جنڈیالہ شیرخان

ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بخاری  اتوار 22 نومبر 2020
وارث شہر کا شہر، جو اب قصبہ بنچکا ہے۔ فوٹو: فائل

وارث شہر کا شہر، جو اب قصبہ بنچکا ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں بہت سے ایسے شہر ہیں جو بہت پہلے سے موجود تھے لیکن اپنے سے بعد میں بسائے گئے شہروں کی شہرت کے آگے نہ ٹھہر سکے اور ایک قصبہ یا عام گاؤں بن کر رہ گئے۔ انہیں میں سے ایک ہے پنجابی شیکسپیئر وارث شاہ کا جنڈیالہ شیر خان جس کا تاریخی پسِ منظر بہت کم لوگوں کو معلوم ہے۔

جنڈیالہ شیر خان، شیخوپورہ سے بہت پہلے بسایا گیا تھا لیکن آج یہ ضلع شیخوپورہ کا ایک قصبہ ہے جو شہر سے شمال کی جانب 14 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ اس شہر کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو کوئی خاص مستند تاریخی دستاویزات نہیں ملتیں سوائے تزک جہانگیری اور شاہجہاں نامے میں موجود چند سطروں کے جو اس کا نام اور مقام بتانے تک محدود ہیں۔

دست یاب ذرائع سے پتا چلتا ہے کہ جنڈیالہ شیر خان مغلیہ دور میں ایک بہت اہم شہر تھا جو اکبر بادشاہ نے اپنے ایک معتمدِ خاص ” شیر خان ” کو جاگیر کے طور پر عنایت کر رکھا تھا۔ کہتے ہیں کہ اس علاقے میں جنڈ کے درختوں کی بہتات تھی جس کی وجہ سے اسے جنڈیالہ شیرخان کا نام دے دیا گیا۔ 1893 میں اس قصبے کو حافظ آباد سے الگ کر کے خانقاہ ڈوگراں کے ساتھ ملا دیا گیا بعد میں یہ شیخوپورہ کا حصہ بنا۔

اس مشہور قصبے میں دو اہم اور تاریخی جگہیں واقع ہیں آئیں ان پر نظر ڈالتے ہیں۔

باؤلی جنڈیالہ شیر خان؛

باؤلی ایک ایسے گہرے کنویں کو کہتے ہیں جس میں پانی کی سطح تک سیڑھیاں بنائی گئی ہوں (یعنی پانی تک رسائی سیڑھیوں کے ذریعے ہو) اور اس کے ارد گرد راہ داریاں اور کمرے بنے ہوتے ہیں جو شدید گرمی میں بھی ٹھنڈے رہتے ہیں۔ گزرے وقتوں میںاُمراء یہاں آرام کرتے تھے اور یوں تپتی دوپہریں ٹھنڈے پانی کے پہلو میں بیٹھ کر گزار دیتے تھے۔ عمومی طور پر تاریخی عمارتوں کے احاطے میں سیڑھیوں والے کنویں (باؤلیاں) ضروری ہوتے تھے۔

شروع شروع میں تو یہ تعمیری کاموں میں استعمال ہوتی تھیں لیکن بعد میں تفریح اور آرام گاہ کے طور پر مستقل موجود رہتی تھیں۔ عموماً باؤلی کا استعمال راجپوت دور میں شروع ہوا۔ برصغیر میں شیر شاہ سوری نے بھی کافی باؤلیاں بنوائیں جن میں ہاتھی اور گھوڑے بھی اتر سکتے تھے۔بعض باؤلیوں میں خفیہ راستے بھی بنائے جاتے تھے تاکہ ہنگامی حالات میں استعمال ہو سکیں۔ جہاں بھی راجپوت اور شیر شاہ سوری کے دور کے قلعے موجود ہیں وہاں یہ باؤلیاں ضرور ملتی ہیں۔

یہاں ہم بات کر رہے ہیں اس خوب صورت باؤلی کی جو جنڈیالہ میں واقع ہے۔ چوںکہ یہ قصبہ ایک ایسی جگہ واقع تھا جہاں آس پاس آب پاشی کے لیے کنوؤں کے سوا پانی کا کوئی خاص ذریعہ نہیں تھا لہٰذا شہنشاہ اکبر کے دور میں اس وقت کے شرفاء و رؤساء میں سے ایک، شیر خان نے ایک بزرگ سید غزنوی کے حکم پر ایک باؤلی تعمیر کروائی جو یہاں کے لوگوں کی پانی کی ضروریات کو پورا کرتی تھی۔ یہیں باؤلی کی سیڑھیوں پر ہی شیر خان نے ایک سرائے بھی تعمیر کروائی جس میں لاہور سے کشمیر جانے والے مسافروں کو مقامی تاجر اپنا سامانِ تجارت بیچا کرتے تھے۔

اسی باؤلی کے ایک کونے پر مسافروںکے لیے مسجد تعمیر کروائی گئی جو آج بھی قائم ہے۔

باؤلی کی بات کریں تو یہ مغلیہ طرز تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہے جس کی چوکور عمارت کے مرکز میں ایک بڑے گنبد والا کمرہ ہے جو آٹھ چھوٹے چھوٹے کمروں سے گھرا ہوا ہے جنہیں ”ہشت بہشت” یعنی آٹھ جنتوں سے تعبیر کیا گیا ہے۔اس باؤلی کا راستہ شمال میں موجود وہ سیڑھیاں ہیں جس کی محراب پر پتھر کا کتبہ لگایا گیا تھا۔ باؤلی کی چھت پر پانچ خوب صورت اٹھ کھمبے، کینوپی یا ہشت پہلو (جس کے آٹھ پہلو یا دروازے ہوں) واقع ہیں جو گنبد اور محرابوں سے مُزین ہیں۔ ان میں مرکزی احاطہ قدرے بڑا جب کہ چار کونوں پر واقع کینوپی چھوٹے اور ایک سائز کے ہیں۔

یہ پنجاب میں موجود چند خوب صورت باؤلیوں میں سے ایک ہے۔ دیگر باؤلیاں قلعہ روہتاس، واں بھچراں، دینہ، اٹک اور واہ میں واقع ہیں جن کی حالت دگرگوں ہے۔ 2010 تک اس باؤلی کی حالت بھی انتہائی شکستہ تھی لیکن محکمہ آثار قدیمہ کی محنت نے اسے دیکھنے کے قابل بنا دیا ہے۔ اگرچہ یہ اپنے اصل ڈیزائن جیسی عمدہ اور نفیس نہیں ہے لیکن شیر خان کا ذوق اور مغلیہ طرزتعمیرکا شان دار نمونہ ہے۔

یہ باؤلی وارث شاہ کے مزار کے عقب میں واقع ہے جس کی اندرونی محراب پر لگے پتھر کے ایک کتبے پر فارسی کے سات اشعار اُبھرے ہوئے تھے جو یہ ہیں؛

بعہد شہنشاہ اکبر لقب۔۔۔ ہمایوں نسب خسرو کامیاب

بفرمودہ سید غزنوی۔۔۔ رفع المکان خان عالیجناب

محیط سخا و کرم شیر خان۔۔۔ لہ ابرار کف ہمتش بردہ آب

بنا کرد وائے زمین کرم۔۔۔۔لہ شد رشک بر چشمہ آفتاب

زد لوش بودد لوگر دوں خجل۔۔۔زچرخش بود چرخ در پیچ و تاب

مہ نخشب از شرم ناید بروں۔۔۔اگر یکشب ایں وای بیند بخواب

از تاریخ آن گربہ پرسد خرد۔۔۔بہ از چاہ نخشب بگو در جواب

ترجمہ فارسی اشعار؛

شہنشاہِ اکبر کے عہد میں جو مبارک نصب والا کام یاب بادشاہ تھا

سید غزنوی کی فرمائش پر بلند مرتبہ خان عالی جناب

کرم اور سخاوت کے سمندر شیر خان نے، جس کی سخاوت کے ہاتھ سے بادلوں نے آب و تاب حاصل کی

اپنی سخاوت کے سر چشمے سے ایک باؤلی تیار کروائی، جو چشمہ آفتاب کے لیے باعثِ رشک ثابت ہوئی

اس باؤلی کے ڈول کو دیکھ کر آسمان کا ڈول (سورج) بھی شرم سار ہے

اور اس کی چرخی کو دیکھ کر آسمان پیچ و تاب میں ہے

اگر کبھی رات کو مہِ نخشب اس باؤلی پر نگاہ ڈال لے تومارے شرم کے باہر نہیں نکلے گا

اگر عقل اس کی تاریخ دریافت کرے تو جواب میں کہہ دو یہ چاہِ نخشب سے بھی بہتر ہے

1975 میں شیخوپورہ کے ڈپٹی کمشنر نے سابق گورنر پنجاب، جنرل غلام جیلانی خان کے حکم پر اس پرانے کتبے کو باؤلی سے اتار کر لاہور کے عجائب گھر بھیج دیا جو آج بھی اسلامی گیلری لاہور میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس باؤلی کی تاریخی حیثیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے باشعور اہلِ علاقہ نے ایک ویسا ہی کتبہ بنوا کر یہاں نصب کروا دیا جس کے ساتھ فارسی اشعار کا اردو ترجمہ بھی لکھا گیا تاکہ عوام الناس اس باؤلی کی تاریخی حیثیت سے روشناس ہو سکیں۔

مزار پیر وارث شاہ؛

اک رات دا جاگنا بہت اوکھا

اک جاگدا دکھی بیمار راتیں

یا راتیں چور تے ٹھگ جاگدا

یا جاگدا پہرے دار راتیں

یا جاگدا عشق دی رمز والا

یا جاگدا یار دا یار راتیں

وارث میاں سب سو جاندے

بس جاگدا پروردگار راتیں

پیر وارث شاہ پنجاب کی دھرتی کے ایک نام ور صوفی بزرگ اور شاعر ہیں جو ربیع الثانی 1130ھ بمطابق 1722 (آپ کی تاریخِ پیدائش میں مورخین کا اختلاف پایا جاتا ہے لیکن 1722 پر بیشتر مورخین متفق ہیں) کو جنڈیالہ شیر خان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام سید گل شیر شاہ تھا۔ ابتدائی تعلیم اپنے قصبے کی جامع مسجد میں (جس کے نشانات آج بھی کمپلیکس کے شمال مغرب کی جانب موجود ہیں) حاصل کرنے کے بعد آپقصور کی جانب روانہ ہوئے اور مسجد کوٹ کے مدرسے کا رخ کیا۔ وہاں آپ نیحضرت مولانا حافظ غلام مرتضٰی سے حدیث، تفسیر، فقہ، منطق، نحو اور فلسفہ کی تعلیم حاصل کی۔

وارث شاہ وسنیک جنڈیالڑے دا

تے شاگرد مخدوم قصور دا اے

اس کے علاوہ آپ نے مختلف مذاہب کے عالموں سے تورات، زبور اور انجیل بھی پڑھی۔ آپ نے بابا بُلھے شاہ کے ہمراہ قصور میں تعلیم حاصل کی۔

دنیاوی علم حاصل کر چکے تو مولوی صاحب نے اجازت دی کہ جاؤ اب باطنی علم حاصل کرو اور جہاں چاہو بیعت کرو۔ تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ بابا بلھے شاہؒ نے تو شاہ عنایت قادری کی بیعت کی جب کہ سید وارث شاہ نے خواجہ فریدالدین گنج شکرؒ کے خاندان میں بیعت کی اور پاکپتن چلے آئے۔

وارث شاہ اک دن اساں وی ٹُر جانا

کُنڈے مار کے ایہناں حویلیاں دے

یہیں پاکپتن کے قریب واقع قصبہ ملکہ ہانس کی ایک مسجد میں آپ نے امام مسجد کے فرائض سنبھالے اور مسجد سے متصل حجرے میں ہی آپ نے مشہور زمانہ کتابہیر لکھ ڈالی۔ تین سبز میناروں والی یہ قدیم مسجد آج بھی اپنے حجرے کے ساتھ قائم ہے۔ ’حجرہ وارث شاہ دا‘ ملکہ ہانس میں مشہور جگہ ہے جہاں 1767ء میں انہوں نے’ ہیر رانجھا‘ مکمل کی۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آپ نے ہیر رانجھا کے قصہ کو آخری شکل اپنے آبائی گاؤں جنڈیالہ شیر خان میں دی، جسے مختلف کاغذوں پر الٹی سیدھی لکیروں میں ڈھالا جس کا نمونہ اب بھی موجود ہے۔

جب ’’ہیر رانجھا‘‘ کے قصہ کے متعلق آپ کے استاد محترم حضرت غلام مرتضٰی کو علم ہوا تو انہوں نے اس واقعے پر ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا، ’’وارث شاہ، بابا بلھے شاہ نے علم حاصل کرنے کے بعد سارنگی بجائی اور تم نے ہیر لکھ ڈالی۔‘‘

آپ نے کوئی جواب نہ دیا تو مولانا نے اپنے مریدوں کو کہہ کر آپ کو ایک حجرے میں بند کروا دیا۔ دوسرے دن آپ کو باہر نکلوایا اور کتاب پڑھنے کا حکم دیا جب آپ نے پڑھنا شروع کیا تو مولانا صاحب کی حالت دیکھنے کے قابل تھی۔ سننے کے بعد فرمایا،

“وارثا! تم نے تو تمام جواہرات مونج کی رسی میں پرو دیے ہیں۔”

یہ پہلا فقرہ ہے جو اس کتاب کی قدر و منزلت کو ظاہر کرتا ہے۔ سید وارث شاہ درحقیقت ایک درویش صوفی شاعر ہیں۔ ایک جگہ پر اللہ تعالیٰ کی حمد اس طرح بیان کرتے ہیں:

اوّل حمد خدا دا ورد کیجیے

عشق کیتی سو جگ دا مول میاں

پہلاں آپ ای رب نے عشق کیتا

معشوق ہے نبی رسول میاں

وارث شاہ کا دور چوںکہ پنجاب پر محمد شاہ رنگیلا اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں کا ہے اس حوالے سے وارث شاہ نے اس سارے منظر کو بھی شاعری کی شکل میں بیان کیا۔ پنجابی زبان کو آپ نے ہی عروج بخشا ہے۔ پنجابی کی تدوین و ترویج میں وارث شاہ نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ آپ کا کلام پاکستان اور ہندوستان بالخصوص سکھوں میں بہت مقبول ہے۔ وارث شاہ کی ’’ہیر‘‘کے علاوہ دوسری تصانیف میں معراج نامہ، نصیحت نامہ، چوہریڑی نامہ اور دوہڑے شامل ہیں۔

وارث شاہ کے حجرے والی مسجد کا انتظام اب ’انجمن وارث شاہ‘ کے نام کی تنظیم چلاتی ہے۔ ملکہ ہانس میں حجرہ وارث شاہ میں ہر سال ’جشن وارث شاہ‘ کے نام سے ایک میلہ منعقد کیا جاتا ہے جس میں ہیر وارث شاہ پڑھنے کا مقابلہ ہوتا ہے۔

’’ہیر‘‘ میں بہت سی پنجابی کہاوتوں کا بھی استعمال کیا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہیں۔افضل حق نے اپنی کتاب معشوقہ پنجاب میں لکھا ہے کہ آپ نے 10 محرم 1220ھ کو وفات پائی۔

کھرل ہانس دا ملک مشہور ملکا

تتھے شعر کیتا یاراں واسطے میں

پرکھ شعر دی آپ کر لین شاعر

گھوڑا پھیریا وچ نخاس دے میں

پڑھن گھبرو دیس وچ خوشی ہو کے

پھل بیچیا واسطے باس دے میں

وارث شاہ نہ عمل دی راس میتھے

کراں مان نمانڑا کاستے میں

من بھاوندا کھاویے جگ آکھے گلاں جگ بھاوندیاں رسدیاں نے

وارث جنہاں نوں عادتاں بریاں نے سب خلقتاں انہاں بھجدیاں نے

حوالہ جات ؛

Asher, Catherine B. The Architecture of Mughal India.

Cambridge: Cambridge University Press, 1992.

Khan, Ahmad Nabi. Islamic Architecture of Pakistan: An Analytical Exposition.

Islamabad: National Hijra Council, 1990.

Khan, Ahmed Nabi and Robert Wheeler. Islamic Architecture in South Asia.

Oxford Oxfordshire: Oxford University Press, 2003.

Koch, Ebba. Mughal Architecture.

New Delhi: Oxford University Press, 2002

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔