بلقیس دادی۔۔۔بھارتی مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف مزاحمت کی علامت

تزئین حسن  اتوار 25 اکتوبر 2020
 دہلی کے شاہین باغ کی اس بزرگ خاتون کا نام دنیا کے 100 بااثر ترین افراد کی فہرست میں کیوں؟

دہلی کے شاہین باغ کی اس بزرگ خاتون کا نام دنیا کے 100 بااثر ترین افراد کی فہرست میں کیوں؟

بھارتی میڈیا کے مطابق مودی حکومت کے منظور کردہ شہریت سے متعلق متنازعہ قوانین سٹیزن شپ امینڈ منٹ بل (سی اے اے) اور نیشنل رجسٹریشن آف سٹیزنز (این آر آئی) کے خلاف دہلی کے شاہین باغ میں احتجاج کرنے والی بیاسی سالہ خاتون بلقیس کو امریکا کے معروف میگزین ’’ ٹائم ‘‘ نے دنیا کے سو موثر ترین افراد کی لسٹ میں شامل کر لیا۔

یاد رہے کہ مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے منظور کردہ متنازعہ اور تفریق پر مبنی قانون سی اے اے کے مطابق بھارتی حکومت غیرقانونی امیگرینٹس کو فاسٹ ٹریک امیگریشن کی سہولت فراہم کرے گی لیکن صرف اور صرف اس صورت میں اگر وہ مسلمان نہ ہوں۔

بظاہر یہ قانون مسلمان ملکوں سے انڈیا میں غیرقانونی طور پر داخل ہونے والے امیگرینٹس کے خلاف محسوس ہوتا ہے لیکن اگر اس حقیقت کو پیش نظر رکھا جائے کہ بھارت کی بڑی آبادی جس میں تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے شامل ہیں، آزادی کے بہتر سال بعد بھی شناختی دستاویزات سے محروم ہے جو امیت شاہ (بھارتی وزیرداخلہ) کے پیش کردہ این آر آئی نامی بل کی منظوری کے بعد غیر ملکی قرار پائیں گے۔

اس حقیقت کے پیش نظر ہندوستانی اور عالمی ماہرین اس بات کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ دونوں بل در اصل مسلمانوں سے شہریت کے حقوق چھین کر انہیں اپنے ہی ملک میں گھس بیٹھیے قرار دینے کا منصوبہ ہے۔ عالمی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مودی حکومت چین اور برما کی طرح مسلمانوں کی نسل کشی کی تیاری کر رہی ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ اس قانون کے تحت پہلے ہی آسام کے دو لاکھ مسلمانوں سے شہریت کے حقوق چھینے جاچکے ہیں اور آسام سمیت دو ریاستوں میں ان مسلمانوں کو منتقل کرنے کے لیے کیمپ تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ نسل کشی کے خلاف کام کرنے والے ایک عالمی ادارے ’جینوسائیڈ واچ ‘ نے خبردار کیا ہے کہ آسام میں مسلمانوں کی نسل کشی ابتدائی مراحل طے کر چکی ہے۔

واضح رہے کہ کسی مذہبی، لسانی، نسلی گروہ کو کلی یا جزوی طور پر صفحہ ہستی سے مٹانے کی ارداتاً کوشش کو ’جینو سائیڈ ‘ یا ’نسل کشی‘ کہا جاتا ہے۔ یہ عموماً کم زور اقلیت کے خلاف سرکاری مشینری کو استعمال کر کے برپا کی جاتی ہے۔ یہ بین الاقوامی قانون کے تحت انسانیت کے خلاف سب سے بڑا جرم تصور کیا جاتا ہے۔

بلقیس دادی دراصل اس نسل کشی کے خلاف مسلمانوں کی بقا کی جنگ لڑنے والی ان خواتین میں شامل تھیں جنہوں نے شاہین باغ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔ بھارتی حکومت فروری میں مسلمانوں کے خلاف فسادات کے بعد خواتین کے اس پُرامن احتجاج کو ختم کرنے میں کام یاب ہوئی۔ شہریت کے ان قوانین کے خلاف پرامن احتجاج کرنے والوں کو جن میں بڑی تعداد خواتین کی تھی مودی حکومت کے وزراء نے مبینہ طور پر دہشت گرد قرار دیا۔

دہلی کی جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں پولیس نے مظاہرہ کرنے والوں کے علاوہ عام طلبہ کو بھی لائبریری میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا۔ حکومت نے اسے ہندو مسلم فساد کا نام دیا لیکن خود بھارتی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ پولیس بلوائیوں کے ساتھ تھی۔ سوشل میڈیا پر وائرل وڈیوز میں پولیس گلیوں میں نصب کیمرے توڑتی بھی دیکھی گئی۔

یاد رہے کہ این آر آئی کے مطابق شہریوں کی نئے سرے سے رجسٹریشن جسے لازمی قرار دیا گیا ہے، کے بعد ایسے تمام آبادی جس کے پاس شناختی دستاویزات موجود نہیں، کو غیرقانونی امیگرینٹ یا ’ گھس بیٹھئے‘ تصور کیا جائے گا لیکن اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والے مذکورہ افراد فاسٹ ٹریک میں شہریت حاصل کرنے کے حق دار ہوں گے یعنی اس بل سے حتمی طور پر متاثر صرف مسلمان ہوں گے۔ انڈیا اور دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیمیں ان قوانین کو تفریق پر مبنی اور بھارتی سیکیولرازم کے خلاف قرار دے رہی ہیں۔

بھارت کی ایک سو پچیس کروڑ کی آبادی کا بہت بڑا حصہ جس کا تعلق کم آمدنی والے طبقات سے ہے، شناختی دستاویزات سے محروم ہے اور ان میں ایک بڑی تعداد صدیوں سے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کی ہے جو آبادی کا چودہ فی صد ہیں۔ سی اے اے اور این آر آئی کے قوانین اس جینوسائیڈ کے ابتدائی مراحل ہیں لیکن درحقیقت اس کی منصوبہ بندی کی جڑیں سو سال پہلے پیش کے جانے والے پرونازی فلسفے پر مبنی نظریے ہندوتوا میں پیوست ہیں جس کے مطابق ہندوستان میں صرف ہندو کہلانے والوں کو رہنے کا حق ہے۔

مودی کی بی جے پی دراصل ہندوستانی آزادی کی قیادت کرنے والے مہاتما گاندھی کے قتل کے ذمہ دار آر ایس ایس کا ایک سیاسی ونگ ہے، جس نے انیس سو بانوے میں بابری مسجد کے تنازعہ سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی اور اپنا سیاسی قد اونچا کیا۔ سن دوہزار میں اس پارٹی نے گجرات میں انتخابی فتح حاصل کی اور وہاں بی جے پی گورنر مودی کی سرپرستی میں انڈیا کی تاریخ کے بدترین مسلم کش فسادات وقوع پذیر ہوئے۔

دوہزار چودہ میں اس پارٹی نے نفرت اور مسلم دشمنی کی بنیاد پر ملک گیر انتخابی فتح حاصل کی۔ دوہزار چودہ کے بعد اس پارٹی نے گائے کی حفاظت کو بنیاد بنا کر انڈیا کے گاؤں گاؤں میں گاؤرکھشا محافظ غیرسرکاری گروہوں کو مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف ماورائے عدالت کاروائیوں پر ابھارا گیا۔

امریکی اخبار ایٹلانٹک کے مطابق دوہزارچودہ سے دوہزار سترہ تک دو درجن سے زیادہ مسلمانوں اور دلتوں کو گؤماتا کی رکھوالی کے نام پر ہجوم نے سرعام کچل کر موت کی گھات اتارا۔ نہ صرف یہ بلکہ اس بہیمانہ کارروائی کی وڈیوز فخریہ وائرل کی گئیں۔ بعدازاں معاملہ عدالت پہنچنے پر کورٹ نے ان وڈیوز کو بھی جن میں قاتلوں کے چہرے واضح ہیں، ثبوت قرار دینے سے انکار دیا۔ دوہزار سولہ میں کانگریسی پارلیمینٹرین اور معروف مصنف ششی تھرور کا کہنا ہے کہ کہ انڈیا میں ایک گائے مسلمان سے زیادہ محفوظ ہے۔

یہ بھی ایک طرفہ تماشا ہے کہ گاؤرکھشا کے نام پر جان لیوا تشدد کے واقعات کے باوجود انڈیا دنیا میں گائے کے گوشت کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے ۔ بی جے پی کی حکومت سے پہلے گائے کے گوشت کا کاروبار زیادہ تر مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھا جب کہ دلت روایتی طور پر ان کی کھالوں وغیرہ کا کام کرتے تھے۔ بعض مبصرین کے نزدیک گاؤ رکھشا کے نام پر مسلمانوں کو اس کاروبار سے بے دخل بھی کیا گیا اور اقلیتوں کو مسلسل خوف کا شکار بھی رکھا گیا لیکن ہجوم کے ہاتھوں کچلے جانے کے یہ واقعات صرف گائے کی رکھوالی سے ہی منسلک نہیں ہیں۔

ہندوستانی معاشرے میں انتہاپسندی اتنی بڑھ چکی ہے کہ فروری دوہزار بیس میں مغربی بنگال میں ایک مسلمان کسان کو اس کے پانچ پڑوسیوں نے صرف اس لیے اس کے گھر میں پھانسی پر چڑھا دیا کہ مقتول کے بیٹے نے قاتلوں میں سے ایک کا موبائل خراب کر دیا تھا۔ انڈین چینل این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق مئی دوہزار بیس میں ایک مسلمان کو بکری کی چوری کے الزام میں ہجوم نے موت کی گھاٹ اتار دیا۔

بعدازاں پولیس پہنچی تو اس نے دو ایف آئی آر کاٹیں: ایک ہجوم کے خلاف قتل کی اور دوسری مقتول کے خلاف بکری کی چوری کی جب کہ بکری کا کوئی دعوے دار سامنے نہیں آیا۔ ہجوم کے تشدد کے یہ واقعات اتنے بڑھے کہ دوہزار اٹھارہ میں بالاخر انڈین سپریم کورٹ کو یہ کہنا پڑا کہ ہجوم کو بہیمانہ کاروائیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق، شاہین باغ میں مذکورہ قانون کے خلاف احتجاج کرنے والی خواتین کے بارے میں بی جے پی سے تعلق رکھنے والے انڈیا کے سب سے بڑے صوبے اترپردیش کے چیف منسٹر ادتیہ یوگی کا کہنا تھا کہ انہیں بریانی نہیں بلٹس ملنی چاہییں۔ واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سے قبل دو ہزار سترہ میں یوگی نے اپنے ووٹروں سے ایک ’’ مسلم فری‘‘ انڈیا کا وعدہ کیا۔

یعنی ایسا بھارت جس میں ایک مسلمان بھی نہ ہو گا۔ اس وعدے کو ہٹلر کے ’’فائنل سولوشن‘‘ کے ڈاکٹرائن سے مماثل قرار دیا جاسکتا ہے جس کے مطابق یہودی مسئلے کا آخری حل ہولو کاسٹ ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یوگی سے اشتعال انگیز الفاظ واپس لینے کا مطالبہ کیا جس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ شہریت کا یہ قانون دراصل مسلمانوں کی نسل کشی کے اس وعدے کی تکمیل کا ایک مرحلہ ہے۔

مغربی دنیا کے سنیئر صحافی پیٹرک کاک برن نے ’انڈیپینڈنٹ‘ میں شائع ہونے والے مضمون میں دہلی کے فسادات کو جرمنی میں یہودیوں کے خلا ف ہونے والے اولین حملوں سے تشبیہ دی اور بھارتی مسلمانوں کے ہولو کاسٹ کا آغاز قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جس وقت انڈیا میں مسلمانوں پر یہ ظلم ہو رہا ہے باقی دنیا کا ردعمل بہت سست ہے۔

کاک برن نے خصوصی طور پر رواں سال فروری میں ٹرمپ کی دلی میں موجودگی کے دوران دلی کے مسلم محلوں میں بلوے پھوٹ پڑنے والے بلوؤں کا تذکرہ کیا جس میں سینتیس افراد (تقریباً سارے مسلمان) ہلاک ہوئے۔ ہندو قوم پرستوں کے ہجوم نے مسلمانوں کو زندہ جلایا۔ ان کے گھروں، دکانوں، اور مساجد کو لوٹنے کے بعد آگ لگائی جب کہ کئی مقامات پر پولیس بھی اس ہجوم کے ساتھ دیکھی گئی۔ پولیس سے مدد مانگنے والے مسلمان انتظار کرتے رہ گئے۔

بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ سرکاری رویوں کو ہولو کاسٹ سے پیشتر کے جرمنی میں یہودیوں سے سلوک سے مماثلت کی بات تنہا کوک برن نہیں کر رہے۔ بین الاقوامی شہرت رکھنے والی بھارتی ادیبہ اور انسانی حقوق حقوق کی کارکن ارون دھتی رائے کا کہنا ہے کہ کورونا کی وبا کے دوران بھارتی حکومت نے مسلمانوں کو اس مرض سے منسلک کر کے اسی طرح بدنام کرنے کی کوشش کی جیسے جرمنی میں تائفس کے مرض کو یہودیوں سے منسلک کیا گیا۔

خود بھارتی دانش ور بھی نسل کشی کے خطرے کا اظہار کر رہے ہیں۔ جودھ پور یونیورسٹی انڈیا میں تقابلی لٹریچر پڑھانے والے پروفیسر سامن تک داس ’ٹیلی گراف‘ انڈیا میں لکھتے ہیں کہ اقلیتوں کے خلاف فسادات (pogrom ) کسی بھی وقت جینو سائیڈ یعنی نسل کشی میں بدل سکتے ہیں۔

لندن اسکول آف اکنامکس سے تحصیل یافتہ اور آکسفورڈ رائٹرز انسٹیٹیوٹ آف جرنلزم کے فیلو شرینک راؤ، اسرائیلی اخبار ’ ہارٹز ‘ میں لکھتے ہیں کہ بی جی پی کا انڈیا نازی نظریات سے بے حد متاثر ہے۔ انہوں نے اپنے انڈیا کے دورے میں مشاہدہ کیا کہ ہٹلر کی آپ بیتی مین کامپف اور نازیوں کی پہچان سواستیکا کا نشان انڈیا میں بڑے پیمانے پر مقبول ہے اور اسی طرح نازی نظریات۔ ان کا کہنا ہے کہ فرق صرف اتنا ہے کہ ہندوتوا کے نازیوں کا نشانہ یہودیوں کے بجائے مسلمان ہیں اور یہ نیا ہولوکاسٹ جرمنی کے بجائے انڈیا میں ہونے جارہا ہے۔

بیاسی سالہ بلقیس دادی کو ’ٹائم‘ میگزین نے 100 بااثر افراد کی فہرست میں اس لیے شامل کیا ہے کہ وہ دو قوانین کے خلاف نہیں بلکہ دراصل اس نسل کشی کے خلاف احتجاج کر رہی تھیں جو ہندوستانی مسلمانوں کے سر پر منڈلا رہی ہے۔ بلقیس ان ہزاروں باہمت خواتین میں سے ایک ہیں جو مودی حکومت کے اس مسلم کش قانون کے سامنے ڈٹ گئیں اور انہوں نے شاہین باغ کے احتجاجی کیمپ کو اپنا ٹھکانا بنالیا۔

دیکھنا یہ ہے کہ ٹائمزکے سر ورق پر بلقیس دادی کی تصویر عالمی ضمیر کو جگانے میں کس حد تک کام یاب ہوتی ہے۔ عالمی میڈیا انڈین مسلمانوں کو درپیش صورت حال کا ادراک رکھتا ہے اور اس پر مسلسل آواز بھی اٹھا رہا ہے لیکن ہمارے لیے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کشمیر، فلسطین اور روہنگیا کے لیے ریلیاں نکالنے والے پاکستانی، اس مملکت خداداد کی اصل قیمت ادا کرنے والے ہندوستانی مسلمان کے حق میں کب آواز اٹھائیں گے؟ یہ وہ لوگ ہیں جو بہتر سال سے پاکستان کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔

یہ بہتر سال سے ’پاکستان جاؤ یا قبرستان‘ کا طعنہ سنتے آرہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو ملک اسلام کے نام پر ہندوستان کو تقسیم کر کے بنا اس میں وہاں رہ جانے والے مسلمانوں کے حوالے سے اتنی بے خبری اور اس بے رحمانہ لاتعلقی کا رویہ کیوں پایا جاتا ہے؟ ہندوستانی مسلمانوں کے حوالے سے ہمارا ضمیر کب جاگے گا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔