حکومتی کارکردگی اورخود احتسابی کی ضرورت

ایڈیٹوریل  پير 27 جولائی 2020
ملک سے کرپشن کے خاتمے اور نئے پاکستان کی تعمیر وترقی کے دعوئوں کے ساتھ پی ٹی آئی اقتدار میں آئی

ملک سے کرپشن کے خاتمے اور نئے پاکستان کی تعمیر وترقی کے دعوئوں کے ساتھ پی ٹی آئی اقتدار میں آئی

پچیس جولائی 2018ء کے انتخابات کی مناسبت سے اپنے بیان میں سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں جدوجہد جاری رہے گی، تمام ترمشکلات کے باوجودکورونا وباء سے نبرد آزما ہوئے، مسئلہ کشمیرکوبین الاقوامی سطح پر بھرپور انداز میں اجاگرکیا ،کامیاب جوان پروگرام، یکساں نصاب تعلیم، بلین ٹری سونامی، ترقی کے سفرکا آغاز ہیں، سی پیک کی رفتار تیز، ڈیمزکی تعمیر اورکم آمدن والے افراد کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف الیکشن میں کامیابی کے بعد اپنے اتحادیوں کی مدد سے وفاق، پنجاب اور خیبر پختون خوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ اپوزیشن جماعتوں کے مطابق اب پی ٹی آئی کی پہلی حکومت کو بنے تقریباً دو سال ہونے والے ہیں، لیکن معیشت اورگورننس میں اس کی ناکامیوں کی فہرست طویل ہے، جس کا اثر عام لوگوں پر مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کی شکل میں پڑا ہے۔

اپوزیشن کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے ایک نئے پاکستان کی امید میں ووٹ دیے تھے،وہ اب پریشان ہیں۔ آٹا، چینی، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سمیت دیگر اسکینڈلوں کے الزامات سے پی ٹی آئی کی کارکردگی پرحرف آیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی تنقیدکو ایک طرف رکھتے ہوئے، ہم پی ٹی آئی کی حکومت سے یہ گزارش بصد احترام کریں گے کہ وہ خود احتسابی کا عمل اپنی جماعت میں شروع کرے۔ ان نکات واہداف کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے، جنھیں وہ ابھی تک حاصل نہیں کر پائی ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کورونا وبا کی وجہ سے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے، اور ہماری قومی شرح نمو منفی میں چلی گئی ہے۔

ایک لمحے کوسوچیں تو وبا کو پاکستان میں آئے کم وبیش چھ ماہ ہوئے ہیں،کیا اس سے پہلے حکومت ان معاشی اہداف کو برقرار رکھ سکی تھی جو گزشتہ حکومت چھوڑکرگئی تھی۔ اس تناظر میں عرض ہے کہ جب گزشتہ برس قومی اقتصادی سروے کی رپورٹ منظر عام پر آئی تو اس میں بتایا گیا تھا کہ حکومت کا کوئی معاشی ہدف حاصل نہیں ہوا ہے جب کہ اقتصادی سروے کے مطابق فی کس آمدن، سرمایہ کاری، بچت اور مہنگائی سمیت کوئی ہدف بھی حاصل نہ ہو سکا ۔ ڈالرکی قدر میں غیر معمولی اضافے سے فی کس آمدنی میں 136ڈالر کی کمی ہوئی تھی۔

فی کس آمدن 1652 ڈالر سے کم ہوکر 1516 تک پہنچ گئی تھی، لہذا حکومت کو سنجیدگی سے سوچنا ہے کہ آخراس کی اقتصادی اور معاشی پالیسیوں میں کہاں کہاں خامیاں موجود ہیں جن پر وہ تاحال قابو نہیں پا سکی ہے۔ واضح ہے کہ جو معاشی پیمانے گزشتہ حکومت چھوڑکرگئی تھی، ان کو برقرار رکھنے میں پہلے ہی برس حکومت کامیاب نہ ہو سکی تھی، اب کورونا تو محض بہانہ ہی رہ جاتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے خود کہا تھا کہ ملک میں مافیاز ہیں، یہ مافیاز الیکشن میں پارٹیوں پر انویسٹمنٹ کرتی ہیں، پھر وہ کماتے ہیں اور حکومت کچھ نہیں بگاڑسکتی، مافیا سے حکومت لوٹی ہوئی رقم نہیں لے سکتی ۔ کیا اب بھی یہی سلسلہ جاری ہے،یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔

ملک سے کرپشن کے خاتمے اور نئے پاکستان کی تعمیر وترقی کے دعوئوں کے ساتھ پی ٹی آئی اقتدار میں آئی۔ نیب کی کارکردگی پر بھی سپریم کورٹ نے سوالات اٹھائے ہیں، ادارے نے کوئی بڑی رقم ریکور نہیں کی ہے، احتساب کے نام پر جن اپوزیشن رہنمائوں پر مقدمات قائم ہوئے اور گرفتاریاں ہوئی تھیں ،ان میں اکثریت رہا ہوچکی ہے۔

سیاسی میدان میں بات کی جائے توملک کو ایک ایسی سیاسی تجربہ گاہ بنا دیا گیا ہے جہاں مختلف سائنس دان اپنے اپنے ناکام تجربات کررہے ہیں۔حکومت کے تمام کارنامے ٹویٹر، فیس بک اور واٹس ایپ گروپوں میں ہی گھومتے ہیں،سڑکوں پر تو عوام کا بْراحال ہے۔ حکومت کے حق میں واہ ، واہ کا شور بلند کرنے والے افراد کو ’’سوشل میڈیا صحافی‘‘ کا رتبہ دے دیا گیا ہے ۔ جب کہ ریاست کا چوتھا ستون صحافت شدید مشکلات کا شکار ہے۔

یہ بات درست سہی کہ کورونا وبا کے دوران احساس پروگرام کے تحت مستحقین تک امداد پہنچائی گئی ہے، یہاں حکومت کی خدمت میں گزارش ہے کہ اس طرح امدادی رقم کی تقسیم سے زیادہ بہتر تھا کہ وہ ان مقامی اداروں کو فنڈزمہیا کرتی، جن کے پاس مستحق افراد کا زیادہ مستند ڈیٹا نہ صرف موجود ہے، بلکہ وہ زیادہ فعال کردار بھی ادا کرسکتے ہیں مثلا سوشل ویلفیئر،محکمہ زکوۃ وعشر، ہلال احمر جن کے سیکڑوں ملازمین ہیں وہ باقاعدہ تنخواہیں بھی لے رہے ہیں لیکن فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے عوام کی خدمت سرانجام دینے میں انھیں رکاوٹیں پیش آ رہی ہیں۔

عوامی حلقوں کی رائے ہے کہ حکومت کی دوسالہ کارکردگی زیادہ اچھی نہیں رہی، ٹماٹر بحران کے دوماہ گزرنے کے بعد چینی کا بحران پیدا ہوگیا ، چینی کی قیمت نوے روپے فی کلو تک جا پہنچی ، فی کلو آٹے کی قیمت میں 25سے 30 روپے اضافہ ہوچکا ہے۔ پٹرول کا بحران پھر سر اٹھا رہا ہے جب کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل پانی کی طرح بہہ رہا تھا، مہنگائی اور بے روز گاری کے باعث لوگ پریشان ہیں۔ دو روز قبل ضلع نارووال کے ایک بیروزگار شخص نے خود سمیت اپنے چاروں بچوں کو زہرکھلا دیا۔  بیروزگاری کے بڑھتے ہوئے واقعات سنگین معاشرتی المیہ ہیں، ملک میں بیروزگاری کی شرح خطرناک حد تک پہنچ گئی ،ملکی معاشی اشاریے جس نہج پر پہنچ چکے ہیں ایسا تو پچھلی سات دہائیوں میں نہیں ہوا تھا، جو اب ہو رہا ہے۔

پاکستان کے سب سے بڑے معاشی ہب کے باسیوں کا شکوہ ہے کہ صوبائی اور وفاقی بجٹ میں ان کے لیے برائے نام رقم رکھی گئی ہے۔ شہر میں لوڈ شیڈنگ اور اووربلنگ کا مسئلہ ہے، بارش سے نمٹنے کے لیے کوئی مناسب نظام ہی موجود نہیں ہے،کراچی میں ہلکی سی بارش ہوتی ہے اور پورا شہر ڈوب جاتا ہے، ترقیاتی فنڈز کے650 ارب روپے میں سے صرف 18 ارب کراچی کے لیے رکھے گئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ اسٹیل ملز کو چلا کر دکھائیں گے، لیکن پچھلی حکومتوں کی طرح یہ حکومت بھی کچھ نہیں کررہی ہے۔

موجودہ حکمرانوں نے نوجوانوں کوروزگار دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن اس حکومت میں بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں، ملک میں بیروزگاری کی وجہ سے خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے، موجودہ حکومت کے آنے کے بعد بعض سرکاری ادارے مشکلات کا شکار ہیں، صنعتی شعبے میں بھی نمایاں ترقی نہیں ہوئی۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان زرعی ملک ہونے کے باوجود بہت سی اجناس درآمدکررہا ہے، یعنی کاغذات کی حد تک تو پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور ایشیاء کا بہترین نہری نظام اس میں موجود ہے لیکن عملی صورتحال انتہائی پریشان کن ہے کہ اگر ٹڈی دل کا حملہ ہوجاتا ہے تو دستیاب وسائل کے باوجود حکومت اورانتظامی مشینری ناکام نظر آتی ہے، اس غفلت کے نتیجے میں ملک میں غذائی قلت کا بحران جنم لے سکتا ہے۔

مہنگائی نے عام آدمی کا جینا دوبھرکردیا ہے، اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں، لیکن المیہ یہ ہے کہ حکومت مہنگائی کی روک تھام کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہی ۔ صرف لاک ڈائون کے دوران اشیائے ضروریہ کی قیمتیں اتنی زیادہ بڑھ چکی ہیں کہ عام آدمی کی قوت خرید جواب دے رہی ہے۔ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔

ملکی سیاست پر ہم بات کریں تو اپوزیشن ان دو سال میں قوم کی صحیح نمایندگی نہیں کرسکی ، اپوزیشن جماعتوں، وفاقی اور حکومتوں کے درمیان رابطوں کا فقدان بھی قومی بحران کا باعث بن رہا ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ اچھی جمہوریت اور اس کے ثمرات کے لیے اپوزیشن اپنا بھرپورکردارادا کرے ۔

ہماری خارجہ پالیسی بھی مطلوبہ امید افزا نتائج نہیں دے سکی، حکومت اپنی سمت کا تعین کرنے سے قاصر نظر آرہی ہے پاکستان تاحال ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے باہر نہیں آسکا ہے۔ گزشتہ برس پانچ اگست سے مقبوضہ کشمیرکے باسی لاک ڈائون کا شکار ہیں۔ بھارتی حکومت نے کشمیرکی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے،حکومتی  وزراء تقریروں سے کام چلا رہے ہیں لیکن سوال صرف اتنا ہے کہ کیا کشمیر صرف تقریروں سے آزاد ہوگا؟ مبہم خارجہ پالیسی سے ہماری مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ عالمی سطح پر نئی صف بندیاںہو رہی ہیں، نئے اتحاد وجود میں آرہے ہیںجب کہ ہم کہاںکھڑے ہیں،کون ہمارے ساتھ ہے، یا ہمیں کس اتحاد کے ساتھ شامل ہونا چاہیے، کچھ اتا پتہ نہیں۔

حرف آخر اب بھی حکومت کے پاس وقت ہے کہ وہ خود احتسابی پرعمل پیرا ہو، اپنی خامیوں پر قابو پاتے ہوئے اگلے تین برس میں ڈیلیورکرے تاکہ عوام کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہوں اورجمہوریت کے حقیقی ثمرات عوام تک پہنچیں، ملک معاشی واقتصادی میدان میں ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اقوام عالم میں ایک نمایاں مقام بنانے میں کامیاب وکامران ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔