اور کتنی ڈرامے بازی ؟

وسعت اللہ خان  منگل 1 ستمبر 2020

یہ جو پچھلے چند روز سے کراچی کی حالتِ زار پر مرکز سے صوبے تک ہر فیصلہ ساز ماتمی اداکاری کر رہا ہے۔

یہ تماشا ہم اہلیانِ کراچی کئی عشروں سے سالانہ بنیاد پر دیکھتے آ رہے ہیں۔اب تو سب کچھ ایک پھٹیچر اسکرپٹ جیسا لگنے لگا ہے۔ پہلے منظر میں شدید بارش ہوگی۔شاہراہوں اور گلیوں میں پانی جمع ہو گا۔میڈیا کے کیمروں کی چاندی ہو جائے گی اور ریٹنگ کی آنکھ سے چھ انچ اونچا پانی بھی چھ فٹ کا نظر آئے گا۔

دوسرے ایکٹ میں بلدیاتی، صوبائی اور وفاقی عہدیدار ایک دوسرے کو دوپٹے پھیلا پھیلا کے کورس میں کوسیں گے۔اس آہ و بکا کے دوران یوں لگے گا گویا عوام کو ہر پھپے کٹنی ماں سے زیادہ چاہ رہی ہے اور بس مصائب کا خاتمہ ہونے کو ہے۔مگر کہاں صاحب۔ پھر اگلا برس آجاتا ہے۔ وہی جولائی اگست اور وہی پھٹیچر اسکرپٹ دوبارہ انھی اوور ایکٹرز کے طائفے کے ساتھ نمودار ہو جاتا ہے۔

اس بار بھی کیا مختلف ہو رہا ہے؟ مئیر کراچی وسیم اختر آنکھوں میں آنسو بھر کے اپنے سے اوپر والوں کو بددعائیں دیتے ہوئے مدت ِ عہدہ پوری ہونے کے بعد پچھلے ہفتے گھر بیٹھ گئے۔سندھ حکومت نے کہا کہ کراچی کی حالت دیکھ کر اس کی تو بھوک پیاس اڑ چکی ہے مگر وفاق ہمارے پھنسے ہوئے اربوں روپے نہیں دے رہا تو ہم کراچی کو کیسے سدھاریں۔وفاقی حکومت کہتی ہے کہ ناشکری سندھ حکومت کی جیب پھٹی ہوئی ہے۔ اس جیب میں قارون کا خزانہ بھی بھر دو تو خالی ہی نظر آئے گی۔

رہی عسکری اسٹیبلشمنٹ تو اس نے کراچی کے تین سیاسی فریقوں بلکہ حریفوں یعنی ایم کیو ایم ، پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف کے نکتہ چینوں کو ایک ہی کمیٹی میں بٹھانے کی کوشش تو کی مگر یہ اتنی ہی کامیاب ہوئی جتنی کہ مینڈکوں کو ترازو میں تولنے کی کوشش۔

اس بار اگر کچھ نیا ہے تو بس یہ کہ موجودہ وزیرِ اعظم نے پہلی بار سندھ کے وزیرِ اعلی سے خود رابطہ کر کے یقین دلایا ہے کہ وہ کراچی کے بنیادی مسائل کے جامع حل کے لیے شانہ بشانہ مکمل تعاون پر تیار ہیں۔مگر ہم اہلیانِ کراچی اس طرح کے چمتکاری مناظر کے اتنی بار ڈسے ہوئے ہیں کہ اب تو رسی بھی سانپ دکھائی پڑتی ہے۔اس مرتبہ ہم واقعی یقین کر لیں بشرطیکہ درجِ ذیل اقدامات ہوتے نظر آئیں۔

اول ) بلدیاتی انتخابات سے پہلے پہلے موجودہ پوپلے اور بے بس ڈھانچے کی جگہ ایک بااختیار و با وسائل بلدیاتی ڈھانچے کے قیام کے لیے اسمبلی فوری طور پر بلدیاتی ایکٹ میں بامعنی و موثر ترامیم کرے اور کچھ یوں کرے کہ صوبائی اور بلدیاتی ادارے اور ان کا انتظامی و مالیاتی دائرہ کار کسی بھی عام شہری کو شفاف انداز میں الگ الگ دائروں میں نظر آ سکے۔یہ قانون سازی محض کراچی کے بہلاوے کے لیے نہیں بلکہ سندھ کے تمام شہروں کی بلدیات کو یکساں بااختیار و  باوسائل بنانے کی نیت سے کی جائے۔

دوم) شہروں کی صحت و صفائی، منصوبہ بندی، ہنگامی حالات سے نپٹنے اور بنیادی انتظام چلانے کے ذمے دار تمام بکھرے اداروں کو یکجا کر کے مئیر کے اختیار میں دیا جائے جیسا کہ دنیا کے دیگر بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔

سوم ) کچھ ایسا نظام وضع کیا جائے جس کے تحت کراچی اور دیگر شہروں میں قائم کنٹونمنٹ بورڈز اور ڈی ایچ اے وغیرہ خود کو برہمن سمجھنے کے بجائے مقامی منتخب بلدیاتی ڈھانچے کے ساتھ اشتراک پر آمادہ ہو سکیںاور بحران کے وقت اپنی کمان ایک شخص یا ایک امبریلا ادارے کے ہاتھ میں دینے سے نہ ہچکچائیں تاکہ موثر رابطہ کاری کے ساتھ ساتھ دستیاب وسائل بھی جانفشانی کے ساتھ استعمال ہو سکیں۔نہ کہ ہر ادارہ کڑک مرغی کی طرح اپنے اپنے اختیارات و وسائل پروں میں دبا کر ایک دوسرے سے منہ موڑ کے بیٹھ جائے جیسا کہ اب تک ہوتا آیا ہے۔

چہارم) وہ تمام تجاوزات جو پانی کے قدرتی بہاؤ کو روکنے میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ بھلے بلدیاتی حدود میں ہیں یا کنٹونمنٹ حدود میں۔ان سب کو بلا تاخیر و مصلحت فوری طور پر منہدم کیا جائے۔ ان تجاوزات پر اگر کمزور طبقات کے لوگ رہائش پذیر ہیں تو انھیں اپنی زندگی رواں رکھنے کے لیے مناسب معاوضہ اور متبادل چھت فراہم کی جائے۔

حالانکہ ان تجاوزات کی قانون حیثیت نہیں ہے مگر ان میں رہنے والے کمزور طبقات بہرحال پاکستانی شہری ہیں اور انھیں بحیرہ عرب میں تو نہیں پھینکا جا سکتا۔ لہذا ان کی بے دخلی سے پہلے بنیادی بندوبست بھی کیا جائے تاکہ ایک مسئلہ حل کرتے کرتے ایک اور انسانی بحران پیدا نہ ہو جائے۔

پنجم ) بلدیاتی اداروں کے مفلوج ہونے کا ایک سبب پچھلے تین عشروں کے دوران بے تحاشا سیاسی و سفارشی تقرریاں بھی ہیں۔خزانے پر بوجھ ایسے لوگوں کا بیشتر وقت اپنی نااہلی چھپانے اور نوکری بچانے میں گذر جاتا ہے۔لہذا عدلیہ ، اچھی شہرت والے سابق بیوروکریٹس اور سول سوسائٹی کے معزز ارکان پر مشتمل ایک نظرِ ثانی کمیشن بنایا جائے جو پچھلے تیس برس کی تمام تقرریوں کو میرٹ کی بنیاد پر پرکھ کے نوکری سے نکالنے یا رکھنے کا آزادانہ و شفاف فیصلہ دے سکے اور ان فیصلوں کو تمام فریق بلا مصلحت و ناراضی برداشت کریں۔یہ وہ جلاب ہے جو بلدیاتی مریض کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے ازبس ضروری ہے۔

ششم ) صرف آبی گذرگاہوں پر تجاوزات کے خاتمے سے کام نہیں چلے گا بلکہ ان گذرگاہوں کو نکاسی کے جدید نظام میں تبدیل اور منسلک کرنا ہوگا اور یہ کام کم از کم اگلے پچاس برس کی ضروریات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کرنا ہوگا تاکہ ہر سال کی چھیچھا لیدر سے نجات مل سکے۔

ہفتم) ان سب مسائل کا سرچشمہ وہ سیکڑوں ٹن شہری کوڑا کرکٹ ہے جو روزانہ پیدا ہوتا ہے اور اسے پوری طرح ٹھکانے لگانے کا کوئی تسلی بخش انتظام نہیں۔ یہی کوڑا نہ صرف سڑکوں اور گلیوں کو آلودہ کرتا ہے بلکہ آبی گذرگاہوں میں بھی جمع ہوتا جاتا ہے۔اس روگ سے نجات کے لیے ٹکڑوں میں کام کرنے کے بجائے شہروار و شہر گیر منصوبہ بندی، وسائل و آلات کی فراہمی و یکجائی اور نگرانی کے کڑے نظام کی تشکیل لازمی ہے۔ ورنہ آپ باقی سب کام کر لیں اور اس کام کو ڈھیلا چھوڑ دیں تو باقی کی منصوبہ بندی دھری کی دھری رھ جائے گی۔

ہشتم ) کراچی ، حیدرآباد ، میرپور خاص ، نواب شاہ، سکھر اور لاڑکانہ جیسے بڑے شہروں کو فوری طور پر ایک جامع، جدید، تیز رفتار کثیر القسم پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کی ضرورت ہے۔یہ کام کسی ایک سطح کی حکومت کے بس کا روگ نہیں بلکہ وفاقی و صوبائی حکومتوں اور پرائیویٹ سیکٹر کو مل کے زور لگانا ہوگا۔ایک آسان راہ یہ بھی ہے کہ بڑے شہروں کا اربن ٹرانسپورٹ سسٹم سی پیک میں ڈال دیا جائے۔

نہم) آج جو ہم اس حالت تک پہنچے ہیں، اس کی آدھی ذمے داری ایک بدعنوان اور نااہل بلڈنگ کنٹرول ڈھانچے اور تعمیراتی قوانین کو موم کی ناک بنانے کے جرم پر عائد ہوتی ہے۔بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے دائرہ کار، قوانین پر عمل درآمد کی رفتار ، قوانین میں پوشیدہ سقم اور اوپر سے نیچے تک ہونے والی بھرتیوں کا ازسرِ نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے نئے اور جانفشاں ڈھانچے کی غیر جانبدار بااختیار نگرانی کے لیے ایک رضاکار کمیشن کی ضرورت ہے۔ ورنہ کرپشن اور اندھا دھند تعمیراتی منظوری کا طوق اسی طرح شہروں کے گلے پڑا رہے گا۔

دہم) ان تمام اصلاحات کو ٹھوس بنیادوں پر شروع کرنے، جاری رکھنے اور ان کا رخ کسی بھی دور میں تبدیل نہ کرنے کی ٹھوس قانونی ضمانت کے لیے ایک خطیر بجٹ درکار ہے اور اس کے لیے وفاقی و صوبائی بجٹ دستاویز میں ایک مستقل مد کا خانہ بنانا پڑے گا جیسا کہ دفاع ، صحت اور تعلیم وغیرہ کے لیے بنایا جاتا ہے۔تاکہ بلدیات اس خوف سے آزاد رہیں کہ کل کی روٹی کہاں سے آئے گی۔

اگر ان میں سے نصف بھی ہوجائے تو سمجھ لیجے گا کہ ہمارے فیصلہ ساز پاکستانی شہروں کا مستقبل بچانے کے لیے واقعی سنجیدہ ہیں۔بصورتِ دیگر ان فیصلہ سازوں کے ہر قلابے کو ایک پیشہ ور اداکار کی شاندار پرفارمنس سے زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت نہیں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔