- ویسٹ انڈیز ویمن ٹیم کا پاکستان کو ون ڈے سیریز میں وائٹ واش
- کراچی میں ایرانی خاتون اول کی کتاب کی رونمائی، تقریب میں آصفہ بھٹو کی بھی شرکت
- پختونخوا سے پنجاب میں داخل ہونے والے دو دہشت گرد سی ٹی ڈی سے مقابلے میں ہلاک
- پاکستان میں مذہبی سیاحت کے وسیع امکانات موجود ہیں، آصف زرداری
- دنیا کی کوئی بھی طاقت پاک ایران تاریخی تعلقات کو متاثر نہیں کرسکتی، ایرانی صدر
- خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نمائندوں کا اختیارات نہ ملنے پراحتجاج کا اعلان
- پشین؛ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں3 دہشت گرد ہلاک، ایک زخمی حالت میں گرفتار
- لاپتہ کرنے والوں کا تعین بہت مشکل ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان
- سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی کو سزا سنانے والے جج کے تبادلے کی سفارش
- فافن کی ضمنی انتخابات پر رپورٹ،‘ووٹوں کی گنتی بڑی حد تک مناسب طریقہ کار پر تھی’
- بلوچستان کے علاقے نانی مندر میں نایاب فارسی تیندوا دیکھا گیا
- اسلام آباد ہائیکورٹ کا عدالتی امور میں مداخلت پر ادارہ جاتی ردعمل دینے کا فیصلہ
- عوام کو ٹیکسز دینے پڑیں گے، اب اس کے بغیر گزارہ نہیں، وفاقی وزیرخزانہ
- امریکا نے ایران کیساتھ تجارتی معاہدے کرنے والوں کو خبردار کردیا
- قومی اسمبلی میں دوران اجلاس بجلی کا بریک ڈاؤن، ایوان تاریکی میں ڈوب گیا
- سوئی سدرن کے ہزاروں ملازمین کو ریگولرائز کرنے سے متعلق درخواستیں مسترد
- بہیمانہ قتل؛ بی جے پی رہنما کے بیٹے نے والدین اور بھائی کی سپاری دی تھی
- دوست کو گاڑی سے باندھ کر گاڑی چلانے کی ویڈیو وائرل، صارفین کی تنقید
- سائنس دانوں کا پانچ کروڑ سورج سے زیادہ طاقتور دھماکوں کا مشاہدہ
- چھوٹے بچوں کے ناخن باقاعدگی سے نہ کاٹنے کے نقصانات
فنون لطیفہ کے فروغ کی ضرورت کیوں؟
ایک مغربی مفکر کے نزدیک انسان کے اندر خوف، بھوک، جنس اور خود نمائی کا جذبہ وہ محرکات ہیں جو انسانی زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں جس سے انسانی شخصیت کے مختلف پہلو سامنے آتے ہیں ایک پہلو حیاتیاتی پہلو ہے جس کے تحت انسان اپنی اور اپنی نسل کی بقا کا طلب گار ہوتا ہے۔
دوسرا معاشرتی پہلو ہے جس کے تحت ایک انسان اپنی زبان، اپنی اقدار، اپنی تہذیب و ثقافت اور تمدن کے تحفظ کا خواہش مند ہوتا ہے۔ معاشی پہلو کے تحت معاشی سرگرمیاںاختیار کرتا ہے، جنسی پہلو کے زیر اثر جنسی فعل انجام دیتا ہے، شخصیت کا ایک پہلو روحانی پہلو بھی ہوتا ہے جو انسان کو مذہب سے وابستہ کرتا ہے۔ان تمام پہلوؤں کے علاوہ ایک پہلو اور بھی ہے وہ انسانی شخصیت کا جمالیاتی پہلو کہلاتا ہے۔
اس پہلو کے تحت انسان شعر و ادب اور فنون لطیفہ مثلاً مصوری، موسیقی، مجسمہ سازی، خطاطی، رقص اور تعمیرات میں دلچسپی لیتا ہے۔ اس پہلو کو بھی انسانی زندگی میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
ایک ماہر معیشت آپ کو غربت اور افلاس کے خاتمے کے لیے بہترین معاشی پالیسی بنا کر دے سکتا ہے ایک فلاسفر زندگی گزارنے کا نیا ڈھنگ پیش کرکے انقلاب کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔ ایک فوجی جنرل آپ کو جنگی تربیت دے کر آپ میں لڑنے کی صلاحیت پیدا کرسکتا ہے لیکن غریبوں سے ہمدردی کا جذبہ اور انقلاب کی نوید کا احساس اپنے ڈراموں، ناولوں، افسانوں اور کہانیوں کے ذریعے ایک ادیب ہی پیدا کرسکتا ہے۔ اس طرح لڑائی کا جذبہ اپنے گیتوں، نغموں اور نظموں کے ذریعے ایک شاعر ہی کرسکتا ہے۔ ایک شاعر الفاظ کو خوبصورت پیمانے میں ڈھال کر سننے والے کو متاثر کرتا ہے۔
ایک ادیب نہایت خوبصورت انداز میں اپنے پیغامات کی ترسیل سے انسان میں احساس کی قوت کو جگاتا ہے۔جس طرح الفاظ کی خوبصورتی ادب اور شاعری کو جنم دیتی ہے اسی طرح آواز کی خوبصورتی موسیقی، رنگوں کی خوبصورتی مصوری، جسمانی حرکات کی خوبصورتی رقص کو جنم دیتی ہے۔ ایک موسیقار سروں سے نئی دھن تشکیل دے کر آواز کا جادو جگاتا ہے، ایک سنگ تراش اپنی سوچ کو مجسمہ کی شکل دے کر اسے لازوال بنا دیتا ہے، ایک مصور خیالات کو رنگوں اور لکیروں کے قالب میں ڈھال کر انھیں زندگی بخشتا ہے یہ تمام فنون فن کی دنیا میں ’’فنون لطیفہ‘‘ کہلاتے ہیں۔
فنون لطیفہ ہمارے خیالات کو خوبصورت بناتے ہیں اور یہ خوبصورت خیالات پرمسرت زندگی کے ضامن ہوتے ہیں۔ ایک شخص جو مٹی کے برتن بناتا ہے اگر وہ خوبصورت خیالات رکھتا ہے تو وہ جو برتن بنائے گا یقینا اس کے برتنوں میں خوبصورتی ہوگی اس کے رکھ رکھاؤ میں سلیقہ اور ڈھنگ ہوگا۔
فنون لطیفہ انفرادی سطح پر ہی نہیں قومی سطح پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں قوم کی تہذیب، ثقافت، معاشرت اور تمدن کو اجاگر کرنے کا ایک اہم ذریعہ بھی ان فنون کے ذریعے بین الاقوامی برادری میں کسی قوم کا تشخص واضح کیا جاسکتا ہے یوں بین الاقوامی رواداری کے فروغ کے لیے ایک اہم عامل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے زندہ قومیں اس کے فروغ کی کوششیں کرتی ہیں۔فنون لطیفہ جمالیات کی دین ہے جمالیات کے مطالعے کے بغیر فنون لطیفہ کا مطالعہ ممکن نہیں۔ جمالیات وہ صفت ہے جس کے ذریعے کوئی چیز اس کے فوائد سے قطع نظر ہمیں پسند آتی ہے اور بے غرضی اور مسرت پر اکساتی ہے۔
جمالیات صرف انسانوں کی خصوصیت ہے اور دوسرے جاندار اس سے محروم ہیں اس میں یہ بات مدنظر ہے کہ کوئی بھی شے جمالیاتی قدر کی حامل نہیں ہوتی بلکہ اس کا انحصار مشاہدہ کرنے والے کے زاویہ نگاہ پر ہوتا ہے۔ مثلاً ایک وحشی جنگل میں ہرن دیکھ کر خوش ہوتا مگر اس کی خوشی اس توقع پر ہے کہ وہ ہرن کا شکار کرے گا اور اس کا گوشت کھائے گا اس کی یہ خوشی جمالیات میں شمار نہیں ہوگی البتہ ایک سیاح ہرن کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے تو یہ خوشی بے غرضی پر مبنی ہے اسے جمالیات کا نام دیا جائے گا۔
جس طرح ایک صحافی کا قلم صحافتی واقعات تحریر میں لاتا ہے تو ہم اس کی تحریر کو ادب میں شمار نہیں کرتے اسی طرح کسی شے کے مشاہدہ میں جمالیاتی رویہ کے برعکس اگر اس میں کسی منافع یا افادیت کے مقصد کو مد نظرکھا جائے تو اس رویے کو ہم جمالیات میں شمار نہیں کریں گے۔ایک فنکار زندگی میں جن تجربات سے گزرتا ہے وہ تجربات اس کی ذات کی گہرائیوں میں چھپ جاتے ہیں۔ پھر یہی تجربات شاعری، افسانہ نگاری، مصوری، رقص اور اداکاری میں اپنا اظہار کرپاتے ہیں۔ فعلی قوتوں کا سرچشمہ دماغ اور اثر پذیر قوتوں کا مرکز دل ہے۔ قلب کے اشتراک عمل کے بغیر ادب اور فنون لطیفہ کا تصور ممکن نہیں۔ ایک دانشور کا قول ہے کہ ’’جب انسان باہر کی دنیا سے لڑتا ہے تو سیاست دان ہوتا ہے جب وہ اپنے اندر کی دنیا سے لڑتا ہے تو ادیب اور فنکار بن جاتا ہے۔‘‘ آج پوری انسانی دنیا اس وقت مادہ پرستی کے نرغے میں ہے۔
دولت کی اندھی ہوس نے انسان کو بے سکون کردیا ہے اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ فنون لطیفہ کو فروغ دیا جائے۔ بعض عناصر کے نزدیک فنون لطیفہ ذہنی عیاشی ہے۔پاکستان کی اکثریت دو وقت کی روٹی کے حصول کی فکر میں مبتلا ہے اس لیے ہمیں فنون لطیفہ کے جھمیلوں میں پڑنے کے بجائے معاشی ترقی کو فروغ دینا چاہیے۔ میرے نزدیک یہ بات جزوی طور پر درست ہے کلی طور پر نہیں یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ غریب آدمی روٹی کے حصول کے ساتھ اپنا ایک مختصر وقت تفریح کے لیے بھی رکھتا ہے۔
چاہے یہ تفریح فلموں کی صورت میں ہو یا گانے کی صورت میں یا مختلف کھیلوں کی صورت میں۔ بہرحال وہ ان میں دلچسپی لیتا ہے اگر فارغ اوقات میں اسے تفریح نہیں ملتی تو وہ منفی سرگرمیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے اس سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ شعر و ادب اور فنون لطیفہ کے شعبے کو فروغ دیا جائے۔ فنون لطیفہ اور آرٹ کے فروغ میں بڑی رکاوٹ کلچر شو نام پر ہونے والے وہ پروگرام ہیں جس میں بے ہودگی اور بھانڈ پن کے مظاہرے کیے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں ملک کا ایک بڑا طبقہ فنون لطیفہ اور آرٹ کے خلاف ہو جاتا ہے۔
لہٰذا اس شعبے سے وابستہ افراد پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس پر غور کریں انھیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ہماری زمین پر وہی ادب اور فنون لطیفہ کامیابی سے ہم کنار ہوگا جس کا تعلق ہماری سرزمین کی مٹی سے ہوگا۔ یاد رکھیں فنون لطیفہ اور ادب اگر اندر کی دنیا (باطن) کا انقلاب برپا نہ کرسکیں تو باہر کی دنیا میں اس کی حیثیت شور شرابے اور نمود و نمائش سے زیادہ کچھ نہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔