پاکستان اور سعودی عرب

مزمل سہروردی  منگل 2 مارچ 2021
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

امریکا کی نئی حکومت نے صحافی جمال خشوگی کے قتل کے حوالہ سے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ملوث ہونے کے حوالہ سے ایک رپورٹ جاری کی ہے۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ امریکا کی سابقہ حکومت اس حوالہ سے محمد بن سلمان کو کلین چٹ دے چکی ہے۔ لیکن نئی حکومت نے گزشتہ حکومت کی کلین چٹ کو مسترد کرتے ہوئے نئی رپورٹ جاری کر دی ہے۔

حالانکہ اب تو جمال خشوگی کے قتل کا مدعی ترکی بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹ چکا ہے۔ اور ترکی کے صدر طیب اردگان بھی سعودی عرب سے تعلقات ٹھیک کر چکے ہیں۔ اسی لیے ترکی نے اس نئی امریکی رپورٹ کا خیر مقدم نہیں کیا ہے۔ بلکہ ہمیں ترکی کی جانب سے بھی خاموشی ہی نظر آرہی ہے۔ حالانکہ کل تک ترکی اس کا مدعی خاص تھا۔ ترکی کو علم ہے کہ وہ اپنے اور سعودی عرب کے تعلقات میں امریکا کو کوئی کھیل نہیں کھیلنے دے گا۔ ترکی کی خاموشی ایک واضع پیغام ہے۔

پاکستان نے جمال خشوگی کے قتل کے حوالہ سے اس نئی رپورٹ کو باقاعدہ مسترد کیا ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں اس رپورٹ کے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے حوالہ سے مندرجات کو مسترد کیا گیا۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایک محتاط بیان جاری کیا ہے۔ جس میں جہاں رپورٹ کے مندرجات کو مسترد کیا گیا ہے۔ وہاں جمال خشوگی کے قتل کی مذمت بھی شامل ہے۔

لیکن امریکی رپورٹ کے بعد سعودی عرب کے دفتر خارجہ نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے۔ جس میں جہاں رپورٹ میں سعودی ولی عہد کے ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے رپورٹ کو مسترد کیا گیا ہے وہاں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جمال خشوگی کا قتل ایک مجرمانہ عمل تھا۔ جسے سلطنت سعودی عرب ایک جرم کے طور پر ہی دیکھتی ہے۔ اسی لیے سعودی عرب نے اس قتل کی مکمل تحقیقات کی ہیں اور اس میں ملوث افراد کو سزا دی گئی ہے۔ یہ لوگ اپنی سزا کاٹ بھی رہے ہیں۔ سعودی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جمال خشوگی کے خاندان اور ورثا نے بھی سعودی عرب میں اس قتل کے حوالہ سے کی جانے والی تحقیقات اور دی جانے والی سزاؤں پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ اس لیے اس ضمن میں امریکی رپورٹ کا نہ تو کوئی جواز ہے اور نہ ہی اس رپورٹ کے مندرجات میں کوئی سچ ہے۔

پاکستان سے پہلے متحدہ عرب امارات نے بھی اس امریکی رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی جانب سے امریکی رپورٹ کے جاری ہونے کے فوری بعد سعودی عرب اور سعودی ولی عہد کے حق میں بیان جاری کیا گیا ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب شروع سے یک جان دو قالب ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ دونوں ممالک عالمی سیاست میں بھی قدم سے قدم ملا کر چلتے ہیں۔ ان کے دوست اور دشمن بھی یکساں ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندان اور سعودی شاہی خاندان کے درمیان بھی قریبی برادرانہ تعلقات ہیں۔ دونوں ممالک نے باہمی تعلقات کو ہمیشہ بہت اہمیت دی ہے۔ یہ درست ہے کہ ہم نے پہلی بار دیکھا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے سعودی عرب کے بغیر اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ ورنہ دونوں ممالک کی خارجہ پالیسی میں تال میل ہمیشہ مثالی رہا ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات پر ایسی قیاس آرائیاں زبان زد عام رہی ہیں کہ دونوں برادر ممالک کے درمیان تعلقات میں سرد مہری آگئی ہے۔ سعودی عرب اور بھارت کے درمیان قربت بھی پاکستان کے لیے باعث تشویش رہی ہے۔ گو کہ سعودی عرب کی جانب سے بار بار یہ وضاحت کی گئی ہے بھارت سے اس کے تعلقات کا پاکستان پر کوئی اثر نہیں ہے۔ سعودی بھارت قربت سے پیدا ہونے والا تاثر کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دوریاں پیدا ہوئی ہیں قطعی درست نہیں اور نہ ہمیں ایسا سوچنا چاہیے بلکہ پاکستان کو سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے خود کام کرنا چاہیے۔ یہ بھی کہا گیا کہ او آئی سی نے کشمیر پر پاکستان کا ساتھ اس طرح نہیں دیا جیسے ہمیں توقع تھی۔ لیکن پھر بھی ہم گلہ توکر سکتے ہیں لیکن ناراض نہیں ہو سکتے۔

میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی دفتر خارجہ نے بروقت بیان جاری کر کے درست کیا ہے۔ ہمیں سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات مزید مضبوط بنانا ہے۔ہمیں سعودی حکومت کو  بتانا ہے کہ ہم اچھے برے وقت میں سعودی عرب کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس لیے ہم امریکی رپورٹ کے مقابلے میں بھی سعودی حکومت اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آندھی ہو یا طوفان دھوپ ہو یا چھاؤں ہم سعودی عرب کے ساتھ ہیں۔ مجھے امید ہے کہ پاکستانی دفتر خا رجہ کے بیان کو سعودی عرب میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہوگا۔ آخر متحدہ عرب امارات کے بعد صرف پاکستان نے ہی سعودی حکومت کے حق میں بیان جاری کیا ہے۔ ہم سعودی عرب کے ساتھ متحدہ عرب امارات کی سطح پر کھڑے نظر آرہے ہیں۔

دوست کہہ رہے ہیں کہ بھارت نے بیان جاری نہیں کیا۔ بھارت خاموش ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں بھارت کی خاموشی پر توجہ نہیں دینی چاہیے۔ بھارت جانے اور سعودی عرب جانے۔ بھارت اپنے اعمال کا خود جوابدہ ہے۔ ہمارے سعودی عرب سے اپنے تعلقات ہیں۔ اور ہم سعودی عرب کو بھارت کی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتے۔ یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ یہ کام ہمیں سعودی عرب پر چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ خود جائزہ لے کہ کون کب اور کتنا اس کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی کہانی بہت مضبوط ہے۔ اس لیے کوئی وقتی بحران ان کو کمزور تو کر سکتا ہے لیکن ختم نہیں کر سکتا۔ پاکستان کا سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات پر بہت انحصار ہے۔ہمیں ایسے لوگوں سے دور رہنا ہے جو ہمیں سمجھاتے ہیں کہ ہمیں سعودی عرب سے دور ہوجانا چاہیے۔ وہ لوگ پاکستان کے دوست نہیں ہیں۔ ہمارے دشمنوں کی یہ خواہش ہے کہ ہم سعودی عرب سے دور ہو جائیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات اور بد گمانیاں بڑھتی جائیں۔ ویسے بھی ماضی میں امریکا نے سعودی عرب کو دباؤ میں رکھنے کے بہت سے حربے استعمال کیے ہیں۔ یہ رپورٹ بھی ایسا ہی ایک حربہ ہے اور سعودی عرب اس بات کو سمجھتا ہے۔ اسی لیے سعودی عرب نے امریکی رپورٹ کے جواب میں جو بیان جاری کیا ہے اس میں امریکا اور سعودی عرب کے درمیان مضبوط تعلقات کا ذکر ہے اور ان تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کا عزم بھی شامل ہے۔ سعودی عرب اور محمد بن سلمان اس سارے کھیل کو سمجھتے ہیں۔ پھر جب ترکی بھی اس کھیل کو سمجھ کر اس کا حصہ نہیں بن رہا ہے تو ہمیں بھی سمجھنا ہوگا اور ہم نے درست فیصلہ کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔