بہار سے بلوچستان

شہلا اعجاز  اتوار 22 نومبر 2020

لڑائی دو مذاہب کے درمیان نہیں ہوتی، دو سیاسی طاقتوں کے درمیان ہوتی ہیں، یہ فلسفہ اس وقت بھارت میں بخوبی جاری ہے، جہاں کے سیاسی اتار چڑھاؤ روز بدلتی صورتحال کے ساتھ عوام کے لیے تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔ بھارتی عوام کس جانب دیکھیں، کس کو اپنا ہمدرد اور حقیقی رہنما تصورکریں۔

بھارتی صوبوں کے ساتھ مختلف رہنما بدلتے کرداروں اور رخ سے نئی تصویریں بنا اور بگاڑ رہے ہیں، اس نوک جھونک میں بھارتی نیوز چینلزکا بھی خاصا کردار نظر آ رہا ہے، جسے مختلف سیاسی رہنماؤں کی آشیر باد حاصل ہے۔ اس سیاسی داؤ پیچ میں حالات کا رخ تیزوتند اس وقت ہوا جب ممبئی، باندرہ کے پوش علاقے میں بہار سے تعلق رکھنے والے نوجوان فلمی ہیرو سوشانت سنگھ راجپوت نے کورونا وبا کے لاک ڈاؤن کے درمیان بہ ظاہر خودکشی کی۔ 14 جون 2020 کو سوشانت سنگھ کی خودکشی کی خبر عام انداز سے سنی گئی لیکن جون سے لے کر آج تک کی تاریخ میں اسے کئی انداز سے کھنگالا جا رہا ہے۔

سیاسی پنڈتوں نے بہار سے تعلق رکھنے والے مظلوم سوشانت سنگھ کو انصاف دلانے کے لیے معصوم عوام کا سہارا لیا، یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت میں ڈرگ اور غنڈہ مافیا کس قدر مضبوط ہے اس خودکشی یا قتل سے تو یہی عیاں ہوتا ہے کہ لوگوں نے سوشانت کے حوالے سے بہارکو بھی دیکھنا شروع کردیا ہے۔ بھارت کے دوسرے صوبوں کے مقابلے میں اس کمزورکم حیثیت والے صوبے سے شور اٹھنا شروع ہوگیا، حیرت کی بات یہ ہے کہ بھارت نے جس چالاکی اور بھرپور انداز میں عقل ودانش کے ساتھ بے پناہ زر سے پاکستان کے خلاف خاص کر بلوچستان میں کارروائیاں کیں کیا اسے ایک بار بھی اس کمزور اور غریب صوبہ بہارکا خیال نہ آیا جوکبھی صنعت وحرفت کا شاہکار ہوتا تھا۔

برطانوی دور میں بہارو بنگال کی صنعتوں کو جس طرح تباہ کیا گیا تھا، تقسیم ہند کے بعد بھی اس بربادی کی طرف توجہ نہ دی گئی، ماسوائے شری کرشنا سنہا سنگھ جنھوں نے بہارکو ماڈرن انداز میں سنوارنے کی کوشش کی۔ 1946 سے 1961 تک چیف منسٹر کے عہدے پر رہے گو وہ خود بھی ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتے تھے لیکن ان کی اپنے صوبے سے محبت نے صنعتوں کو نئی روح دینے کی کوشش کی۔

بھارت میں صوبہ بہارکی کیا اہمیت ہے؟ یہ ایک بڑا دلچسپ سوال ہے، اگر ہم اسے اپنے بلوچستان کے تناظر میں دیکھیں تو حیرت انگیز انکشافات سامنے آئیں گے اور یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ صوبہ بلوچستان میں ایک بڑے عرصے سے بھارت نے دہشت گردی اور نفرت کی آگ سلگا کر اس طرح کے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جو اس نے برسوں پہلے سابقہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بناکر حاصل کیے تھے لیکن ضروری نہیں کہ ماضی میں جو کچھ ہو چکا ہے وہ دوبارہ ہو۔

پاکستانی افواج نے اس وقت حالات کو بگڑنے سے بچایا اور یوں بہت سے ناراض دوست لوٹ آئے اور یہ بھی سچ ہے کہ بلوچ پاکستان کے محافظ ہیں اور ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں جب کہ بھارت میں دہلی ہو یا ممبئی، لکھنو ہو یا الٰہ آباد بہار سے تعلق رکھنے والوں کو عجیب سی نظروں سے دیکھا جاتا ہے یہاں تک کہ سوشانت سنگھ جیسے فلمی ستارے کو چیونٹی کی مانند مسل دیا گیا کیونکہ اس کا بیک گراؤنڈ کمزور صوبے سے جڑا تھا اور یہیں سے سیاسی پنڈتوں نے نئی چال چلی۔

کیونکہ بہارکے انتخابات ان کے لیے سیاسی کرسیوں کے حوالے سے ہی اہم تھے جس کے بعد انھیں روایتی سیاسی نمایندوں کی طرح ہاتھ جھاڑ کر الگ ہو جانا ہے، جیساکہ گزشتہ ستر برسوں میں ہوتا آیا ہے۔ جہاں سوائے چند ایک وزرا کے ڈیڑھ دو برسوں سے زائد کا وقت نہیں گزارا، یہاں تک کہ 1990-95 کے دوران لالو پرشاد یادیو جوکرپشن اور اپنے عجیب و غریب بیانات کے باعث سیاسی مسخرے کے طور پر ہی یاد رکھے جاتے ہیں۔

بی جے پی حالیہ سیاست میں آیندہ وقت کے لیے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے ہر چال چل رہی ہے، گو ایک عام خیال یہی تھا کہ مودی سرکار کشمیرکے معاملے کو یوں ہی رہنے دے گی لیکن ایسا نہ کیا گیا اور سوچی سمجھی اسکیم کے تحت کشمیر پر قبضہ جمایا گیا، اپنی منافقانہ چالوں کو عملی جامہ پہنانے سے روکنے کے لیے ان کے سامنے کانگریس بڑی طاقت ثابت ہو رہی ہے یہاں تک کہ اسلام دشمن بال ٹھاکرے کے سپوت اودھو ٹھاکرے شیو سنہا کے کرتا دھرتا جو مہارشٹرا کے وزیر اعلیٰ بھی ہیں، مودی سرکار کو نہیں بھا رہے جس کی وجہ وہ غاصبانہ قبضے کی تحریک ہے جسے وہ سیاسی ہتھکنڈوں سے بالاتر ہوکر اپنی مضبوط بادشاہی کے لیے نہ صرف سوچ رہے ہیں بلکہ عمل بھی کر رہے ہیں۔

پاکستان میں جہاں بلوچستان کا صوبہ رقبے کے حوالے سے سب سے بڑا ہے، وہیں آبادی کے اعتبار سے سب سے چھوٹا ہے جب کہ بہار آبادی کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہے۔ یہاں غربت اور شرح خواندگی بہت کم ہے۔ اس بات کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ کانگو اور ملاوی جو دنیا میں غربت کے اعتبار سے نچلے درجوں پر ہے۔ کانگو میں 80 فیصد لوگ انتہائی کسمپرسی میں زندگی گزار رہے ہیں جب کہ ملاوی میں بھی کچھ اسی طرح کی صورتحال ہے بہار،کانگو اور ملاوی غربت، شرح خواندگی اورکرائمز کے حوالے سے ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔ بہار میں آج بھی ستر سال پہلے کے دور میں لوگ زندگی بسرکررہے ہیں جن کی بہتری کے لیے بھی حکومت کو کوئی فکر نہیں۔ سیاسی لیڈر اپنی سیاست چمکانے اور فنڈز بٹورنے کا دھندہ کرتے چلے آئے ہیں اور نجانے کب تک کرتے چلے جائیں گے۔ احتساب کس چڑیا کا نام ہے وہاں دستیاب نہیں ہے۔

ایک ایسا ملک جہاں صوبے اس قدر وسیع کہ دنیا کے نقشے پر بہت سے ترقی یافتہ ممالک بھی اس سے چھوٹے ہیں بہار بھی ایک ایسا ہی صوبہ ہے جہاں ان کے اپنے ملک میں انھیں وہ عزت نصیب نہیں جس کے وہ حق دار ہیں۔ آج بھی موجودہ بھارتی سرکار اپنے روایتی حریف پاکستان کو ہر طرح سے زک پہنچانے کی کوششوں میں جتی ہوئی ہے کیونکہ ان بھارتی رہنماؤں کا مقصد مزید پانچ سال تک قیام کرنا اور اس ٹارگٹ کو حاصل کرنے کے لیے کام کرنا ہے جو وہ پہلے نہ کر پائے تھے، پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کے لیے جس انداز سے بھارتی میڈیا کی پیٹھ سہلائی جا رہی ہے وہ اس کا بھرپور استعمال کررہے ہیں۔

گو مہاراشٹرا میں شیو سینہا کس طرح غیر قانونی طاقتوں کو استعمال کرکے اپنے بینک بیلنس اور ووٹ بینک میں اضافہ کر رہی ہے لیکن بی جے پی کو ہر وہ طاقت جو ان کو کسی بھی طرح مقابلے پر اکسائے زیرکرنے پر جتی ہوئی ہے جب کہ ان کا سدھایا ہوا میڈیا بھارتی عوام میں پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی پر اترا ہوا ہے۔ اپنی جانب سے پاکستانی لیڈران اور اداروں کے سربراہان کی تقریروں کے ایڈٹ شدہ کلپ چلا کر وہ ثابت کرنے پر تلے ہیں کہ آپ پریشان نہ ہوں پاکستان کے اس سے بھی برے حالات ہیں، کیا کسی بھی ملک کی ترقی اورکامیابی کی ضمانت اس کے حریف کی بربادی اور ناکامی پر ہے؟

صوبہ بلوچستان کے خلاف زہریلی کارروائیاں کرکے اگر بھارتی سرکار تھک گئی ہو تو ذرا اپنے وسیع و عریض صوبوں پر بھی توجہ دے۔ بہار، جھاڑکھنڈ اورکشمیر کے علاوہ بھی بہت سے مقامات ظلم و جبر اور ناانصافی برداشت کرکے جھلس رہے ہیں اب جو خزاں کی رُت چلی توکہیں بہت سے زرد پتوں کی مانند بکھر نہ جائے اور انھیں سمیٹنے کا بھی موقعہ نہ مل سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔