بُک شیلف

 فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

 میں جمع تو
مصنفہ : امرتا پریتم ، قیمت : 500 روپے
ناشر… بک کارنر ، جہلم، واٹس ایپ 03215440882

امرتا پریتم کون تھیں؟ کیا تھیں؟ کیسی تھیں؟ ان جیسے بہت سے سوالوں کے جواب کوئی امرتا پریتم کی زبانی جاننا چاہے تو ان کی ساری تخلیقات پڑھنا ہوں گی ۔ امرتا کے ہم سفر ’ امروز ‘ کہا کرتے تھے کہ ’ اگر کوئی امرتا کی تمام تخلیقات، نظمیں، کہانیاں، ناول ترتیب وار سامنے رکھ کر پڑھے تو وہ امرتا کی پوری زندگی کو جان سکتا ہے‘ ۔ گویا امرتا کی تخلیقات کی صورت ان کی پوری زندگی یہاں سے وہاں تک بکھری ہوئی ہے۔’ رسیدی ٹکٹ ‘ پڑھ کر ان کی زندگی کے بارے میں کافی حد تک اندازہ ہوتا ہے لیکن سارا نہیں۔ ’ میں جمع تو‘ کا مطالعہ کر لیا جائے تو مزید بہت کچھ کا علم ہوجاتا ہے۔

امرتا لکھتی ہیں:’’ ہم سب اپنے اپنے ’ میں ‘  کا ایک ٹکڑا جیتے ہیں اور برسوں تک جو بھی سوچتے ہیں، سمجھتے ہیں اور قدروں، قیمتوں کو اپناتے ہیں وہ پورے ’ میں ‘ کی تلاش ہوتی ہے۔ ہمیں علم بھی وسیع کرتا ہے اور محبت کا جذبہ بھی، علم ’ میں‘ کی پہچان دیتا ہے اور محبت کا جذبہ ’ تو‘  کی یعنی اس دوسرے کی جسے ہم پیار کرتے ہیں۔ کوئی ’ تو‘ ’ میں‘ کے بغیر ممکن نہیں۔‘‘

زیر نظر مجموعہ میں موجود ساری نظمیں امرتا نے جس ’ تو ‘ کے لئے لکھیں، بقول ان کے :’’ اس ’تو‘ کا نام ساحر بھی ہے امروز بھی‘‘۔ ساحر ، جس کے بارے میں امرتا لکھتی ہیں:’’ ساحر کو ملنے سے پہلے میری زندگی میں صرف ایک خلا تھا۔‘‘ اس کے بارے میں ایک نظم میں امرتا نے یہ شعر لکھا:

پیار تیرے دیاں کچیاں گنڈھاں، توں نہ سکیوں کھول

پیار میرے دیاں کچیاں گنڈھاں، میں نہ سکی آں کھول

( تمھارے پیار کی کچی گرہیں، انھیں تم نہ کھول سکے

میرے پیار کی کچی گرہیں، انھیں میں نہ کھول سکی)

اور امروز کون تھا؟ امرتا کے الفاظ میں

’’باپ ، بھائی ، دوست اور شوہر         کسی لفظ کا نہیں کوئی رشتہ

لیکن جب میں نے تم کو دیکھا        سارے لفظ تیرے ہوگئے‘‘

’رسیدی ٹکٹ ‘ میں، میں نے کہیں لکھا تھا کہ امروز کے لئے میری محبت کو زرخیز کرنے میں ساحر کی دوستی کھاد، پانی اور دھوپ کی طرح ملی ہوئی ہے اور سوچتی ہوں… ساحر بھی تو میرے اپنے ہی تیکھے پن کا نام ہے ۔‘‘

’رسیدی ٹکٹ ‘  کی طرح ’ میں جمع تو ‘ سے بھی نہ صرف امرتا پریتم کی شخصیت اور شاعری کی سمجھ بوجھ ملتی ہے بلکہ پڑھنے والا اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ امرتا پریتم نہ ہوتیں تو پنجاب اور پنجابی کے سارے رنگ پھیکے رہتے۔ زیر نظر مجموعے میں موجود ہر نظم اس بات کا پکا ثبوت ہے۔

جناب احمد سلیم ، جنھوں نے کسی نشے سے سرشار ہوکر امرتا کی نظموں کا ترجمہ کیا، لکھتے ہیں : ’’امرتا پریتم کی شاعری اور شخصیت کو سمجھنے کے لئے ’’ میں جمع تو‘‘ اور ’’ رسیدی ٹکٹ ‘‘ کی کلیدی اہمیت ہے۔ نہ صرف امرتا کی شخصیت اور شاعری کو سمجھنے کے لئے بلکہ پنجاب کے ثقافتی ورثے، پنجاب کے موسموں، دیسی مہینوں  اور مجموعی طور پر پنجاب کو سمجھنے کے لئے بھی۔‘‘ اگر ایک فقرے میں بات کہی جائے تو یہ کتاب دراصل مثالی محبت کی تفہیم ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ محبت ہوتی ہی مثالی ہے۔

 یہودیوں کے تاریخی جرائم

مصنفین: پروفیسر (ر) ڈاکٹرمحمد آفتاب خان، ام انس، قیمت :600 روپے
ناشر: مکتبہ فروغ فکر اقبال، 970 نظام بلاک، اقبال ٹاؤن، لاہور، رابطہ : 03328076918

اہل یہود پندرہ سو برس تک اللہ تعالیٰ کی محبوب قوم کے طور پر زندگی گزارتے رہے، انھیں وہ دنیوی انعامات عطا ہوئے جو شاید ہی کسی کو ملے ہوں گے، آسمان سے تیار کھانا ان کے لئے زمین پر نازل ہو رہا تھا ، پھر انھوں نے بڑے بڑے قبیح جرائم کرنا شروع کر دیے۔ ان کا سب سے بڑا اعزاز کیا تھا؟ یہی نا کہ اللہ تعالیٰ انبیائے کرام ان کے ہاں سے مبعوث کر رہا تھا لیکن انھوں نے نہ صرف انبیا کی تعلیمات کو جھٹلانا شروع کر دیا بلکہ انھیں قتل بھی کرتے رہے۔

اللہ تعالیٰ اہل یہود کو سمجھاتا رہا ، انھیں باز رہنے کو کہتا رہا لیکن وہ اپنی بری روش پر بگٹٹ دوڑے چلے گئے، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کے منصب و مقام سے برطرف کردیا اور نبوت بنو اسماعیل کو دیدی، اس پر بھی وہ اکڑنے لگے کہ نبوت تو بنو اسحاق کا حق تھا ۔ وہ اللہ تعالیٰ کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے لیکن  بنو اسماعیل کے دشمن بن گئے ۔ وہ دشمنی میں اس قدر اندھے ہوگئے کہ وہ ہر اس انسان کو اپنا دشمن سمجھنے لگے جو ان کا حامی نہ ہوا ۔ اور اپنی بقا کے لئے پوری انسانیت بالخصوص نادار طبقات کا بدترین استحصال شروع کردیا ۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہودی قوم اس سے بھی زیادہ برے انجام کی طرف جا رہی ہے۔

زیرنظرکتاب میں اس سوال کا نہایت تفصیلی جواب دیا گیا ہے کہ آخر یہودیوں کے وہ کون سے جرائم تھے جن کے سبب انھیں ایک بلند مقام و مرتبہ سے ہٹایا گیا ۔ کتاب کے چھ ابواب ہیں : یہودیت، قرآن کے آئینے میں۔ بنی اسرائیل کے جرائم۔ مکالمات قیامت : عوام اور قائدین کے درمیان۔ مذاہب عالم پر ایک طائرانہ نظر۔ شرک… ذہن انسانی کی اختراع ۔ نوجوان نسل اور اقامت دین۔

یہ کتاب یہودیوں کی  مسلمانوں سے دشمنی کی سب بنیادوں کو واضح کرتی ہے، ایک مغضوب قوم کے اس تذکرے میں اہل اسلام کے لئے بھی سیکھنے کو بہت کچھ موجود ہے ۔ اس اعتبار سے ہر مسلمان کو یہ اسباق پڑھنے چاہئیں۔

خوابوں کا محل
مصنفہ : بلقیس ریاض، قیمت : 400 روپے
ناشر: القریش پبلی کیشنز، اردو بازار لاہور، فون 03004183997

عصر حاضر میں خوبصورت نثر لکھنے والوں کو تلاش کیا جائے تو جو چند ایک لوگ  نظر آتے ہیں، بلقیس ریاض، ان میں سے ایک ہیں۔ ڈھائی درجن سے زائد کتابوں کی مصنفہ۔ اگرچہ انھوں نے سفرنامے بھی بہت سے لکھے ہیں لیکن ان کی پہلی پہچان ناول و افسانہ نگاری ہی ہے۔

ممتاز ادیبہ محترمہ بشریٰ رحمن کا کہنا ہے: ’’ بلقیس ریاض ناول لکھیں یا افسانہ ، سفرنامہ لکھیں یا کالم … اپنی مٹی کو گواہ بنا کر لکھتی ہیں۔ ان کی تمام تحریروں میں پاکستانیت کی جڑیں دور تک اترگئی ہیں… ان کے ناولوں اور افسانوں کی دوسری خوبی ان کی کردار نگاری ہے۔ ان کے ناول اور افسانے پاکستان کی معاشرتی اور سماجی زندگی کے عکاس ہیں۔ انھیں پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم پاکستان کے کسی گھر کی کھڑکی کھول کر بیٹھ گئے ہیں اور یہ سب واقعات ہمارے سامنے ظہور پذیر ہو رہے ہیں… ان کی تحریروں میں سماجی ناہمواریوں ، اخلاقی قدروں کی ٹوٹ پھوٹ ، دولت برائے احترام ، بے راہ روی کی یلغار اور اپنے ماحول سے بے زاری کا درد صاف نظر آتا ہے… ان کی تحریریں دلوں کو دلوں سے اور گھروں کو گھروں سے جوڑنے والی ہوتی ہیں۔‘‘

زیرنظر مجموعے میں بلقیس ریاض کی تیس کہانیاں ہیں جن میں ایک ’ الہڑ سی نوکرانی‘ بھی ہے۔ یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو  بتاتی ہے کہ ہمارے معاشرے کے بعض بظاہر معزز گھرانے اندر سے کتنے گندے ہوتے ہیں۔ ’ اصلی چہرہ ‘ بھی کچھ ایسی ہی کہانی ہے۔ اس مجموعے میں موجود ہر کہانی ایک آئینہ ہے جس میں ہم میں سے ہر ایک کو اپنا آپ بہت اچھی طرح سے نظر آتا ہے۔ شاید ہم میں سے کچھ لوگ آئینہ دیکھنے کی تاب نہ لاپائیں لیکن آئینہ دیکھنا تو پڑے گا، تو کیوں نہ آج ہی دیکھ لیا جائے۔

 سچ کی تلاش میں
مصنف : امجد اسلام امجد، قیمت : 900 روپے
ناشر: بک کارنر ، جہلم، واٹس ایپ 03215440882

امجد اسلام امجد ایسے بلند مرتبت شاعر، ڈرامہ نگار اور نقاد کے کہے، لکھے کو سن، پڑھ کر ایک جہان جھوم اٹھتا ہے۔ وہ ایک ایسے درخشاں ستارے ہیں جو اردو ادب کی کئی اصناف میں عرصے سے چمک دمک رہے ہیں اور زمانے ان سے ہمیشہ روشن رہیں گے ۔ ایک شاعر اور ڈرامہ نگار کے طور پر ہر کوئی ان سے شناسا تھا لیکن وہ نقاد بھی کمال کے ہیں۔ ان کی تنقید کا یہ سفر ستّر کی دہائی سے شروع ہوتا ہے۔ تب انھوں نے میرسے اقبال تک ، آٹھ منتخب اور عہدساز شاعروں کے جدید انتخاب کے حوالے سے کچھ مضامین لکھے جو ان کے مجموعے ’ نئے پرائے ‘ میں شامل ہوئے۔ اس کے بعد بھی یہ سفر جاری رہا، انھوں نے اسے سچ کی تلاش کا سفر قرار دیا۔ اس سفر کا ایک احوال زیرنظر مجموعے کی صورت میں منظرعام پر آچکا ہے۔

مجموعے کا تعارف کرواتے ہوئے امجد اسلام امجد لکھتے ہیں: ’’ اس کتاب میںشامل زیادہ تر مضامین تاثراتی اور شخصی حوالے سے قلم بند کیے گئے ہیں یعنی قدرے طویل اور باقاعدہ تنقیدی انداز میں لکھی گئی تحریریں تعداد میں نسبتاً کم ہیں جبکہ ان کا زمانہ تحریر بھی چار دہائیوں سے کچھ زیادہ دورانیے پر مشتمل ہے‘‘۔

جناب امجد اسلام امجد کے یہ مضامین اس بات کے عکاس ہیں کہ  انھوں نے دوران تحریر سچ کو ساتھ ساتھ رکھا۔ کسی گروہ بندی، کم علمی ، نظریاتی تنگ نظری ، اندھی تقلید ، ذاتی پسند ناپسند کی پیداکردہ بے انصافی ، غیرضروری یا مبالغے کی حدوں کو چھوتی ہوئی تعریف کو قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر تنقیدی مضامین میں یہ روش اختیار کی جائے تو یہ بحیثیت مجموعی معاشرے کے لئے افسوس ناک، گمراہ کن بلکہ تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔

دیانت داری کے ساتھ تعریف اور تنقید کرنا ہی تو سب سے مشکل کام ہے، تاہم امجد اسلام امجد نے یہ مشکل کام باوقار انداز میں کیا۔ انھوں نے اقبال، مصحفی، افتخار عارف، مشتاق احمد یوسفی ، احمد ندیم قاسمی، عطاالحق قاسمی، ڈاکٹرسلیم اختر، حالی، منشا یاد، نثار عزیز بٹ ، مجتبیٰ حسین، سعید قیس، کمال احمد رضوی، منظر بھوپالی، انور مسعود اور  پروین شاکر سمیت بے شمار شخصیات پر قلم اٹھایا، اور حق ادا کر دیا۔ انحطاط پذیر معاشروں میں امجداسلام امجد ایسی شخصیات سے روشنی حاصل کرنا ازحد ضروری ہے ، ایسے میں یہ کتاب اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے گراں قدر تحفہ ثابت ہوگی ۔

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، شخصیت و خدمات

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نام ور ماہرِ اقبالیات ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز محقق ، مصنف، مرتب اور سب سے بڑھ کرانتہائی مشفق استاد ہیں ۔ تدریس کے سلسلے میں مختلف اداروں میں پڑھاتے ہوئے، بالآخر اپنی مادرِ علمی پنجاب یونی ورسٹی کے اورینٹل کالج سے صدرِ شعبہ اردوکی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ۔ ہاشمی صاحب کے شاگردوں کی خاصی تعداد ملک کے متعدد تعلیمی اداروں میں موجود ہے ۔ ان میں بہت سوں نے اپنے گرامی قدر استاد ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی خدمات کو سراہتے ہوئے قلم اٹھایا ہے، جن میں اب ڈاکٹر سکندر حیات میکن بھی شامل ہو چکے ہیں ۔

ڈاکٹر معین الدین عقیل رقم طراز ہیں : ’’اب زیرِ نظر ڈاکٹر ہاشمی کی شخصیت و خدمات کا مطالعہ بھی کوزے کو دریا میں بند کرنے کے مصداق ایک بسیط اور وسیع تر موضوع کا خاصی جامعیت کے ساتھ احاطہ کرنے اور اس کا حق ادا کرنے کی ایک کوشش کی ہے جو اپنی جگہ خاصی کامیاب اور متاثر کن ہے۔ یہ مطالعہ، میں سمجھتا ہوں کہ اس وجہ سے کامیاب ہو سکایا فاضل مصنف نے اس کا حق ادا کر دیا کہ اس کے پشِ پشت خود مصنف کی ایک تو مطالعے کی وسعت ہے اور دوسرے ا ن کا خلوص اور لگن بھی ہے جو ان کے ہم رکاب رہے ہیں، تب ہی اپنے ہر دل عزیز استاد کی شخصیت و خدمات کے مطالعے کا حق یہ مثالی صورت میں ادا کر سکے ہیں ۔‘‘

مصنف لکھتے ہیں: ’’ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: شخصیت و خدمات دراصل ہاشمی صاحب کی علمی و تخلیقی نثر کا تعارف ہے جس میں ان کا کوائف نامہ اور بطور مشفق و مخلص استاد، بطور افسانہ نگار، بطور انشائیہ نگار، بطور مکتوب نگار، بطور سفر نامہ نگار ، بطور ممتحن، بطور کالم نگار شامل ہیں۔‘‘

اندازہ ہوتا ہے کہ مختلف اصناف ِادب میں طبع آزمائی کرنے کے بعد، ہاشمی صاحب نے خود کو اقبالیات اور تحقیق و تنقید سے وابستہ کر لیا۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر وہ مثلاً کالم نگاری کرتے رہتے تو آج چوٹی کے دوچار کالم نویسوں میں شمار ہوتے یا اگر انشائیے لکھتے رہتے تو ان کا شمار اردو کے ممتاز انشائیہ نویسوں میں ہوتا۔  اس سے قبل ادبی دنیا ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کو اقبال شناس کے حوالے سے جانتی تھی، مگر یہ کتاب ان کی ہشت پہلو ادبی شخصیت کا بھرپور اظہار ہے۔ ان مضامین سے ڈاکٹر ہاشمی کی تخلیقی جہتوں کے نئے زایوں سے قارئین کو شناسائی ہو گی۔

خوبصورت سرِ ورق کے ساتھ کتاب ’ مثال پبلشرز، فیصل آباد‘ (03006668284) کی عمدہ پیش کش ہے ۔ قیمت 500 روپے۔

’’شجرِ حیات ‘‘ دور حاضر کا ایک اہم ناول
مصنف: ریاظ احمدکا


ریاظ احمد ملک کے معروف مصوراور رائٹر ہیں اور حال ہی میں اُنہوں نے شجر ِحیات یوبی ایل انعام یافتہ ناول لکھ کر خود کو ایک اچھے ناول نگار کے طور پر منوایا ہے۔ ناول میں غالباً ناول کے اجزائے ترکیبی کے اعتبار سے کردار نگاری اور منظرنگاری جو ایک مصور کی بنیاد خوبی ہوتی ہے اُنہیں سہل لگی ہو گی، مگر اِن کے مقابلے میں اس ناول میں اِن کو اپنی مکالمہ نگاری پر فخر سا ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ اُنہوں نے ناول شجرِ حیات کے ٹائیٹل پر تو قدرے تجریدی انداز میں ہے مگر ناول (کتاب) کے بیک پیج پر کرداروں کی فکر، سوچ ، خیالات، احساسات کے ساتھ اپنے ناول کے منتخب مکالمے دیئے گئے جو یوں ہیں۔ چہروں پر لکھی تمام کہانیوںکی زبان اور رسم الخط پوری دنیا میں ایک ہے۔

زندگی ہمیشہ اپنے عشاق پر اپنے بھید اور رمزیہ رنگ آشکار کرتی ہے ، وہ بھید جو انسانی دانش کا عطر ہیں ، جن سے زندگی کا باغ معطر ہے۔ مصنوعی شناختیں پُرفریب دھوکہ ہیں، یہ انسانوں کے مابین نرگسیت کی دیواریں بن جاتی ہیں، انسانوں کو انسانوں سے دور کر دیتی ہیں، انہیں ایک دوسرے کا دشمن بنا دیتی ہیں، اسباقِ محبت بھلا دیتی ہیں۔ انتخاب کرنے کی آزادی انسان کے لیے فطرت کا انمول تحفہ ہے، انتخاب کی آزادی ہی سے ہم تقدیرکا سفلی دائرہ توڑکر اپنے عمل میں آزاد ہو نے کا حق حاصل کرتے ہیں، اگر تم مصور نہ ہوتے تو مر جاتے، میں نے ہزارروں لوگوں کو مرتے دیکھا ہے۔

پہلے اِ ن کا شوق ختم ہوتا ہے، پھر ذوق مرتا ہے اور آخر میں وہ خود مر جاتے ہیں، بہزاد کا جی چاہا کہ وہ پھول کو چھُو لے، اُس نے بہت نرمی سے پھول کو چھُوا، اُوس کاایک قطرہ جو اپنے حسن کی کرامت سے موتی لگ رہا تھا، پھول کی پتی سے لڑھک کر ایسے گرا جیسے اُسے کسی اور کا چھُونا برا لگا ہو، وہ بہت معصومیت سے پوچھتا، ماں جنت کیسی ہوتی ہے ؟ اُس کی ماں اور زیادہ پیار کرتے ہوئے اُسے اپنی گود میں بھر لیتی،اُس کے گال پر محبت بھری چٹکی کاٹتے ہوئے کہتی ، جنت میری گود جیسی ہوتی ہے۔

ناممکنات کی نفی شجرِ حیات کی پہلی فصل ہے اور یہ تحریر حرف و اعداد کی دریافت حتیٰ کہ تمام مقدسات کی پرستش کے احکامات سے بھی قدیم ہے، بہزاد نے کہا ’’آج میری ملاقات ایک لڑکی سے ہوئی ہے، وہ بہت حسین تھی، مجھے لگا جیسے اُس کا حسن رنگوں اور لکیروں اور دائروںمیں لکھا محبت کا تعویذ ہے،، جدائی کا پہلا نوحہ انسان نے اُس دن گایا ، جس دن ایک انسان نے دوسرے انسان کو غلام بنا کر اُسے اُس کے پیاروں سے جدا کیا، یہ وہی دن تھا جس دن سے ہجر کے انگاروںکا ادب شروع ہوا۔

پروفیسر نے کہا ’’محبت کائنات کی سب سے بڑی دانائی ہے ،، ہمارا مقصد صرف ہمارا مقصد نہیں ہوتا، ہمارے مقدر میں ہمارے خاندان، سماج، دنیا اور کائنات کا مقدر گندھا ہوتا ہے، بالکل ایسے جیسے ایک پھول کا مقدر ہوا، پانی، مٹی، اور روشنی سے جڑا ہوتا ہے، میں جانتا ہوں میرے مخالفین مجھ سے مکالمہ نہیں کریں گے،کیونکہ وہ مکالمہ کرنا نہیں جانتے اور میں جنگ کرنا نہیں جانتا، نعرہ بغاوت کا پہلا قدم ہوتا ہے، زبانِ خلق نقارہ خدا نہیں ہوتی، بھیڑ چال ہوتی ہے ، خدا نقارہ نہیں بجاتا، نقارہ بجانا آج کے مفاد پرست لوگوں کا ہتھیار ہے، انہوں نے ہی دنیا کو نقار خانہ بنا دیا ہے، اِن مکالموں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ناول نگار نے تھیم کے اعتبار سے بہت محنت کی ہے، بظاہر یہ 161 صفحات کا مختصر ناول ہے جسے ناولیٹ بھی کہا جا سکتا ہے ۔ ریاظ کے مکالموں کی وجہ سے بہت جاندار ناول بن گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔