افغانستان‘نئی سوچ‘نئے تقاضے

بابر ایاز  پير 30 دسمبر 2013
ayazbabar@gmail.com

[email protected]

2014 کے بعد کے افغانستان کے بارے میں خدشات کے اس سرد موسم میں ایک اچھی خبر یہ ہے کہ ساؤتھ ایشیاء فری میڈیا ایسوسی ایشن(SAFMA) کے زیر اہتمام دو روزہ کانفرنس میں پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے افغان پارلیمان کے ارکان، دانشور اور صحافی اس بارے میں پر امید تھے کہ ISAF کی فوج میں کمی کے بعد ان کا ملک خانہ جنگی کا شکار نہیں ہو گا۔

میں نے اس کانفرنس کے دوران جن افغان مندوبین سے بات چیت کی ان کا خیال تھا کہ اب افغانستان بدل چکا ہے ،ان کا کہنا تھاکہ ’’ اب یہ وہ افغانستان نہیں ہے جس نے1989 میں روسی فوجوں کے انخلاء کے بعد خود کو تباہ کر دیا تھا اور اب اس علاقے کے معروضی حالات بھی بدل چکے ہیں۔‘‘ اس لیے افغان طالبان کابل حکومت پر اس طرح سے قبضہ کرنے کے قابل نہیں ہوں گے جس طرح سے انھوں نے 90 کی دہائی کے وسط میں کیا تھا۔90 کی دہائی کے زمینی حقائق کے مقابلے میں افغانستان میں کیا تبدیل ہوا ہے؟

اول، اس خوش امیدی کا بہت زیادہ انحصار نیٹو ممالک کے ان وعدوں پر ہے کہ فوجوں کا بڑا حصہ واپس چلے جانے کے بعد ، دنیا افغانستان سے منہ نہیں موڑے گی اور انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ نوزائیدہ جمہوری ڈھانچے کو مستحکم کرنے میں افغانستان کی مدد کرنے کے لیے 8000 سے12000 کے درمیان فوج پیچھے چھوڑ جائیں گے۔

دوئم،260,000 افراد پر مشتمل مضبوط افغان فوج( نیشنل ڈیفنس اینڈ سیکیورٹی فورسز)رفتہ رفتہ نیٹو فورسز سے اگلے مورچوں کی ذمے داریاں سنبھال رہی ہے ،چنانچہ وہ طالبان کی کسی شورش یا قبائلی جنگی سرداروں کے حملوں کے خلاف دفاع کے قابل ہوں گی۔جنوب مشرقی صوبے پکتیا سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمان غنی کا کہنا ہے کہ’’ افغانستان کے 32 صوبوں میں سے زیادہ تر پر امن ہیں اور آپ وہاں اپنے آپ کو کراچی سے زیادہ محفوظ محسوس کریں گے ۔‘‘ ان کے ایک عزیز کراچی میں رہتے ہیں اس لیے وہ اس شہر کی امن و امان کی مخدوش صورت حال سے واقف ہیں۔

سوئم،سیکیورٹی اینڈ ڈیفنس کوآپریشن ایگریمنٹ (SDCA) میں افغان فوج کی ترقی اور دیکھ بھال کے لیے سالانہ 8 بلین امریکی ڈالر کی جس غیر ملکی امداد کا وعدہ کیا گیا ہے ،افغان اس پر بہت زیادہ انحصار کیے بیٹھے ہیں۔اگرچہ افغان لویہ جرگہ نے اس سمجھوتے کی منظوری دے دی ہے لیکن صدر کرزئی بھونڈے طریقے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش میں کہ وہ امریکی پٹھو نہیں ہیں،اس پر دستخط کرنے میںلیت و لعل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔مگر اس کانفرنس میں شامل زیادہ تر افغان مندوبین نے SDCA کی حمایت کی کیونکہ یہ افغانستان میں امن اور خوشحالی کا ضامن ہو گا۔

چہارم،افغان مندوبین کا خیال تھا کہ SDCA افغانستان میں امن کے لیے ناگزیر ہے ،کیونکہ یہ اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ باہر سے افغانستان میں دہشت گردوں(طالبان)کی شورش کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

پنجم،افغان معاشرہ تبدیل ہو چکا ہے اور1990 کے بعد کی نسل طالبان کے قرون وسطیٰ کے افغانستان میں نہیں بلکہ ایک جدید افغانستان میں رہنا چاہتی ہے۔ان مندوبین کا کہنا تھا کہ افغان خواتین معاشی اور سیاسی دھارے میں شامل ہو چکی ہیں اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ترقی کر رہا ہے۔ششم، ڈاکٹر وزیر صفی کے مطابق پچھلے چند سالوں کے دوران افغان معیشت میں 7% سے زیادہ افزائش ہوئی ہے اور غیر تلاش شدہ وسیع قدرتی وسائل میںسرمایہ کاری شروع ہو چکی ہے ،چین اور بھارت کان کنی کے منصوبوں میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔افغان انٹرنیشنل چیمبر آف کامرس کے چیئرمین Azarakhsh Hafizi کا خیال تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان 5 بلین ڈالر کی موجودہ قانونی اور غیر رسمی تجارت کئی گنا بڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہے اس بارے میں ان کا خیال کہ کس طرح دونوں ملکوں کو اپنے اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے،فرسودہ سوچ رکھنے والے اسٹرٹیجک گہرائی کے حامیوں کے لیے یہ پیغام ہے کہ اقتصادی سفارت کاری کی لطیف طاقت آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔

امور خارجہ کے مشیر سرتاج عزیز نے بجا طور پر واضح کیا کہ’’ خوشحالی کی مشترکہ منزل‘‘ کی طرف آگے بڑھنے کے لیے امن کا قیام اہم ہے۔لیکن اب ان چیلنجز کی طرف دیکھتے ہیں جو خوش امیدی کو کسی حد تک ماند کر سکتے ہیں۔اول،زیادہ تر خوش امیدی کی بنیاد مغربی دنیا کے وعدوں پر ہے۔ان کے وعدوں کا ماضی کا ریکارڈ حوصلہ افزا نہیں ہے ۔مالی امداد پہلے ہی تذبذب کا شکار ہے اور بُری طرح سے غیر ملکی امداد پر انحصارکرنے والی معیشت میں ،ختم ہونے والے سال میں افزائش کی شرح، کم ہو کر3% کے قریب رہ گئی۔اطلاعات یہ ہیں کہ خدشات میں مبتلا تعلیم یافتہ اور کاروباری طبقات پہلے ہی اپنا سامان باندھے بیٹھے ہیں اور سرمائے کی منتقلی کی رفتار میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔

دوئم،اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ ایساف فوجوں کے چلے جانے کے بعداگر طالبان کی شورش میں شدت پیدا ہوتی ہے توافغان فوج ڈٹی رہے گی۔فوج چھوڑ کر بھاگنے کے بعض واقعات بھی ہو چکے ہیں۔سوئم،اس وقت افغان حکومت اور طالبان کے درمیان کامیاب مذاکرات کے امکانات روشن نہیں ہیں۔ دونوں فریق جانتے ہیں کہ بالآخر انھیں کسی تصفیے پر پہنچنا ہو گامگر اس بات کا قوی امکان ہے کہ افغان طالبان اس سے پہلے اپنی کارروائیوں میں شدت پیدا کرنا چاہیں گے تاکہ مذاکرات کی میز پر بہتر سودے بازی کر سکیں۔

چہارم، افغانستان میں پر امن تبدیلی کا بہت زیادہ انحصار اس حقیقت پر ہے کہ کابل میں اپنی پسند کے لوگوں کو لانے کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی proxy war نہ ہو۔ اب شاید یہ سب سے بڑا چیلنج ہے۔یہ اور بھی پیچیدہ ہو رہا ہے جیسا کہ ایک افغان مقرر نے اشارہ کیا کہ جب تک چین مغرب سے بھارت کے گرد گھیرا ڈالنے کے لیے پاکستان کو اپنے اڈے کے طور پر استعمال کرتا رہے گا ، بھارت پاکستان کو گھیرنے کے لیے افغانستان پر اپنی گرفت مضبوط کرتا رہے گا۔

یہ صورت حال سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں اس روایتی سوچ کو پروان چڑھاتی ہے کہ اس ملک کی اسٹرٹیجک گہرائی کے لیے افغانستان اہم ہے۔اس کانفرنس میں پاکستان کے دفاعی تجزیہ کاروں نے قائل کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان ’اسٹرٹیجک گہرائی‘ کی پالیسی سے پیچھے ہٹ گیا ہے اور افغانستان کے داخلی معاملات میں عدم مداخلت پر یقین رکھتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام تجزیہ کاروں کا تعلق مسلح افواج سے رہ چکا ہے۔ائیر وائس مارشل شہزاد چوہدری نے یہ بھی کہا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان پرکسی ایک ملک کی بالادستی نہ ہو ۔(یہاں لفظ بالادستی غور طلب ہے)اور یہ کہ افغان سیکیورٹی فورسز کو تمام پڑوسی ملکوں کے ساتھ یکساں تعلقات رکھنے چاہییں۔اس پر ایک افغان رکن پارلیمان نے تبصرہ کیا ’’ کسی کو ہمیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہماری سر زمین پر کس کو ہمارا مہمان ہونا چاہیے۔‘‘

اس سے پہلے کے ایک سیشن میں اسد عمر نے جنھیں پاکستان تحریک انصاف کی کمزور طالبان نواز پالیسی کا دفاع کرنا ہوتا ہے ،کہا کہ ’’ ہمارا منشور واضح ہے کہ ہم کسی کو اپنی خود مختاری کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دینگے اور نہ کسی کو یہ اجازت دینگے کہ وہ ہماری سر زمین سے کسی دوسرے ملک کی خود مختاری کی خلاف ورزی کرے ۔‘‘معقول بات لگتی ہے!مگر پاکستان کے معاملے میںیہ موقف سر کے بل کھڑا ہوا ہے۔جب ہم ہر قسم کے جہادیوں کو ،جنھوں نے پوری دنیا میں اسلامی نظریہ پھیلانے کا مقدس کام اپنے ذمے لے رکھا ہے روک دینگے اور اپنے پڑوسیوں کی خود مختاری کا احترام کرینگے تو پھر ہم ڈرونز اور پاکستان کے خلاف دوسری خفیہ مداخلت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے لیے کہیں زیادہ مضبوط پوزیشن میں ہوں گے۔

چونکہ پاکستان کے قبائلی علاقے ہر قسم کے دہشت گردوں کے لیے پناہ گاہ بن چکے ہیں ،اس لیے زیادہ تر شرکاء کا خیال تھا کہ جب تک اس پسماندہ اور قانون سے عاری علاقے کو باقی ملک کے سیاسی نظام کے ساتھ مربوط نہیں کیا جاتا،حکومت کی رٹ قائم نہیں کی جا سکتی۔مگر اس کے بعد ہونے والی بحث میں ماحول گرم ہو گیا۔افغان مندوبین نے اپنا یہ تاریخی موقف بیان کیا کہ ڈیورنڈ لائن جو1893 میں برطانیہ کی طرف سے دباؤ میں کھینچی گئی تھی ،انھیں قبول نہیں ہے۔چنانچہ اس2640 کلومیٹر طویل ’لائن‘ سے جس کو افغان ’بارڈر‘کہنے سے الرجک ہیں،ہم باغیوں کو افغانستان آنے جانے سے کیسے روک سکتے ہیں؟اس بات پر اتفاق رائے تھا کہ دونوں اطراف رہنے والے قبائل کی نقل و حمل میں خلل ڈالے بغیر ایک زیادہ موثر ’ڈیورنڈ لائن مینجمنٹ‘ ہونی چاہیے۔جب میں نے افغانستان کے سابق وزیر اطلاعات حامد مباریز سے،جو ڈیورنڈ لائن کے معاملے پر بہت زیادہ جذباتی تھے ،یہ پوچھا کہ پھر نئی سرحد کہاں کھینچی جانی چاہیے تو ان کا جواب یہ تھا کہ یورپی یونین کی طرح سرحد کو غیر ضروری بنا دینا چاہیے۔میرا خیال یہ ہے کہ ان کی سب سے بڑی تشویش قبائلی علاقوں کو سنبھالنا نہیں تھا،جو القاعدہ کے نظریے سے مغلوب لا تعداد عسکریت پسند گروپوں سے آلودہ ہیں،بلکہ سمندر تک رسائی تھی۔عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما افراسیاب خٹک نے صحیح کہا کہ ڈیورنڈ لائن کا معاملہ ایک صدی سے زیادہ عرصے سے موجود ہے اور ہم آگے بڑھتے رہے ہیں اس لیے اب ہمیں اس متنازع معاملے کو مزید100 سال تک اسی طرح چھوڑ کر اس علاقے میں امن لانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

(کالم نگارWhat’s wrong with Pakistan? کا مصنف ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔