فواد کے 10سال کون لوٹائے گا؟

سلیم خالق  جمعرات 28 جنوری 2021
فواد جیسے کھلاڑیوں کو مواقع دیے جاتے توآج مڈل آرڈر بیٹنگ سیٹ ہوتی۔ فوٹو : فائل

فواد جیسے کھلاڑیوں کو مواقع دیے جاتے توآج مڈل آرڈر بیٹنگ سیٹ ہوتی۔ فوٹو : فائل

’’فواد عالم صرف ڈومیسٹک کرکٹ کا ہی کھلاڑی ہے، انٹرنیشنل میچز میں پرفارم نہیں کر سکتا‘‘

’’فواد کا اسٹانس بڑا عجیب سا ہے‘‘

’’فواد میچ فکسنگ میں ملوث ہے‘‘

10برسوں میں عمدہ کارکردگی کے باوجود فواد عالم کو قومی ٹیم میں شامل نہ کرنے پر اس طرح کے بے شمار جواز تراشے گئے، کوئی اور ہوتا تو کب کا کرکٹ چھوڑ چکا ہوتا مگر فواد نجانے کس مٹی کا بنا ہوا ہے، اس نے ہمت نہیں ہاری اور محنت کرتے رہا، میں نے کئی بار پوچھا آف دی ریکارڈ اور آن دی ریکارڈ دونوں مگر اس نے کبھی کسی کے خلاف بات نہیں کی۔

ہمیشہ اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ کہتا ’’اگر میری قسمت میں لکھا ہوا تو ضرور دوبارہ قومی ٹیم کی نمائندگی کروں گا، میرا وقت بھی آئے گا‘‘ اب واقعی ان کا ٹائم آ چکا،آج ویسٹ انڈیز کے سابق پیسر ای ین بشپ بھی10 سال تک ہونے والی ناانصافی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’فواد کو رنز بناتے دیکھ کر میرا دل خوشی سے جھوم اٹھتا ہے‘‘ دنیا میں ان کے صبر کو مثال بنا کر پیش کیا جا رہا ہے کہ کھلاڑی یہ ہوتا ہے جو 10 سال نظر انداز ہونے کے باوجود ڈٹا رہا۔

انھوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں 56کی اوسط سے12 ہزار سے زائد رنز بنا دیے، پھر بھی سلیکٹرز لفٹ کرانے کو تیار نہ تھے، اس دوران فواد نے صرف اپنی کارکردگی اور فٹنس کو اہمیت دی، آپ 10 سال پرانے اور موجودہ فواد کو دیکھ لیں کوئی فرق نظر نہیں آئے گا،صلہ ملنے کی پروا کیے بغیر وہ ڈومیسٹک سیزن میں تواتر سے اسکور کرتے رہے،2009میں ڈیبیو پر سنچری کے باوجود انھوں نے اب تک صرف8ہی ٹیسٹ کھیلے ہیں، یہ تعداد88ہونی چاہیے تھی مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اگر آپ کسی بڑے باپ کے بیٹے نہیں،آپ کے چچا یا ماموں کسی بڑی پوسٹ پر فائز نہیں تو نظر انداز ہی ہوتے رہتے ہیں، لوگ میڈیا کو بْرا بھلا کہتے ہیں لیکن یہ صحافی ہی ہیں جنھوں نے فواد کا کیس اتنے برس تک زندہ رکھا،ان کے ساتھ انصافیوں کو اْجاگر کرتے رہے جس کی وجہ سے حکام موقع دینے پر مجبور ہوگئے۔

فواد تو پھر بھی خوش قسمت ہیں کہ10سال بعد ہی سہی چانس تومل گیا نجانے ان جیسے کتنے کھلاڑی اس سسٹم کی بھینٹ چڑھ چکے، سمیع اسلم تو مایوس ہو کر  امریکا چلے گئے، عثمان صلاح الدین، تابش خان،صدف حسین اور نجانے کتنے پلیئرز اس فہرست میں موجود ہوں گے، تابش جب عروج کا دور گذار چکے تو علامتی طور پر انھیں اب اسکواڈ میں رکھا گیا ہے، مجھے نہیں لگتا کہ سر پر ٹیسٹ کیپ سجے گی،پہلے کہاگیا کہ یونس خان، مصباح الحق،اظہر علی اور اسد شفیق کی موجودگی میں فواد کی جگہ نہیں بنتی، کم از کم فواد کو اسکواڈ کے ساتھ تو رکھا جا سکتا تھا، آپ اسی وجہ سے یونس اور مصباح کے متبادل تیار نہیں کر سکے، اسد اور اظہر ان دونوں کی ریٹائرمنٹ کے بعد بْری طرح ایکسپوز ہو گئے۔

اس دوران فواد جیسے کھلاڑیوں کو مواقع دیے جاتے توآج مڈل آرڈر بیٹنگ سیٹ ہوتی، اسد کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو اندازہ ہو گا کہ وہ خوش قسمت ہیں کہ اتنے ٹیسٹ کھیل گئے، اظہر کی پرفارمنس میں بھی تسلسل نظر نہیں آتا،اگر آپ متواتر نئے یا نظرانداز شدہ پلیئرز کو چانس دیتے رہتے تو ان دونوں پر دباؤ بھی ہوتا جس سے بہتر پرفارم کرنے کی تحریک ملتی، ایسا نہ ہونے سے وہ سہل پسندی کا شکار ہوگئے، فواد کے جو اتنے سال ضائع ہوئے ان کا حساب کون دے گا، انضمام الحق جب تک چیف سلیکٹر رہے انھیں ٹیم کے قریب نہیں پھٹکنے دیا۔

بیٹنگ میں خامیاں نکالتے رہے، ان کو لگتا تھا کہ فواد انٹرنیشنل معیار پر پرفارم نہیں کرسکتے، عہدے سے علیحدگی کے بعد وہ ان رہنے کیلیے یوٹیوب ویڈیوز پر گذارا کر رہے تھے، دیگر سابق کرکٹرز کی طرح توجہ حاصل کرنے کیلیے انھوں نے بھی تنقید شروع کر دی، بورڈ نے بیشتر سابق کھلاڑیوں کو ملازمت دے کر ان کی زبان بندی کرا دی ہے، انضمام کیلیے بھی بھاری رقم کا چیک تیار کر کے کہا گیا کہ وہ پی سی بی ڈیجیٹل کیلیے پاک جنوبی افریقہ سیریز پر تبصرے کریں، سابق کپتان ہنسی خوشی تیار ہو گئے، میں اب یہ دیکھنے کیلیے بے چین ہوں کہ انزی دی لیجنڈ کس منہ سے فواد کی تعریفیں کرتے ہیں، گوکہ مصباح الحق نے بھی اپنے دور قیادت میں انھیں نظر انداز کیا مگر چیف سلیکٹر کی حیثیت سے وہی واپس لائے اور بطور ہیڈ کوچ پلیئنگ الیون میں بھی شامل کیا،اس پر انھیں سراہنا بھی چاہیے۔

آپ بھارتی کرکٹ ٹیم کی مثال سامنے رکھیں، کپتان ویرات کوہلی آسٹریلیا سے واپس چلے گئے، کئی سینئرز انجرڈ ہو گئے، نئے کھلاڑیوں کو شامل کرنا پڑا، رکشہ ڈرائیور کا بیٹا محمد سراج آیااور پرفارم کر گیا، گاؤں کے کئی لڑکے ٹیم میں آئے اور ہیرو بن گئے،یقیناً ان کی کوئی سفارش نہیں ہو گی مگر ٹیلنٹ کی بنا پر انھوں نے کامیابیاں حاصل کیں، بھارت سے زیادہ باصلاحیت کھلاڑی ہمارے ملک میں موجود ہیں مگر ہر کسی کا عزم و حوصلہ فواد عالم جیسا نہیں ہوتا، ان کے پاس تو ملازمت موجود تھی، دیگر کھلاڑی اتنا طویل انتظار نہیں کر سکتے، ایک، دو سال موقع نہ ملنے پر ہی وہ مایوس ہو کر کرکٹ چھوڑ دیتے ہیں۔

پھر کوئی ٹیکسی ڈرائیور بن جاتا تو کوئی دوسراکام کرنے لگتا ہے،ٹیلنٹ امیروں سے زیادہ متوسط پس منظر کے گھروں سے ہی سامنے آتا ہے، مگر ایسے پلیئرز الحق یا کوئی دوسرا سر نیم نہ ہونے کی وجہ سے انتظارہی کرتے رہ جاتے ہیں، آپ بس یہ تہیہ کر لیں کہ ہم کسی باصلاحیت کھلاڑی کو ضائع نہیں ہونے دیں گے، قومی ٹیم میں شمولیت کا معیار سفارش نہیں صرف ٹیلنٹ ہوگا، کسی بڑے ادارے کے سربراہ یا بس ڈرائیو کا بیٹا جو بھی ہو صرف پرفارمنس پر موقع ملے گا، اگرایسا ہو گیا تو آپ دیکھ لے گا چند برسوں میں ہماری ٹیم کہاں سے کہاں پہنچ جائے گی، مگر افسوس سسٹم یہ ہونے نہیں دے گا، یہاں کئی فواد عالم گمنامیوں کے اندھیروں میں گم ہوتے رہیں گے،اس لیے میڈیا کو دعائیں دیں جو ان مظلوموں کیلیے آوازیں اٹھاتا ہے ورنہ پوری ٹیم ہی سفارشیوں پر مشتمل ہوا کرے گی۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے@saleemkhaliq پرفالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔