نیٹو سپلائی بند کرنے سے قبل اس کے پاکستانی معیشت پر پڑنے والے اثرات پر نظر ڈالیں

بھکاری نہ تو شرائط عائد کر سکتے ہیں اور نہ ہی کرتے ہیں۔


احسن فراز December 07, 2013
امریکی توانائی بحران پر قابو پانے کے لئے بھی ہماری مالی طور پر مدد کر رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

جمعیت علما اسلام (ف) کے رہنما اکرم درانی جو کہ خیبر پختونخوا کے سابق وزیراعلی نے ایک صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے معاشی ترقی کے حوالے سے اپنے منصوبوں کو کچھ اس طرح پیش کیا:

"ہمیں اس بات پر یقین ہے کہ اللہ نے جس شخص کو بھی پیدا کیا ہے اس کے لیے کھانے اور لباس کا پہلے سے ہی بندوبست کیا۔ اگر ہم اللہ کے بنائے گئے طریقہ کار کو چھوڑ کر اپنے طریقے سے مسائل کے حل تلاش کریں گے تو ہم مصیبت میں پڑ سکتے ہیں۔ "

ڈرون حملوں کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور جماعت اسلامی (جے آئی) کی پالیسی اکرم درانی کی سوچ سے کافی حد تک قریب ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ زمین پر ہر کسی کو موجود ہر شخص کوخدا ہی کھلاتا ہے لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ اللہ ان لوگوں کی مدد نہیں کرتا جو خود اپنی مدد آپ نہیں کرتے۔

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو کئی سماجی اور اقتصادی مسائل کی وجہ سے تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے۔

ملک کو درپیش مسائل میں سنگین توانائی بحران، بے روزگاری، سیکیورٹی کے مسائل، بدعنوانی، کمزور انفراسٹریکچر، ناخواندگی، ناقص طبی سہولیات اور دیگر شامل ہیں۔ ہمارے رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ ان حقائق سامنا کریں اور عملی کوشش کے ذریعے ان کا حل تلاش کریں۔

ڈرون حملوں پر سیاست کے بجائے، ہمیں اپنی کوتاہیوں پر توجہ دینے کی کوشش کرنی چاہیے، اس بات حتمی نہیں ہے کہ نیٹو سپلائی روکنے سے ڈرون حملے بھی روک دیئے جائیں گے لیکن اگر نیٹو سپلائی کی بندش جاری رہتی ہے تو ہم سنگین مسائل سے دوچار ہو سکتے ہیں۔

پاکستان اس وقت نیٹو اور انٹرنیشنل سیکیورٹی اسسٹنس فورس (ایساف) کو جانے والی سپلائی کے ذریعے سالانہ ساڑھے 36 کروڑ ڈالرز کما رہا ہے۔ لہذا رسد کی فراہمی میں رکاوٹ سے نہ صرف پاکستان اس رقم سے محروم ہو جائے گا بلکہ اس کے ساتھ وہ تمام لوگ جو اس سپلائی سے براہ راست یا بلواسطہ طور پر منسلک ہیں اپنے روزگار سے محروم ہو جائیں گے۔ سپلائی روکنے سے امریکا اور دیگر بین الاقوامی ممالک اور تنظیموں کی جانب سے ملنے والی امداد بھی رک جائے گی۔ پاکستان کوضروری درکار امداد کا ایک بڑا حصہ امریکا سے آتا ہے جو کہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ہمسایہ ملک افغانستان میں جنگ لڑرہا ہے۔

پاکستان 14-2013 میں امریکا سے فوجی اخراجات اور براہ راست امداد کی مد 1.6 ارب ڈالر وصول کیے اور اس وقت امریکا سے سب سے زیادہ امداد لینے والا چوتھا ملک ہے۔ اس کے علاوہ، حال ہی میں امریکا نے 1.6 ارب ڈالر کا اس امدادی پیکج کو بھی جاری کرنے کا فیصلہ کیا جو کہ ماضی میں کشیدہ تعلقات کی وجہ سے روکی گئی تھی، ہمارے اتحادی امریکی دیگر منصوبوں میں بھی توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے ہماری مالی طور پر مدد کر رہے ہیں۔

پاکستان کے پاس 586 کھرب کیوبک فٹ شیل گیس کے ذخائر کے ساتھ تازہ حاصل کرنے کے قابل 105 کھرب کیوبک فٹ بھی موجود ہیں۔ اس منصوبے پر کنوؤں کی کھدائی اور تلاش کے لیے ابتدائی طور پر 1.5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہے جس کا معاہدہ امریکا نے کیا ہے۔

اس کے علاوہ امریکا درآمد شدہ ایل این جی سے حاصل کی گئی قدرتی گیس کی کراچی سے لاہور تک ترسیل کے لیے گیس پائپ لائن کی تنصیب کے لئے 1.35 ارب ڈالرکا مالیاتی فنڈ بھی فراہم کر رہا ہے جب کہ وہ کوئلے سے بجلی بنانے کے منصوبوں کی تنصیب میں بھی مدد کرنے پر آمادہ ہے۔

دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر بھی ایک اور اہم منصوبہ ہے جس میں امریکا کو شامل کیا جاسکتا ہے۔ پاکستانی حکومت اس منصوبے کے لئے ورلڈ بینک سے رقم حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی ہے جب کہ ایشیا ئی ترقیاتی بینک اس منصوبے کے لیے رقم فراہم کرنے سے قبل امریکی رائے کا منتظر ہے۔ ڈیم کی تعمیر کے لیے بڑے پیمانے پر مالی امداد میں کمی کا سامنا ہے، اس منصوبے کی لاگت 14 ارب ڈالر تک اور اس کی تعمیر میں ایک دہائی لگ سکتی ہے۔ اگر یہ ڈیم تعمیر ہو گیا تو اس سے 6 کروڑ افراد کو بجلی، 10 لاکھ ایکڑ زرعی زمین سیراب اور لاکھوں افراد کو پانی کی فراہمی ممکن ہو سکتی ہے۔

لیکن نقصان دہ بات یہ ہے کہ نیٹو سپلائی میں رکاوٹ کے نتیجے میں امریکا کے زیر اثر بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے ملنے والے قرضے رک جائیں گے، اوسطا، عالمی بینک ملک کو سالانہ 1.5 ارب ڈالرز فراہم کرتا ہے۔ اس وقت عالمی بینک پاکستان میں 5 ارب ڈالرز مالیت کے 30 منصوبوں پر کام کررہا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) نے معاشی مسائل کا شکار پاکستان کی نئی حکومت کی درخواست پر اسے مالی سالوں 16-2013 کے لئے 6.6 ارب ڈالر کا بیل آؤٹ پیکج دیا ہے۔

ان روٹس کے بند ہونے کے بعد رسد کی تمام ترسیل پاکستان کے بجائے ناردن ڈسٹریبیوشن نیٹ ورک کے ذریعے کی جائے گی جس پر ماہوار لاگت 87 ملین ڈالرز مزید لاگت آئے گی، سپلائی لائن کے رکنے کے گہرے اثرات امریکا اور اس کے اتحادیوں سے زیادہ پاکستانی معیشت پر مرتب ہوں گے۔

اگرچہ ڈرون ملک کی خودمختاری پر حملہ ہے، لیکن ہر کسی کو اپنے حالات اور صورتحال کو جائزہ لینا چاہیے۔ بلآخر بھکاری نہ تو شرائط عائد کر سکتے ہیں اور نہ ہی کرتے ہیں۔

مقبول خبریں