انسانِ کامل ﷺ

ڈاکٹر شائستہ جبیں  اتوار 7 مارچ 2021
دنیا میں کسی بھی تاریخی شخصیت کی مصلحانہ زندگی میں ایسی عملی ہدایات اور کامل امثال کی کوئی نظیر نہیں ملتی جو تنہا آپ  ؐ کی ذات بابرکات میں مجتمع ہیں
فوٹو : فائل

دنیا میں کسی بھی تاریخی شخصیت کی مصلحانہ زندگی میں ایسی عملی ہدایات اور کامل امثال کی کوئی نظیر نہیں ملتی جو تنہا آپ  ؐ کی ذات بابرکات میں مجتمع ہیں فوٹو : فائل

دنیا کی تاریخ میں ایسے ہزاروں اشخاص نمایاں ہیں جنہوں نے دنیا بھر کے انسانوں کے لیے اپنی زندگی نمونے کے طور پر پیش کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ لیکن ان میں سے کس کی زندگی بنی نوع انسان کی سعادت، فلاح اور ہدایت کی ضامن ہے ۔۔۔۔ ؟

بنی نوع انسان کی حقیقی بھلائی، نیکی، مکارم اخلاق اور تطہیر قلب کے لیے کام یاب کوشش اگر کسی طبقۂ انسانی نے سر انجام دی ہیں تو وہ صرف حضرات انبیائے کرامؑ کا طبقہ ہے، جو خدا کے فرستادہ بن کر دنیا میں تشریف لائے۔

یوں تو ہر نبیؑ نے اپنے وقت میں اپنی قوم کے سامنے اس زمانے کے اعلی اخلاق عالیہ اور صفات کاملہ کا ایک بلند ترین معجزانہ نمونہ پیش کیا، کسی نے صبر، کسی نے ایثار، کسی نے قربانی، کسی نے زہد ، غرض ہر ایک نے انسان کی مشکل زندگی میں صراطِ مستقیم پر چلنے کے لیے روشنی کا ایک مینار قائم کردیا، مگر ضرورت ایک ایسے راہ بر و راہ نما کی تھی جو تمام عالمِ انسانیت کو اپنی کامل تعلیمات اور عمل سے روشن کر دے۔ یہ راہ نما سلسلۂ انبیائے کرامؑ کے آخری فرد حضرت محمد مصطفیٰ، احمد مجتبٰی ﷺ ہیں، جن کے بارے میں اﷲ رب العزت نے فرمایا، مفہوم: ’’اے پیغمبر (ﷺ)! ہم نے آپ کو گواہی دینے والا، خوش خبری سنانے والا، خبردار کرنے والا اور اﷲ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے۔‘‘

ہم تمام انبیائے کرامؑ کا ادب اور احترام کرتے ہیں، اس لیے کہ یہ شرائط ایمان میں سے ہے، لیکن ختم نبوت اور آخری کامل انسان ہونے کی حیثیت سے نبی اکرم ﷺ کو جو خاص شرف عطا ہوا ہے، وہ دیگر انبیائے کرامؑ کو اس لیے مرحمت نہیں فرمایا گیا کہ انہیں دائمی، آخری اور خاتم بنا کر نہیں بھیجا گیا تھا۔ آپ ﷺ ایسی شریعت دے کر بھیجے گئے جو کامل تھی اور جس کی تکمیل کے لیے پھر کسی دوسرے کو نہیں آنا تھا۔ آپ ﷺ کی تعلیم دائمی تھی، اس لیے آپ ﷺ کی ذات بابرکات کو مجموعۂ کمال بنا کر بھیجا گیا۔ وہ نمونہ حیات جو رہتی دنیا تک انسانوں کے لیے آئیڈیل اور رول ماڈل قرار پایا جانا تھا۔ رسول کریمؐ کی زندگی کا ہر لمحہ دنیا کے سامنے ہے۔

آپ ﷺ کی حیات مبارک پوری عالم انسانیت اور خاص کر امّت مسلمہ کے لیے کامل نمونہ ہے، اس لیے کہ آپؐ کی حیات طیبہ کے تمام پہلو سب کے سامنے ہیں، کیوں کہ ایسی ہی زندگی جس کا ہر پہلو روشن اور واضح ہو، انسان کے لیے نمونہ کا کام دے سکتی ہے۔ رسول کریمؐ کی سیرت میں انسانوں کے ہر طبقے اور صنف کے لیے عمل کے درس اور سبق موجود ہیں۔ ایسی زندگی جو ہر انسانی گروہ اور ہر انسانی حالت کے مختلف مظاہر اور ہر قسم کے صحیح جذبات اور کامل اخلاق کا مجموعہ ہو، وہ صرف آپ ﷺ کی سیرت ہے۔

اگر دولت مند ہو تو مکہ کے تاجر کی تقلید کرو، غریب ہو تو شعب ابی طالب کے قیدی اور مدینہ کے مہمان کی کیفیت سنو، اگر بادشاہ ہو تو سلطان عرب کا حال پڑھو، استاد اور معلّم ہو تو صُفّہ کی درس گاہ کے عظیم معلّم ﷺ کو دیکھو، غرض تم جو کوئی بھی ہو، جہاں اور جس حال میں ہو، تمہاری سیرت کی درستی اور اصلاح کا سامان، تمہارے لیے چراغ ہدایت اور راہ نمائی صرف نبی کریم ﷺ کے اسوۂ حسنہ میں ہی پوشیدہ ہے۔

قرآن مجید نے آپ ﷺ کو ہر لحاظ سے عظیم اور بلند ترین انسان قرار دیا اور گواہی دی: ’’بے شک! آپؐ اخلاق کے اعلیٰ ترین مقام پر ہیں۔‘‘ انسان کے اخلاق، عادات اور اعمال کا بیوی سے بڑھ کر کوئی واقفِ کار نہیں ہوسکتا، آنحضرت ﷺ نے جب نبوت کا اعلان فرمایا تو اس وقت حضرت خدیجہ ؓ کے نکاح کو پندرہ سال ہوچکے تھے اور یہ مدت اتنی طویل ہے کہ انسان ایک دوسرے کے عادات و خصائل اور طور طریقے سے اچھی طرح واقف ہو جاتا ہے۔

اس کامل اعتماد کا اثر حضرت خدیجہ ؓ پر اس طرح پڑتا ہے کہ اِدھر آپ ﷺ کی مبارک زبان سے اپنی نبوت کی خبر نکلتی ہے اور اُدھر حضرت خدیجہ ؓ کا دل اس کی تصدیق کو آمادہ ہو جاتا ہے اور وہ آپؐ کو تسلی دیتے ہوئے فرماتی ہیں، مفہوم: ’’اﷲ تعالیٰ آپؐ کو کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا، کیوں کہ آپ ﷺ قرابت داروں کا حق ادا کرتے ہیں، مقروضوں کا قرض ادا کرتے ہیں، غریبوں کی مدد کر تے ہیں، مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں، حق کی طرف داری کرتے ہیں، مصیبت میں لوگوں کے کام آتے ہیں۔‘‘

حضرت علیؓ سے بڑھ کر کون آپ ﷺ کے احوال اور اخلاق سے واقف ہوگا۔ آپؓ گواہی دیتے ہیں: ’’آپ ﷺ ہنس مکھ، طبیعت کے نرم اور اخلاق کے نیک تھے، طبیعت میں مہربانی تھی، سخت مزاج نہ تھے، لوگوں کے عیب اور کم زوری نہیں تلاش کرتے تھے، دل شکنی نہیں کرتے تھے بل کہ دلوں پر مرہم رکھتے تھے کیوں کہ آپ ﷺ رؤف اور رحیم ہیں۔‘‘

آپ ﷺ کی سیرت کی کاملیت کا سب سے روشن پہلو یہ ہے کہ آپؐ نے اپنے پیروکاروں کو جو نصیحت فرمائی، اس پر سب سے پہلے خود عمل کر کے دکھایا۔ تمام دنیا میں یہ فخر صرف آپ ﷺ کو حاصل ہے کہ تعلیم اور اصول کے ساتھ عمل اور اپنی مثال پیش کرتے ہیں۔ اہل خانہ کے ساتھ نیکی اور بھلائی کا حکم اپنے عمل کی تعلیم کے ساتھ دیتے ہیں۔

دنیا میں گزرنے والی کسی بھی شخصیت کی مصلحانہ زندگی میں ایسی عملی ہدایات اور کامل امثال کی کوئی نظیر نہیں ملتی جو تنہا آپ ﷺ کی ذات بابرکات میں مجتمع ہیں، کیوں کہ کامل انسان صرف آپ ﷺ ہیں جن کی تقلید کو اﷲ تعالیٰ نے لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوہ حسنہ کے فرمان کے ساتھ لازم ٹھہرایا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔