرے اپنے دوستوں سے چین کے خلاف بیان دلانے کی ضرور کوششیں کر رہا ہے مگر وہ خود چین کے خلاف کوئی بیان دینے سے کیوں گریز کر رہا ہے وہ اس لیے کہ اس کے چین کے خلاف بیان سے بھارتی دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی کے مطابق چین کا اشتعال بڑھے گا اور وہ جن اہم مقامات پر قابض ہو گیا ہے وہاں سے اور آگے کی جانب پیش قدمی کرسکتا ہے جس سے سیاچن اور کارگل کے علاقے بھارت کے ہاتھ سے نکل سکتے ہیں۔ مودی نے دراصل اپنی ہی جیسی ذہنیت رکھنے والے ٹرمپ کی شے پر سی پیک اور بھاشا ڈیم کو تباہ کرنے کا پلان بنایا تھا تاکہ چین اور پاکستان کو ایک ساتھ سخت نقصان پہنچایا جاسکے۔ وہ اس مقصد کو حاصل کرنے سے پہلے گلگت بلتستان پر قبضہ کرنے کا خواہاں تھا۔

اس علاقے کی سرحد کے ساتھ ساتھ وہ کئی اہم سڑکیں تعمیر کرچکا تھا جس میں ڈی بی او ہائی وے سب سے اہم تھی۔ چین نے اسے ان سڑکوں کی تعمیر روکنے کے لیے کئی بار وارننگ دی مگر وہ روایتی مکر و فریب کے ساتھ چھپ کر سڑکیں بناتا رہا اور جب اس کی سڑکیں گلگت بلتستان کی سرحد کے قریب تک تعمیر ہوگئیں تو اس نے ببانگ دہل گلگت بلتستان پر حملہ کرنے کا اعلان کردیا۔

مودی کی دوسری باری کی جیت کے پہلے سال کا جشن مئی کے آخری ہفتے میں شایان شان طور پر منانے کا پروگرام بنایا گیا تھا جس میں وہ گلگت بلتستان پر قبضہ کرکے بھارتیوں کو یہ سب سے بڑا تحفہ پیش کرنا چاہتا تھا مگر اس کی یہ خواہش اس کے گلے میں ہی اٹک کر رہ گئی ہے پیشتر اس کے کہ وہ گلگت بلتستان پر قبضہ کرتا چین نے اس سے پہلے ہی لداخ کے اہم علاقوں پر قبضہ کرکے اس کی کامیابیوں کے جشن کو ماتم میں تبدیل کردیا ہے۔

اس وقت چین لداخ کے جن علاقوں تک رسائی حاصل کرچکا ہے وہ اتنے اہم ہیں کہ ان سے چند میل دور مغرب میں سیاچن کے پہاڑ ہیں اور جنوب میں کارگل کی پہاڑیاں واقع ہیں۔ کارگل کی پہاڑیاں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں 1999 میں پرویز مشرف نے ان پر قبضہ کرکے بھارت کا شمالی کشمیر سے رابطہ منقطع کردیا تھا کاش کہ یہ قبضہ سیاست کی نذر نہ ہوتا اور یہاں پاکستانی قبضہ برقرار رہ جاتا تو آج مقبوضہ کشمیر آزاد ہو چکا ہوتا اور کشمیریوں کے مسائل ختم ہو چکے ہوتے خیر جو غلطی ہوگئی لگتا ہے اب چین اس کا ازالہ کرنیوالا ہے۔

اس وقت فوج ہی نہیں بلکہ بھارتی حکومت بھی چین سے اتنی خوفزدہ ہے کہ اگر چین چاہے تو مقبوضہ کشمیر کا قبضہ ختم ہو سکتا ہے۔ اس سے کشمیریوں کی امنگیں تو بر ہی آئیں گی ساتھ ہی بھارتی غرور کے خاک میں ملنے سے پورے خطے کو بھارتی جارحیت سے ہمیشہ کے لیے نجات مل سکتی ہے۔

اس وقت چین نے ایک اور اہم کام یہ کیا ہے کہ اس نے دولت بیگ ہائی وے جسے ڈی بی او ہائی وے بھی کہا جاتا ہے پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا ہے بھارت نے اسے گلگت بلتستان پر قبضہ کرنے کے لیے خاص طور پر تعمیر کرایا تھا اس طرح اب مودی کا گلگت بلتستان پر قبضہ کرنے کا سی پیک اور بھاشا ڈیم کو نقصان پہنچانے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔

اس وقت بھارت چین سے مذاکرات کرنے کی بھرپور کوششیں کر رہا ہے مگر چین اس سے مذاکرات کرنے سے انکار کر رہا ہے اس کا استدلال ہے کہ اس نے لداخ میں کسی بھارتی علاقے پر قبضہ نہیں کیا ہے بلکہ اپنے ہی علاقوں کو واپس لیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر مذاکرات کی نوبت آئی تو چین مقبوضہ کشمیر کی پرانی حیثیت بحال کرانے سے کم نہیں مانے گا پھر ان کے مطابق چین نے ابھی تو صرف بھارت کو اپنی طاقت کی ایک جھلک دکھائی ہے اس کا اصل پروگرام بھارت کو آسام کی سات ریاستوں سے ملانیوالی ’’چکن نیک‘‘ ok پر قبضہ کرنے کا ہے اگر چین نے اپنے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا تو مودی کے آزاد کشمیر پر قبضہ جمانے کے خواب کی تعبیر اس کے پورے مشرقی علاقوں کے کھونے کی صورت میں ظاہر ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔