واقعی اپنی ذات میں انجمن ۔۔۔۔ مکرم خان ترین

سیاح، سائیکلسٹ، اسکاؤٹ، فن کار، سماجی کارکن ہمہ جہت انسان کی زندگی اور سرگرمیوں کی دل چسپ کہانی ۔  فوٹو : فائل

سیاح، سائیکلسٹ، اسکاؤٹ، فن کار، سماجی کارکن ہمہ جہت انسان کی زندگی اور سرگرمیوں کی دل چسپ کہانی ۔ فوٹو : فائل

لاہور کی کینال ویو سوسائٹی میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہر ہفتے ایک چوپال سجتی ہے جس میں ملک کے مختلف شہروں سے آئے سیاح اور بائیکر حضرات شرکت کر کے اپنے اپنے تجربات شیئر کرتے ہیں۔ کبھی یہاں چائے کے دور کے ساتھ لاہور کا دیسی گھی والا پتیسہ چلتا ہے تو کبھی ملتان کے آم اور خانپور کے پیڑے کھائے جاتے ہیں یہ سوغاتیں یار لوگ دور دور سے ایک دوسرے کے لیے لاتے ہیں۔

یہ ہمسایہ ہاؤس ہے۔ ملک کے نام ور بائیکر اور سیاح مکرم خان ترین کا ٹھکانا، جہاں انہوں نے ملک کے نام ور موتی محبت کی لڑی میں پرو رکھے ہیں۔

مکرم خان ترین کے تعارف کے کئی حوالے ہیں۔ آپ ایک منجھے ہوئے بائیکر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سنیئر اسکاؤٹ، کراس روٹ انٹرنیشنل بائکر کلب کے بانی رکن، سیاح، خیراتی ادارے ہمسایہ فوڈ بینک کے چیئرمین اور سب سے بڑھ کر ایک خوب صورت انسان ہیں۔ خان صاحب کے ساتھ ایک نشست میں کی گئی گفتگو کا لب لباب پیش خدمت ہے۔

اپنی پیدائش اور بچپن کے بارے میں ترین صاحب بتاتے ہیں کہ میں 12 مارچ 1967 کو ملتان کے علاقے قدیر آباد میں پیدا ہوا جب کہ میرا آبائی علاقہ مظفر گڑھ کی تحصیل کوٹ ادو ہے۔ اس لحاظ سے میری مادری زبان سرائیکی ہے۔ میرے والد صاحب محکمۂ تعلیم میں ڈی او تھے جب کہ والدہ سیدھی سادی گھریلو خاتون تھیں۔ میرے پانچ بھائی ہیں جن کے ناموں کے پیچھے بھی ایک دل چسپ بات ہے۔ میرے والد صاحب کو نامِ ’’محمد‘‘ سے اتنی محبت اور عقیدت تھی کہ انہوں نے ہم پانچوں بھائیوں کے نام لفظ ”م” سے رکھے۔ میں یعنی مکرم، معظم، منعم، مہتشم اور متبسم۔ تو ہم پانچوں بھائیوں کے نام کی یہ وجہ ہے۔

بچپن سے ہی مجھے کھوج لگانے اور منفرد چیزوں میں دل چسپی لینے کا شوق تھا۔

میں نے بنیادی تعلیم اپنے آبائی علاقے سے حاصل کی تھی پھر اس کے فوراً بعد میں 1982 میں ملتان آ گیا کہ یہ قریب بھی تھا اور ایک مرکزی شہر بھی تھا۔ آٹھویں سے دسویں تک میں پائلٹ سیکنڈری اسکول میں پڑھا پھر اس سے آگے کی تعلیم میں نے گورنمنٹ کالج ملتان بوسن روڈ سے حاصل کی۔ پھر 2006 میں پرسٹن یونیورسٹی سے میں نے فائن آرٹس میں ڈگری لی۔

اس زمانے میں ہمارے علاقے میں یہ ایک منفرد ڈگری مانی جاتی تھی کیوںکہ اس وقت بھی ڈاکٹری اور انجینیئرنگ کو اہم ڈگری مانا جاتا تھا۔ بچپن سے ہی ایک چھوٹا موٹا آرٹسٹ میرے اندر چھپا بیٹھا تھا اور میں گھر میں بھی آرٹ کے بہت سے کام کرتا تھا۔ پھر میں نے سوچا کہ کیوں ناں اسے پالش کروں۔ اس مقصد کے لیے میں نے پرسٹن جوائن کی جہاں ”مجسمہ سازی اور اسکلپچرز” میرا بنیادی مضمون تھا۔ اس کے بعد میں نے لکڑی، پتھر، چکنی مٹی اور پلاسٹر آف پیرس پر بھی کافی ہاتھ سیدھا کیا۔ میرے ایک استاد تھے آغا صدف مہدی صاحب جو آج کل بہاولپور ہوتے ہیں، انہوں نے میری صلاحیتوں کو پہچانا اور مجھے خوب پالش کیا۔ اس کے علاوہ اس کام کے لیے میں نے گھر میں بھی ایک چھوٹا سا اسٹوڈیو بنایا ہوا تھا، جب وقت ملتا تو وہاں کام کرتا تھا اور مٹی سے چیزیں بناتا تھا۔ یہ کام اب بھی کرتا ہوں لیکن بہت کم، اگرچہ نفاست کچھ کم ہو گئی ہے لیکن اچھا بنا لیتا ہوں۔

اس ہنر کو کمرشل طور پر استعمال کرنے کے بارے میں مکرم صاحب نے بتایا کہ بہت سے لوگوں نے مجھے کہا کہ آپ اسے کمرشل سطح تک لے کر جائیں، اس کی نمائشیں وغیرہ کروائیں لیکن میرے پاس اس کا وقت نہیں تھا۔ میں نے ملتان کی ایک دو نمائشوں میں دوسرے آرٹسٹوں کے ساتھ اپنا کام رکھا تھا جس کو کافی سراہا گیا الحمد لِلہ۔

اس بات پر میں نے ان سے یہ گزارش کی کہ آپ اپنا کام کہیں نمائش کے لیے پیش کریں کہ ایک آرٹسٹ کو کبھی اپنا فن چھوڑنا نہیں چاہیے۔

یہ وہ دور تھا جب خان صاحب ایک سیاح اور بائیکر نہیں بلکہ ایک آرٹسٹ کے طور پر ابھر رہے تھے۔ ان کی شخصیت میں جو پہلی چیز نکھر کر سامنے آئی وہ ان کا یہ مجسمہ سازی اور سنگ تراشی کا ہنر تھا۔ یہ جان کر ان کے چاہنے والوں کو بھی بہت حیرانی ہو گی کیوںکہ ان میں سے اکثر ان کے اس ہنر سے ناواقف ہیں۔ اس کے بعد ان کی زندگی کے دوسرے اور سب سے اہم دور کے بارے میں بات چیت شروع ہوئی یعنی سیاحت اور بائیکنگ۔

سیاحت کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ سیاحت میں انسان بہت سی چیزیں وقت کے ساتھ ساتھ سیکھتا اور اپناتا ہے لیکن میں یہ کہوں گا کہ میرے اندر بہت سی چیزیں قدرتی طور پر موجود تھیں۔ وہ میں نے ایڈاپٹ نہیں کیں۔ بچپن میں جو انگریزی کا پہلا لفظ میں نے سیکھا تھا وہ چھٹی جماعت میں ”ٹورسٹ” تھا۔ لفظ سیاح بچپن سے ہی مجھے انسپائر کرتا تھا۔ میں نے اس کی انگلش ڈھونڈی اور یہ لفظ سیکھا۔ میرے والد صاحب بھی ایک سیاح تھے جنہوں نے اپنے زمانے میں انٹرنیشنل ٹور بھی کیے تھے تو میں ان سے بہت متاثر ہوتا تھا لیکن ہمارے ہاں جس طرح کا ماحول تھا اس میں سیاحت کے مواقع بہت کم تھے اور کوئی راہ نمائی کرنے والا بھی نہیں تھا۔

یہاں میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ میرے والد صاحب ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں تھے۔ ہمارے بچپن میں ایک بار وہ لائبریری کی کچھ کتابیں گھر لائے تو وہ میں نے دیکھیں ان میں سے ایک کتاب جنرل اسکاؤٹس کے بارے میں تھی۔ مجھے وہ اتنی اچھی لگی کہ میں نے وہ کتاب چپکے سے اٹھا لی جس میں کیمپس کی تصاویر مجھے بہت پسند آئیں۔ اس کی ایک زبردست تصویر مجھے اب بھی یاد ہے جس میں اسکاؤٹس کو ایسی ندی پار کرنے کا طریقہ بتایا گیا تھا جس پر کوئی پُل نہیں تھا۔ ایسے حالات میں کسی قریبی درخت کو کاٹ کر پل بنانا سکھایا گیا تھا۔ افسوس کہ آج کل نوجوانوں کو یہ چیزیں نہیں سکھائی جاتیں۔ وہ کتاب میں نے چھپالی۔ ایک دو دن بعد، جب وہ کارٹن والد صاحب کو واپس کرنا تھا تو کتابیں گنتی کی گئیں اور ایک کتاب کم نکلی۔ انہوں نے ہم سب بھائیوں کو بلا لیا اور کہا کہ ایک کتاب کم ہے۔ میں نے اس وقت خوف سے بتایا تو نہیں کہ کتاب میرے پاس ہے، لیکن الماری سے نکال کر باہر کہیں رکھ دی کہ کوئی دیکھ کر والد صاحب کو دے دے گا۔ ایک دو دن بعد ہی امی نے وہ کتاب دیکھی اور اٹھا کر والد صاحب کو دے دی۔ غرض تب سے یہ سیاحت اور اسکاؤٹنگ میرے خون میں ہیں۔

اس چیز کو پھر میں آگے لے کر چلا اور اسکول لائف سے ہی میں نے اسکاؤٹنگ شروع کر دی۔ اپنی اسکول ٹیم کے ساتھ دو دفعہ میں مری گیا جہاں ہم نے اسکاؤٹنگ کی بنیادی باتیں سیکھیں۔ میری بنیاد میں اسکاؤٹنگ کا بہت بڑا کردار ہے۔ میں اب بھی ایک دو اسکاؤٹنگ کلبز کا ممبر ہوں۔ بہاولپور کے مشہور ایجوکیشنسٹ اور اسکاؤٹ میاں نیک اختر نے مجھے ایک بار کہا کہ جو کام اب آپ کر رہے ہیں یہ 80 فی صد اسکاؤٹنگ ہی ہے تو آپ اسکاؤٹنگ میں کیوں نہیں آتے؟ میں نے ان سے کہا کہ میں تو کب سے ایک کلب بنانے کا سوچ رہا ہوں۔ کراس روٹ کلب کے اندر بھی ہم یہ سرگرمیاں کروا سکتے ہیں۔ اسکاؤٹنگ ایک ایسا فورم ہے کہ آپ اس میں اپنے نام کا کلب بنا کر بھی بہت سے کام کر سکتے ہیں۔ میں اس حوالے سے بھی کام کرنے کا سوچ رہا ہوں۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے گھومنا پھرنا 1987 میں شروع کر دیا تھا اور 1989 میں ایک بڑا ٹور جو میں نے کیا وہ سائیکل پر مظفر گڑھ تا لاہور کا سفر تھا۔ یہ اقبال ڈے کے حوالے سے تھا جس میں ہم چار پانچ سائیکلسٹ شامل تھے۔ اس زمانے کے لحاظ سے یہ مشکل سفر تھا کیوںکہ سہولتیں کم ہوتی تھیں۔ پھر باقاعدہ سیاحت میں نے 2000 کے بعد سے شروع کردی تھی اور جب میں 10-2009 میں لاہور آیا تو یہاں سے میری بڑی سیاحتی مہمات کا آغاز ہوا۔

اپنی منفرد اور بین الاقوامی قسم کی شخصیت اور حلیے کے بارے میں مکرم صاحب نے ایک مزیدار کہا نی سنائی کہ 2001 سے 2004 کے درمیان اپنے ٹور میں نے تیز کر لیے۔ اس زمانے میں، میں پروفیشنل سیاحت میں تھا۔ اِن دنوں ہمارے ٹورز منظم طریقے سے ہوا کرتے تھے، میڈیا اور مختلف ادارے بھی شامل ہوتے تھے۔ بہت سے بین الاقوامی سیاح بھی آتے اور مجھ سے ملتے تھے۔ میں نے انہیں دیکھ کہ کچھ منفرد کرنے کا سوچا اور اپنے حلیے پر توجہ دی۔ ان دنوں میرے بال بڑے تھے تو میں نے پونی کرلی۔ جب میں گاؤں جاتا تھا تو بڑے بوڑھوں سے اسے چھپانے کے لیے پی کیپ پہن لیتا تھا۔ اس وقت دیہات میں ٹراؤزر اور پینٹ پہننا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔

یہ 2010 کی بات ہے کہ جب میں لاہور آیا تو مجھے شدید قسم کا ڈینگی ہوا اور کوئی پندرہ دن میں نے بہت اذیت کے گزارے۔ ہڈیوں اور جسم میں درد کے ساتھ میرے بال بھی گرنے لگے۔ جب میں کنگھی کرتا تو بال ٹوٹ جاتے۔ پھر جب میں ٹھیک ہوا تو میں نے سوچا کہ میں ٹِنڈ کرواتا ہوں تاکہ اچھے بال نکلیں۔ اس کے باوجود بال اچھے نہ نکلے تو میں نے فیصلہ کیا کہ اگر میرے اللہ کو میرے بال نہیں پسند تو میں ٹنڈ ہی کیوں نہ کروا لوں تو میں نے ٹنڈ کروا لی۔ رہی بات مونچھوں کی تو وہ میری پہلے بھی تھیں، پونی کے ساتھ۔ فرق یہ ہے کہ اس وقت میری ہلکی داڑھی بھی تھی اور میں ایک آرٹسٹ لگتا تھا اور اب بائیکر لگتا ہوں۔ اب لوگ دیکھ کہ کہتے ہیں کہ میری مشابہت ریسلر ”ہلک ہوگن” سے ہے۔ ایک اور دل چسپ بات آپ کو بتاؤں کہ جب میں اندرون لاہور یا کہیں اور ٹور پر جاتا ہوں تو لوگ بہت حیران ہوتے ہیں اور مجھے غیرملکی سمجھ کر تصاویر بنواتے ہیں، لیکن جب مجھے سرائیکی یا اردو بولتے دیکھتے ہیں تو دانتوں تلے انگلیاں دبا لیتے ہیں۔

خاندان والوں کے ردعمل اور فیملی سپورٹ کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ خاندان کے کچھ لوگوں نے تو بہت باتیں کیں کہ یہ ہر وقت باہر رہتا ہے، اِدھر اُدھر نکل جاتا ہے، یہ سب وقت اور پیسے کا ضیاع ہے، کہیں اس کا کوئی معاشقہ نہ چل رہا ہو وغیرہ، لیکن الحمد للہ میری بیگم اور بچوں نے بہت ساتھ دیا میرا۔ اگرچہ شروع میں وہ بھی اس چیز کے حامی نہیں تھے لیکن

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔