ووٹ کی بے حرمتی

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 14 دسمبر 2013

اٹھارویں صدی میں فرانس میں نظریات کی جنگ کا آغاز ہوا ، یہ نظریاتی تصادم اس دور کے عظیم ترین مفکر والٹئر اور دیگر فرانسیسی مفکرین کے درمیان تھا مذہب کے قدیم عقائد اور سماجی رویوں کو چیلنج کر دیاگیا تھا سب سے بڑی بات یہ تھی کہ نئے نظریات بڑی بے باکی سے پیش کیے جارہے تھے لیکن اس طرح کی سیاسی سوچ زیادہ تر فرانس تک محدود تھی۔ اس دوران جمہوریت کا تصور پھیل گیا اور امریکی قرارداد آزادی اورفرانسیسی قرار داد حقوق کے مسحور کن لفظوں اورجملوں نے لوگوں کو ہیجان میں مبتلا کردیا۔ لاکھوں استحصال زدہ اور بے کس و مجبور لوگوں کے لیے یہ ایک نجات کا پیغام تھا دونوں قراردادیں آزادی،مساوات اور تمام لوگوں کے لیے خوشی اور آسودگی کے حق کی بات کرتی تھیں۔ یورپ اور دنیا بھر میں عیسائیت سمیت تمام مذاہب کا قدیم عقیدہ تھا کہ گناہ اور دکھ  نا گزیر طور پر لوگوں کی قسمت میں لکھ دیے گئے ہیں۔ مذہب دنیا میں غربت اور بدحالی کو ایک مستقل بلکہ احترام کا مقام دینا چاہتا تھا، وعدے وعید اور اجر دوسری دنیا اور آخرت سے وابستہ تھے۔ اس دنیا میں صبر اور شکر کے ساتھ تمام مصائب اور محرومیوں کو برداشت کر نے کا درس دیاجاتا تھا خیرات کی حوصلہ افزائی کی جاتی غریبوں میں بچا کھچا بانٹنا نیکی تصور کیا جاتا لیکن غربت کے خاتمے کے لیے کبھی کچھ سوچا نہ جاتا ۔

آزادی اور مساوات کے تصورات چرچ اور معاشرے کی حاکمیت کے خلاف سمجھے جاتے تھے جمہوری نظریے کے ارتقا کا ایک ظاہری نتیجہ یہ نکلا کہ ہر آدمی کو مقتدر اسمبلی یا پارلیمنٹ کے ارکان منتخب کرنے کا حق یعنی ووٹ دینے کا اختیار مل گیا۔ ووٹ سیاسی قوت کی علامت تھا یہ باور کر لیا گیا کہ اگر ہر ایک کو ووٹ کا اختیار مل جاتا ہے تو اس طرح ہر ایک سیاسی قوت و اقتدار میں حصے دار بن جاتاہے۔ ووٹ جدید دور کی سب سے بڑی طاقت کا نام ہے ۔ ووٹ کا احترام دنیا میں مذہب کی طرح کیاجاتا ہے ، ووٹ زندگی ہے تو اس کی بے حرمتی خودکشی ہے اور ہم ایک دفعہ بنگلہ دیش کی صورت میں اجتماعی خود کشی کے مرتکب ہوچکے ہیں جب آپ ووٹ کی بے حرمتی کرتے ہیں تو آپ لاکھوں لوگوں کو ایک ساتھ نا امیدی کی قبر میں دفن کررہے ہوتے ہیں۔ ووٹ کی بے حرمتی نے پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی بڑھانے میں ایندھن کا کام کیا۔

دوسری طرف جب مذہبی جماعتوں کو اس بات پر یقین ہوگیا کہ وہ کبھی بھی ووٹ کی طاقت کے ذریعے اقتدار میں نہیں آسکیں گے تو پھر انھوں نے لوگوں سے مایوس ہوکر دوسرا راستہ اختیارکرلیا اور جمہوریت کو برا بھلا کہنے لگ گئے اور اتنے غصے میں آگئے کہ اسے کفر کا نظام ہی کہنے لگ گئے  ۔  آج پاکستان میں واضح طور پر دو مختلف سوچیں اور مختلف نظریات الگ الگ سمت میں اپنا کام کررہے ہیں ایک سوچ وہ ہے جو ہمیں واپس اٹھارویں صدی میں لے جانا چاہتی ہے اور دوسری سوچ وہ ہے جس کی منزل وہ خوشحالی ، ترقی اور استحکام ہے جو بڑی جدوجہد کے بعد یورپ ، امریکا اور دیگر ممالک نے حاصل کیا ۔ اندھیرے کی سوچ اور نظریے والے ہم سب پر جبراً اپنی سوچ اور نظریہ مسلط کرنا چاہتے ہیں اور وہ اس سلسلے میں تشدد اور ہر حربے کو جائزسمجھتے ہیں وہ جنتوں کا وعدہ کرکے ہماری زندگی کو جہنم بنانا چاہتے ہیں ۔

نپولین ہل کہتا ہے کہ انسان جو کچھ سوچ سکتا ہے ذہن وہی کچھ حاصل کرسکتا ہے۔ ایک نوجوان نے سقراط سے پوچھا کہ کامیابی کا راز کیاہے۔ سقراط نے اسے کہا مجھے کل صبح دریا کے کنارے آکر ملنا۔ اگلی صبح ان کی ملاقات ہوئی تو سقراط نے کہا آئو میرے ساتھ دریا کی طرف چلو۔ وہ چلتے چلتے دریا میں اتر گئے مگر آگے بڑھتے رہے جب پانی گردن تک پہنچا تو سقراط نے نوجوان کو پکڑ کر اسے پانی میں غو طہ دے دیا۔ نوجوان نے اس کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کی لیکن سقراط اس سے زیادہ طاقتور تھا اس لیے نوجوان کامیاب نہیں ہوا۔ سقراط نے اسے پانی میں ڈبوئے رکھا جب نوجوان کا حال خراب ہوگیا تو سقراط نے اسے پانی سے نکال لیا نوجوان نے پانی سے سر نکالتے ہی منہ کھول کر لمبا سانس لیا۔ سقراط نے نوجوان سے پوچھا جب تم پانی کے نیچے تھے تو تمہیں سب سے زیادہ کس چیز کی خواہش تھی۔

نوجوان نے کہا ہوا کی ۔ سقراط نے کہا یہ ہی کامیابی کا رازہے ۔جب تم کامیابی کی اس طرح شدید خواہش کرتے ہو جس طرح پانی میں ڈوبے ہوئے نوجوان نے ہوا کی خواہش کی تھی تب تم کامیاب ہوجاتے ہو۔ جس طرح تھوڑی سی آگ زیادہ حرارت نہیں دے سکتی اسی طرح کمزور خواہش عظیم نتائج کو جنم نہیں دے سکتی۔ خوشحال ، ترقی اور کامیابی ہماری سوچوں اور فیصلوں کا نتیجہ ہوتی ہے، کامیابی اتفاقاً نہیں ملتی یہ ہمارے رویوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ خدارا ماضی کے مزاروں سے نکل آئو مستقبل کے خیابانوں کی طرف دیکھو انسان کی آنکھیں اس کے سرکے اگلے حصے میں ہوتی ہے پچھلے حصے میں نہیں گویا فطرت یہ چاہتی ہے کہ انسان پیچھے نہ دیکھے آگے کی طرف دیکھے، ہم پرانے زمانے کی رجعت اور قدامت پرست ،آمرانہ روایات سے آگے بڑھ چکے ہیں۔

اب نئی سرزمینیں ہیں نئے لوگ ہیں اور نئے افکار ہیں تو آئیے ہم اٹھارویں صدی کی نقل کرنے ان کے نقش قدم پر چلنے سے انکار کردیں ہم نئی دنیائوں کو دیکھیں اور نئی روایتیں بنائیں دوسروںکے پیروکار اور چیلا بننے سے انکار کر دیں اس کے بجائے اپنی دنیا خود بنائیں، یاد رکھو کہ ایک شخص کی نجی زندگی کو تاریخ کی کسی سلطنت سے زیادہ بلند مرتبہ اور نامور بنایا جاسکتا ہے آپ جو بھی ہیں بس یہ جان لیجیے کہ اس ساری دنیا کا وجود آپ کے لیے ہے۔ آئیں نفرت ، تعصب، غلامی کا پردہ تار تار کر ڈالیںاپنے آپ کو منوائیے دوسروں سے الگ تھلگ ہو کر نہیں بلکہ دوسروں کے ساتھ مل کر جو کچھ آدم کے پاس تھا اور جو کچھ سیزر کرسکتا تھا وہ آپ کے پاس ہے اور آپ بھی وہ سب کچھ کرسکتے ہیں۔

ذہن کی زنجیریں توڑ دیں اپنے ذہن کو آزاد کریں اور اپنے آپ کو جانیں اس انسان کے طور پر جو آپ بن سکتے ہیں جو آپ کا مقدر ہے انسان کے پاس امکانات بے پناہ ہیں ان کی کوئی حد نہیں ہے ۔پھر آپ نے کیوں خود پر بے بسی طار ی کر رکھی ہے اپنے امکانات کو کیوں زنجیروں میں باندھ رکھا ہے، یہ بے معنی زنجیریں ہیں آپ جب چاہیں ان کو توڑ سکتے ہیں یہ زندگی آپ کی ہے۔ اپنے بارے میں فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے نہ کہ مٹھی بھر افراد نے ۔آئیں مٹھی بھر افراد کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں  اور انہیں بتادیں ہماری زندگیوں کا فیصلہ آپ نہیں بلکہ ہم خود کریں گے۔ پھر دیکھیں خوشحال، ترقی، آزادی، آپ کا کس بے تابی کے ساتھ انتظارکرتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔